
Nigarishat Book Store
May 24, 2025 at 12:03 PM
#حرف شناسی_25
حکایت ہستی اور سرگزشت حیات دو بڑی شخصیات کی دلچسپ خود نوشت سوانح
#عبدالرحمن قاسمی
حکایت ہستی حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی ؒ، بانی مدرسہ سراج العلوم چھپرہ ضلع مئو کی خود نوشت سوانح ہے اور سرگزشت حیات مولانا ڈاکٹر محمد ابواللیث خیرآبادی ،پروفیسر و چیر ہولڈر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملیشیا کی خود نوشت ہے، یہ دونوں خود نوشت سوانح کی کتابیں بے حد دلچسپ اور رہروان علم کے لیے حوصلہ افزائی کا ذریعہ ہیں۔یہ دونوں کتابیں ایک درجن سے زائد کتابوں کے مؤلف و مرتب مولانا ضیاء الحق قاسمی خیرآبادی ( عرف حاجی بابو) کی رہین منت ہیں، اِن کے ہی اصرار اور باربار کی درخواست پر دونوں شخصیات نے اپنی اپنی سوانح عمری قلم بند کیں، بلکہ صاحب ِسوانح کے پیش لفظ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں شخصیات مولانا ضیاء الحق خیرآبادی کی درخواست پر کسرِنفسی اور اپنی عاجزی وانکساری کااظہار کرتے ہوئے سالوں سال تک ’خودنوشت ‘ لکھنے سے کتراتے رہے، مولانا ضیاء الحق خیرآبادی کو لکھنے پڑھنے سے بے حد دلچسپی تھی اور ابھی بھی ہے اُنہوں نے دونوں شخصیات کی زندگی کا قریب سے مطالعہ کیا تھا، اس لیے ضروری سمجھتے تھے کہ اِن کی ’خود نوشت‘ ضرور منظر عام پر آنی چاہیے تاکہ نسل ِ نو کو ان کی حیات سے سبق ملے، چناں چہ مولانا ضیاء الحق خیرآبادی ایک دوسرا حیلہ اپنایا اور اِن شخصیات کی سرگزست مطالعہ اور ذاتی احوال جاننے کے لیے سوالات لکھ کر جوابات طلب کیے، پھر انہوں نے جب قلم اٹھایا تو رُکا کہاں، چلتا گیا، بچپن سے پچپن تک کی یادیں ذہن کی اسکرین پر اسکرول ہوتی گئیں اور پھر داستان ِحیات تیار ہوگئی، حکایت ہستی کا تیسرا ایڈیشن میرے سامنے ہیں اور سرگزشت ِحیات کی پہلی ایڈیشن۔
دونوں شخصیات ( مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمیؒ اور مولانا ڈاکٹر ابواللیث خیرآبادی) کی ابتدائی زندگی کے کچھ احوال میں مطابقت پائی جاتی ہے، مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی ؒ کی والدہ کا انتقال بچپن میں ہوگیا، انہیں اپنی ماں کی صحیح صورت بھی یاد نہیں تھی، البتہ وفات کے دن کا واقعہ لکھتے ہیں کہ :
’’ میری عمر غالباً ڈھائی سا ل کی تھی یا اُس سے زائد رہی ہوگی کہ میری والدہ کا انتقال ہوگیا٬ مجھے اُن کی شکل و صورت یاد نہیں ہے٬ البتہ یہ یاد ہے کہ والد صاحب گھر کی دہلیز میں دروازے کے باہر کی طرف باچشم تر کھڑے تھے اور میری نانی اندر کی طرف کھڑی رورہی تھیں اور میں سراپا حیرت بنا کھڑا تھا اُس کے علاوہ کچھ یاد نہیں‘‘
حکایت ہستی ص ۔68
مولانا ڈاکٹر ابواللیث خیر آبادی کی والدہ بھی اُنہیں بچپن میں داغ ِ رفاقت دے گئیں، والدہ کی وفات کا اُن پر بے حد اثر تھا۔ والدہ کی وفات سے قبل ایام ِطفلی میں آپ پڑھنے سے بہت دور بھاگتے تھے،کھیل کود کا بہت شوق تھا، لیکن والدہ کے انتقال کے بعد اُن کی نصیحتوں کو یادکرکے آنکھیں بھر آتی تھیں پھر آپ خوب محنت کرتے ۔ جب کہ مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی کو کھیل کود کا بالکل شوق نہیں تھا سات سال کی عمر سے ہی مختلف کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے، جو بھی کتاب جہاں مل جائے، بشرطے کہ اُردو میں ہو تو اُسے چاٹ جاتے، کھڑے کھڑے بیٹھے بیٹھے گھنٹو ں مطالعہ کرتے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد دونوں شخصیات نے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا، مولانا اعجازاحمد اعظمی ؒ اور مولانا طاہر حسین صاحب گیاوی ؒ دارالعلوم دیوبند کی اسٹرائیک (۱۳۸۹ا۔مطابق۱۹۶۹ء) کے اصل محرک ٹھہرے اور دونوں حضرات کا دارالعلوم دیوبند سے اخراج ہوگیا ۔ مولانا ڈاکٹر ابواللیث خیر آبادی مدظلہ العالی اپنے کمرے پر اسٹرائیکوں کے قبضے کے بعد اسٹرائیک کے دنوں بغیر اطلا ع کے اپنے دوست مولوی اسرائیل گھوسوی کے ساتھ مرآداباد چلے گئے ، دارالعلوم کھلنے کے بعد اُنہیں مشتبہین میں ڈال دیا گیا اور یوں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ممنوع ہوگیا بعد میں مئو و خیر آباد کی دو معزز و مؤقر شخصیات قاری ریاست علی صاحب ؒ اور محدث الاعظمی ؒ کی سفارش پر دورہ شریف مکمل کرنے کی اجازت ملی اور آئندہ سال شوال میں دارالعلوم کے کسی بھی تخصص کے درجے میں داخلے سے معذرت کا خط آیا اور آپ اپنی تعلیم آگے جاری نہ رکھ سکیں۔ اور مولا نا اعجاز احمد اعظمی ؒ نے امروہہ کےایک مدرسہ سے فراغت حاصل کی۔
مولانا ڈاکٹر ابواللیث صاحب نے فراغت کے بعدکچھ مہینے مدرسہ بیت العلوم مالیگاؤں اور پھر سات سال مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں تدریسی خدمات انجام دی، پھرمدینہ یونیورسٹی تعلیم حاصل کرنے چلے گئے، آپ کا نکاح بچپن میں ہوگیا تھا، آپ کی سات اولادیں ہیں جن میں چار کی پیدائش انڈیا میں ہوئیں اور تین کی مکہ مکرمہ میں، مطلب آپ نے کئی بچوں کے باپ بننے کے بعد علم کی جستجو میں مدینہ یونیورسٹی اور جامعۃ القری مکہ مکرمہ کی خاک چھانی اور تمام تر پریشانیوں اور تکلیفوں کے باوجود عربی میں ڈاکٹریت کی سند حاصل کی اور ابھی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملیشا کے پروفیسر اور چیر ہولڈر ہیں، گذشتہ سال دارالعلوم وقف دیوبند میں اُن کی آمد ہوئی تھی اور انہوں نے ہم طلبہ تخصصات کے سامنے مشکلۃ الحدیث کے عنوان سے محاضرہ پیش کیا ۔ اللہ حضرت کی عمر میں برکت نصیب فرمائے اور خوب خدمات لے ۔ آمین
سرگزشت حیات اٹھار ہ ابواب پر مشتمل ہے ، جس میں خاندانی ماحول ، تعلمی سرگزشت، دارالعلوم میں تین سال ، تدریس ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ، جامعہ ام القری مکہ مکرمہ ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملیشیا ، اولاد ،تصنیفات و تالیفات، مقالات ، مراجعات کتب ، تقاریظ ،تحقیقات وتعلیقات، وقائع و حوادث، یادگار اسفار، شیوخ وتلامذہ اور میرے دوست واحباب کے عناوین سے عبارت ہے۔ کتاب 256صفحات پر مشتمل ہے۔ دینی علوم حاصل کرنے کے بعد عصری علوم حاصل کرنے والے شوقین طلبہ ’ جن کے سامنے کئی بہت سارے چیلینجز ہوتے ہیں ‘ کے لیے نہایت ہی حوصلہ بڑھانے والی کتاب ہے ۔
مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی ؒ نے فراغت کے بعد تبلیغی جماعت میں چلہ لگایا ، قرآن کریم کا حفظ کیا ، اور تدریس کے لیے کئی جگہوں کی خاک چھانی، رمضان کے چھٹی میں طلبہ کی فرمائش پر اُن کے علاقے میں گئے اور دین اسلام کی خوب خدمت کی٬ آپ کی زندگی کا سب سےبڑا عنوان ’ استغناء اور کثرت ِمطالعہ ‘ ہے ۔ حکایت ہستی بارہ ابواب اور 400 صفحات پر مشتمل کتاب ہے، ناشر مکتبہ ضیا ء الکتب ہے ، ہمارے بک اسٹور سے حاصل کی جاسکتی ہے ، یہ کتاب ضرور مطالعہ کریں، زندگی بدلنے والی ،مطالعہ پراُبھارنے والی اور حوصلوں کو مہمیز لگانے والی کتاب ہے ۔قابل ِ مبارکباد ہیں مولاناضیا ء الحق خیر آبادی جنہو ں نے نہ اِن بزرگوں کے داستان ِ حیات رقم کرائیں بلکہ خود ترتیب دیا اور تہذیب و تنقیح کے بعد اپنے مکتبہ سے شائع کیا_ دونوں کتابوں پر مولانا ضیاء الحق خیر آبادی کا مقدمہ ہے، حکایت ہستی میں مقدمہ کے بعد حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی ؒ کا مختصر سوانحی خاکہ ہے، مولانانے یہ اچھا کیا ہے کہ اُن کی داستان ِ حیات سے قبل تعارفی خاکہ قلم بند کردیا ہے ، لیکن یہ سوانحی خاکہ بیس صفحات پر مشتمل ہے ، جو کچھ زیادہ طویل ہوگیا ہے نیز اِس ذیل میں ’حکایت ہستی ‘ کے اقتباسات زائد معلوم ہوتے ہیں۔
________________________________________________
یہ دونوں کتابیں ہمارے بک اسٹور سے حاصل کی جاسکتی ہیں_
ملنے کا پتہ: نگارشات بک اسٹور دیوبند
https://wa.me/+918791519573
ہر طرح کی علمی، فکری اور تحقیقی کتابوں سے آگاہی کے لیے واٹس ایپ چینل ضرور فالو کریں👇
https://whatsapp.com/channel/0029Vaf3eUJFHWq98AplTh2Q