💫 سنہـــــرے اقـوال چینــل 💫
June 6, 2025 at 04:56 PM
از قلم :- رفیع الھدی محمدی
موضوع:- قربانی میں ہونے والی بعض بڑی غلطیاں
حامدا و نصلیا اما بعد
قال اللہ تعالیٰ ﴿قُلۡ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُكِی وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَـٰلَمِینَ﴾ [الأنعام ١٦٢]
قال النبي صلى الله عليه وسلم
مَن عَمِلَ عَمَلًا ليسَ عليه أمْرُنا فَهو رَدٌّ. ( متفق عليه)
معزز قارئین کرام
قبل اس کے آپ کل قربانی پیش کرںں یہ تحریر پڑھنی ضروری ہے تاکہ آپ ان غلطیوں سے بچ سکیں جن کے سبب ممکن ہے کہ کچھ بھی اجر وثواب نہ حاصل ہو
معزز قارئین کرام
عید الاضحی کے دن سب سے محبوب عبادت قربانی کرنا ہے شریعت کا قاعدہ ہے کہ ہر وہ عبادت جسے اسکے وقت میں ادا کیا جائے وہ سب سے افضل عبادت ہے یہاں تک کہ مستحب عبادت کو بھی اسکے وقت میں کیا جائے تو وہ فرض عبادت سے بھی افضل ہے لہذا عید الاضحی کے دن قربانی کرنا یہ سب سے افضل عبادت ہے
معزز قارئین کرام: کل ہم اپنے جانوروں کے گردن پر چھری چلائیں گے لیکن چھری چلانے سے قبل ہمیں ان اعمال سے بچنا نہایت ہی ضروری ہے جن کے سبب ہماری یہ عظیم عبادت قبول نہ ہوگی تو آئیے ان اعمال کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں جن کے سبب ہمارے اجر وثواب میں کمی ہوسکتی ہے
معزز قارئین کرام یہ بات ذھن میں ہمیشہ رہے کہ
قربانی کرنا یہ عظیم عبادت ہے اور کسی بھی عبادت کی قبولیت کیلئے دو شرط کا پایا جانا ضروری ہے اسکے بغیر کوئ بھی عبادت قابل قبول نہیں
١ـ اخلاص
٢ـ اتباع سنت
اخلاص کا مطلب ہوتا ہے ہر وہ عمل جس کا مقصد رب کی خوشنودی ورضا حاصل کرنا ہو ، ذرہ برابر ریا کی بو نہ پائ جائے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
فَاعْبُدِ اللَّـهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ اسکی عبادت خالص اسی کیلئے کی جائے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
إنَّما الأعْمالُ بالنِّيّاتِ (صحيح البخاري ) تمام اعمال کی بنیاد نیت پر ہے
لہذا قرآن وحدیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عبادت صرف رب العالمین کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کی جائے کسی دوسرے کو دکھاکر اپنی تعریف سننے کیلئے نہ کی جائے
ـ تو پہلی چیز ریا کاری کا پایا جانا
بہت افسوس کی بات ہے کہ لوگ عید الاضحی آتے ہی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے ،فخر و مباہات کیلئے،اپنی مدح سننے کیلئے قیمتی جانور خرید کر لاتے ہیں تاکہ لوگ ان کی تعریف کریں بعض لوگ تو جانور خرید کر باہرگھوماتے ہیں اور مقصد محض تعریف سننا ہوتا ہے بعض لوگ فیسبوک ،واٹسوپ ودیگر شوشل میڈیا کے ذریعے پھیلاتے ہیں کہ ہم نے 50 ہزار میں ،1 لاکھ میں جانور لیا ہےلہذا ہم قربانی کرنے سے قبل اخلاص پیدا کریں ورنہ یہ عظیم عبادت بطور وبال جان بن سکتی ہے کیونکہ محض لوگوں جو دکھانے کیلئے یا محض کھانے کیلئے قربانی کرے تو مفتی جامعہ محمدیہ منصورہ دکتور نسیم المدنی کا فتویٰ ہے کہ دائرے اسلام سے خارج ہوسکتا ہے کیونکہ اسکا معاملہ شرک اکبر تک پہنچ جاتا ہے لہذا قربانی کرنے سے قبل رب سے دعا ضرور کرلیں کہ رب العالمین مجھے اخلاص پیدا فرمانا
٢ـ اتباع سنت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
مَن عَمِلَ عَمَلًا ليسَ عليه أمْرُنا فَهو رَدٌّ. ( متفق عليه)
جو بھی ہمارے طریقے سے ہٹ کر عمل کرے گا اسکا وہ عمل مردود ہے یعنی اسکا وہ عمل قبول نہ ہوگا
لہذا قربانی نبی اکرم کے طریقے پر کریں اسکے لیئے ہمیں چند اعمال کرنے ہونگے
١ـ قربانی نماز عید کے بعد کریں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
مَن ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلاةِ فإنَّما ذَبَحَ لِنَفْسِهِ، ومَن ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلاةِ فقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ، وأَصابَ سُنَّةَ المُسْلِمِينَ.(متفق علیہ)
جس نے نماز سے قبل قربانی کی گویا اسنے اپنے لیئے قربانی کیا اور جس نے بعد میں کیا گویا اسنے حقیقت میں قربانی کی اور مسلمانوں کے سنت کو پالیا
لہذا قربانی عید کے نماز کے بعد کریں
٢ـ جانور عیب سے محفوظ ہو
چار قسم کے عیب سے محفوظ ہونا چاہیے
١ـ العوراءَ بَيِّنٌ عوَرُها (جانور کو دیکھنے سے پتہ چلے کہ کانا ہے)
٢ـ والعرجاءَ بَيِّنٌ عرَجُها (جانور کو دیکھنے سے لگے کہ لنگڑا ہے)
٣ـ والمريضةَ بَيِّنٌ مرضُها( جانور کو کوئ بڑی بیماری ہو اور وہ واضح ہو ہلکی پھلکی بیماری کا اعتبار نہیں
٤ـ والمهزولةَ بَيِّنٌ هزالهُا (جانور اتنا کمزور ہو کہ اسکے ہڈی میں گودا نہ ہو یعنی انتہائی کمزور ہو)
إتحاف الخيرة المهرة (٥/٣٢٤) إسناده حسن
یہ چار قسم کے جانور اور ایسا جانور جو انکے مشابہ ہو تو اسکی بھی نہیں چلے گی کیونکہ شریعت کا قاعدہ ہے "الشريعة لا تفرق بين متشابهين" شریعت دو متشابہ چیزوں کے درمیان فرق نہیں کرتی
٣ـ جانور کا دنتا ہونا
لا تَذبحوا إلّا مُسنَّةً (صحيح ابن خزيمة (٤/ ٥٠١) أخرجه في صحيحه)
کہ تم صرف دنتا جانور کی قربانی کرو یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ بعض لوگ 1 سال کی قید لگاتے ہیں اسکی کوئ اعتبار نہیں کیونکہ دنتا جانور ہونا یہ وصف ہے اور شریعت کا قاعدہ ہے "إذا علق الحكم بالوصف فثبت الحكم في كل ما وجد الوصف" جب بھی وصف پایا جائے گا حکم ثابت ہوگا لہذا اگر 1 سال ہونے سے قبل بھی اگر یہ وصف پایا جائے تو یہ حکم لگایا جائے گا
٤ـ جانور کا مالک خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرے
حدیث میں مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے ہاتھوں سے ذبح کرتے
وَنَحَرَ النبيُّ ﷺ بيَدِهِ سَبْعَ بُدْنٍ قِيامًا، وضَحّى بالمَدِينَةِ كَبْشينِ أمْلَحَيْنِ أقْرَنَيْنِ مُخْتَصَرًا(متفق علیہ)
یہ مسئلہ واضح رہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے ہاتھوں سے جانور ذبح کرتے تھے لہذا اپنے ہاتھوں سے قربانی کرنا سنت ہے اگر کوئ نہیں کرتا تو وہ سنت سے محروم ہوگا گرچہ وکیل بنانا جائز ہے لیکن سنت نہ پاسکے گا
٥ـ میت کی طرف سے قربانی نہ کرنا
یہ مسئلہ بالکل واضح ہے لیکن لوگوں نے اس کو بڑا مسئلہ بنادیا ہے یہاں پر شریعت کا ایک قاعدہ ذھن میں رکھیں "ماتوافر علي عهد النبي صلى الله عليه وسلم ولم يفعله فتركه سنة "کہ سبب نبی کے زمانے میں پایا گیا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تو اسکو چھوڑنا سنت ہے آپ خود غور کریں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم 8،9 سال قربانی کیا لیکن کبھی بھی اپنی پیاری بیوی خدیجہ رضی اللہ عنہا کے نام سے نہ کیا یہاں تک کہ آپکی بیٹیاں وفات پاگئیں لیکن انکے نام سے بھی نہ کیا محبوب چچا حمزہ وفات پاگئے لیکن نہیں کیا لہذا نبی چاہتے تو کرسکتے تھے لیکن نہیں کیا یہاں سبب موجود ہے لیکن پھر بھی نہ کیا لہذا اس عمل کو چھوڑنا سنت ہے گویا قربانی میت کے طرف سے نہ کرنا سنت ہے البتہ قربانی کے جانور میں میت کو بطور ثواب شریک کیا جاسکتا ہے اسکی دلیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے
کہ نبی اکرم نے ذبح کیا تو یہ کہا "هذا عنِّي وعمَّن لم يضحِّ من أمَّتي" ( جامع الترمذي صححه البانی رحمہ الله ) کہ یہ میری طرف سے اور میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے جنہوں نے قربانی نہیں کی
تو یہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور ثواب شریک کیا ہے لہذا ہم بطور ثواب شریک کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں اللہ أعلم باللصواب
٦ـ قربانی میں شراکت( گائے میں 7 لوگ بکری میں 1 سے زیادہ نہیں)
گائے میں ٧ لوگ زیادہ سے زیادہ شریک ہوسکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں
دليل :- كُنّا نَتَمَتَّعُ مع رَسولِ اللهِ ﷺ بالعُمْرَةِ، فَنَذْبَحُ البَقَرَةَ عن سَبْعَةٍ نَشْتَرِكُ فِيها.( صحيح مسلم (١٣١٨) صحيح)
بکری میں صرف اور صرف ایک شخص شریک ہوسکتا ہے البتہ ثواب میں دیگر لوگوں کو شریک کرسکتا ہے
اسکی دلیل
كيفَ كانتِ الضَّحايا على عَهدِ رسولِ اللَّهِ ﷺ فقالَ كانَ الرَّجلُ يُضحِّي بالشّاةِ عنهُ وعن أهلِ بيتِه ( جامع الترمذي (١٥٠٥) صححه الألباني رحمه الله) ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ قربانی کیسے کرتے تھے تو فرمایا كانَ الرَّجلُ يُضحِّي بالشّاةِ عنهُ وعن أهلِ بيتِه ایک آدمی ایک بکری ذبح کرتا وہ اپنے طرف سے اور اپنے اھل و عیال کی طرف سے ہوجاتا
٧ـ قربانی کے گوشت کا صدقہ کرنا واجب ہے اتنا کہ صدقہ کا اطلاق ہوسکے
دلیل :- إنما نَهَيْتُ للدّافَّةِ التي دَفَّتْ، كُلُوا، وادَّخِروا، وتَصَدَّقُوا.
سنن النسائي (٤٤٤٣) صححه الألباني رحمه الله أخرجه مسلم (١٩٧١)، وأبو داود (٢٨١٢)، والنسائي (٤٤٣١)
یہاں واضح رہے کہ حدیث کے الفاظ تینوں میں امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور قاعدہ ہے" الأمر يقتضي الوجوب" امر وجوب کا تقاضا کرتا ہے الا کہ کوئ صارف وجوب سے پھیر دے
یہاں كلوا ، وادخروا، وتصدقوا تینوں کا الگ الگ حکم ہے
کلوا کہا گیا یعنی کھاؤ اور کھنا مستحب ہے یہاں امر کا صیغہ ہے لیکن صارف موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کچھ کچھ بھی نہ کھایا
دلیل :- قُرِّبَ إلى رسولِ اللهِ ﷺ خمسُ بدناتٍ أو ستٌّ ينحَرُهُنَّ فطَفِقنَ يَزدَلِفنَ إليه أيتُّهُنَّ يَبدَأُ بها فلما وجبَتْ جُنوبُها قال كلمةً خفيةً لم أفهَمْها فسأَلتُ بعضَ مَن يَليني ما قال؟ قالوا: قال: مَن شاء اقتَطَع
أخرجه أبو داود (١٧٦٥ صححه الألباني
وادخروا یعنی ذخیرہ اندوزی کرو اور یہ جائز ہے جمہور اھل علم نے مستحب بھی قرار دیا ہے البتہ واجب نہیں ہے کیونکہ ادخار کا حکم صیغہ نہی کے بعد آیا ہے اور فقہ کا قاعدہ ہے "الامر بعد الحظر يعيد الحكم علي ما كان عليه قبل الحظر " کہ اگر امر صیغہ نہی کے بعد آئے تو وہ اسی حکم پر لوٹے گا جس پر پہلے تھا لہذا اس قاعدہ کے تحت یہ مباح ہوا کیونکہ پہلے مباح تھا
وتصدقوا یعنی صدقہ کرو اور یہ واجب ہے اسکے وجوب میں علماء کے درمیان اختلاف ہے لیکن راجح قول کے مطابق یہ واجب ہے کیونکہ اسکا کوئ صارف نہیں ہے جو وجوب سے پھیر دے اور یہی شافعیہ اور حنابلہ کا بھی مذھب ہے علامہ امام نووی رحمہ اللہ روضة طالبين کے اندر لکھتے ہیں " يجب التصدق بقدر ينطلق عليه الإسم لان المقصود إرفاق المسلمين فعلي هذا إن اكل الجميع لزمه ضمان ما ينطلق عليه الإسم" لہذا معلوم ہوا کہ صدقہ کرنا واجب ہے
لہذا قربانی کے گوشت کا اتنا صدقہ کرنا ضروری ہے جتنا پر صدقہ کا اطلاق ہوتا ہے اور صدقہ کا اطلاق متعین مقدار پر نہیں ہوتا سماج میں اتنا دیا جائے جتنا دیا جائے تو اسے صدقہ شمار ہوگا
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قربانی کو قبول فرمائے آمین
👍
❤️
💯
8