
ذرائع ابلاغ اسکین گروپ Zara e Eblagh Scan Group
June 8, 2025 at 11:43 AM
تلنگا عیدگاہ میں عیدین کی نماز درست اور خشوع وخضوع کے ساتھ ہونے کا مسئلہ: ایک سنجیدہ نظر
( محمد احمد رضا چشتی اشرفی رکن آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ یونٹ سملیا )
گزشتہ جمعہ بعد نماز، ہمیں ایک خبر موصول ہوئی جس کے مطابق پرانا سملیا کے امام صاحب علامہ ظہیر الاسلام نے اپنے خطبۂ جمعہ میں یہ ارشاد فرمایا کہ "مسلک اعلیٰ حضرت کے مطابق مائک پر نماز نہیں ہوتی۔ اگر کوئی شخص اس حوالے سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے تو اس کے دھوکے میں نہ آئیں اور مسلکِ اعلیٰ حضرت پر قائم رہیں۔"
اگر یہ بات امام صاحب نے حقیقتاً کہی ہے تو بادی النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس رائے کے اصل محرک نہیں، بلکہ کسی کے اشارے پر ایسا کہنے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ غالب گمان یہی ہے کہ علاقے میں بالخصوص پرانا سملیا میں چند عناصر مسلکی تفریق اور منافرت کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ پرانا سملیا، نیا سملیا اور ڈائٹن جیسے گاؤں میں اکثریت اہل سنت وجماعت کی ہے، اور اکثر اہل سنت دو عظیم خانقاہوں، یعنی خانقاہِ بریلی شریف اور خانقاہِ کچھوچھہ شریف سے وابستہ ہیں۔ ان دونوں سلسلوں کے علما و مشائخ کا مجموعی رجحان مائک پر نماز کے جواز کی طرف ہے۔
خصوصاً خانقاہِ اشرفیہ کچھوچھہ کے اکابر و معتمد علما کا موقف یہ ہے کہ مائک سے نماز درست ہے۔ اسی طرح بریلی شریف سے وابستہ علما میں بھی اکثریت کا یہی فتویٰ ہے کہ مائک کے استعمال سے نماز فاسد نہیں ہوتی، بلکہ جماعت کی سہولت اور صف بندی کے پیش نظر اس کا استعمال باعثِ آسانی ہے۔
یقیناً چند ایسے علما آج بھی موجود ہیں جو حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے اُس وقت کے فتوے پر قائم ہیں، جس میں مائک پر نماز کو محلِ نظر قرار دیا گیا تھا۔ لیکن یہ بات بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ فتوے زمان و مکان اور عرف و حاجت کے تغیر سے بدل سکتے ہیں، اور یہ ایک مسلّمہ اصول ہے۔
چونکہ آج میں خود پچھلے صفوں میں تھا لہذا مجھے بھی اس کی مزید شدت محسوس ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ امام کے تکبیر کہنے کے بعد مکبرین یکے بعدی کرے تکبیر کہتے ہیں اور تاخیر ہو جاتی ہے ۔ جو لوگ میرے قریب میں کھڑے تھے ان لوگوں نے محسوس کیا ہوگا کہ میں مکبرین کے کہنے پر نہیں بلکہ اج نگاہ نیچے نہ رکھ کر میں اگے کی جانب دیکھ رہا تھا اور جیسے ہی اگے کے لوگ رکوع میں جا رہے تھے تو پھر میں بھی رکوع میں جا رہا تھا۔جو لوگ میرے اس پاس کھڑے تھے ان لوگوں نے اس چیز کو محسوس کیا ہوگا۔
تیلنگا عیدگاہ کی صورتِ حال اس وقت انتہائی حساس ہو چکی ہے۔ وہاں مائک کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے، کیونکہ ہر سال نمازِ عیدین کے دوران مکبرین سے تکبیرات میں غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں۔ امسال عید کے موقع پر ایک مکبر صاحب نے درمیان میں تین تکبیرات ادا کر دیں، اور آج بقرعید کی نماز میں دو الگ مکبرین نے پہلی رکعت میں پانچ پانچ تکبیریں کہہ ڈالیں۔
ان واقعات نے جماعت کے نظم کو بکھیر دیا اور عوام کو الجھن میں ڈال دیا۔ کمیٹی کے وہ ممبران جو مائک کے استعمال کے قائل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر مائک کا استعمال نہ بھی ہو تو کم از کم مکبرین کو باقاعدہ تربیت دی جائے، لیکن اس میں بھی کوتاہی برتی گئی — خاص طور پر اُن افراد کی جانب سے جو مائک کے استعمال کے خلاف ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تقریباً 80 فیصد عوام مائک سے نماز کے قائل ہیں، بلکہ اگر پورے ملک پر نظر ڈالیں تو شہری علاقوں کی 99 فیصد مساجد میں مائک کا استعمال عام ہے، اور دیہی علاقوں میں بھی جہاں اجتماع بڑا ہو، مائک سے ہی نماز پڑھائی جاتی ہے۔
یہ بات افسوسناک ہے کہ چند گنے چنے علما آج بھی پرانے فتاویٰ پر جامد ہیں، جبکہ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے مرید و خلیفہ حضرت مفتی نظام الدین صاحب قبلہ نے مائک پر نماز کو جائز قرار دیا ہے۔ اسی طرح عالم اسلام کی جلیل القدر شخصیت حضرت علامہ مدنی میاں ادام اللہ ظلہ علینا بھی اس کے جواز کے قائل ہیں۔
یہی حال دیگر دینی اداروں، مساجد اور خانقاہوں کا ہے جہاں مائک سے نماز، خطبہ، جمعہ اور عیدین کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس لیے اب یہ ضروری ہو چکا ہے کہ تیلنگا عیدگاہ میں بھی مائک کے استعمال کو اپنایا جائے، ورنہ جماعت کا نظم متاثر ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم مسلکی اختلافات کے بجائے فقہی وسعت، دینی مصلحت، اور عوامی سہولت کو ترجیح دیں، اور اپنے مسلک کے جلیل القدر اکابرین کی روشن مثالوں کو سامنے رکھ کر حکمت و اعتدال کے ساتھ فیصلے کریں۔
واللہ أعلم بالصواب
👍
1