<<کچھ دل سے❤>>
<<کچھ دل سے❤>>
June 10, 2025 at 07:34 AM
*کیا (قربانی کے ایام میں) تکبیر مقید بدعت ہے؟* 🎙 *فضیلۃ الشیخ محمد اشفاق مدنیؔ حفظہ اللہ* •─════﷽════─• تکبیراتِ مطلق اور مقید کے تعلق سے شیخ مولانا کفایت اللہ سنابلی صاحب کی ایک کلپ کسی نے مجھے بھیجی ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ تکبیرِ مطلق اور مقید کا فرق کچھ نہیں ہے اور اِس نام سے کوئی تکبیر نہیں ہے۔ ✺ *تکبیرِ مطلق و مقید: اصطلاحاتِ علماء:* اصل میں یہ 'مطلق' اور 'مقید' نام، ظاہر ہے کہ شریعت نے نہیں دیے ہیں، یہ علماء ہی نے دیے ہیں۔ 'مطلق' کا مطلب کہ جو کسی وقت کے ساتھ مقید نہ ہو، جس وقت بھی چاہیں، چلتے پھرتے، سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، بازار میں، مسجد میں، بستر پر، اپنے کاروبار میں تکبیر کہنی چاہیے۔ اور کثرت سے کہنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ❐ ﴿لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ﴾ [الْحَجُّ: ٢٨]۔ ’’تاکہ وہ اپنے فائدے کی چیزوں پر حاضر ہوں اور اللہ کا نام لیں چند معلوم دنوں میں، ان چوپایوں پر جو اللہ نے انہیں عطا کیے ہیں۔‘‘ ﴿وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ﴾، ’’ایامِ معلومات‘‘ سے مراد عشرۂ ذی الحجہ ہے۔ ایک سے لے کر دس تک۔ اور اللہ رب العزت نے سورۃ البقرہ میں فرمایا: ❐ ﴿وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ﴾ [الْبَقَرَةُ: ٢٠٣]۔ ’’اور اللہ کو یاد کرو گنتی کے چند دنوں میں۔‘‘ ’’ایامِ معدودات‘‘ سے مراد ایامِ تشریق ہیں۔ تو معلوم یہ ہوا کہ تکبیر اول ذی الحجہ سے لے کر تیرہ ذی الحجہ تک ہے۔ اور اِسے فقہاء اور علماء کی اصطلاح میں 'تکبیراتِ مطلقہ' کہتے ہیں، یعنی بغیر کسی وقت کی قید کے۔ ✺ *تکبیرِ مطلق کا ثبوت اور صحابہ کرام کا عمل:* تکبیرِ مطلق کے ثبوت میں سیدنا عبداللہ بن عمر اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کا عمل بھی ملتا ہے: ❍ ’’وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: يَخْرُجَانِ إِلَى السُّوقِ فِي أَيَّامِ العَشْرِ يُكَبِّرَانِ، وَيُكَبِّرُ النَّاسُ بِتَكْبِيرِهِمَا۔‘‘ ’’سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما عشرۂ ذی الحجہ میں بازار کی طرف نکلتے تھے اور تکبیریں کہتے تھے، اور لوگ بھی ان دونوں کی تکبیروں کی وجہ سے تکبیریں کہتے تھے۔‘‘ [صحیح البخاری تعلیقا بصیغۃ الجزم: قبل رقم: ۹٦۹، وصححہ الألبانی فی الارواء: ٦۵۱، وأوردہ الفاکھي موصولا في أخبار مکہ: ۱۷۰٤، واللفظ لہ، وسندہ حسن]۔ ❍ اور تکبیر کے الفاظ جو صحابہ کرام سے ثابت ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے جو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ: اَللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ۔‘‘ ’’وہ ایامِ تشریق میں یوں تکبیر کہتے تھے: اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔‘‘ [مصنف ابن أبي شيبة: ٥٧٦٩، وصححہ المحقق الشتري] ✺ *تکبیرِ مقید: تعریف، وقت اور دلائل:* اب نو ذی الحجہ کو فجر کی نماز کے بعد سے لے کر، یعنی عرفہ کی صبح سے لے کر، ایامِ تشریق کی آخری نماز جو عصر کی ہے، اُس کے بعد تک، فرض نمازوں کے بعد تکبیرات کہنا۔ یہ نہیں کہ صرف فرض نمازوں کے بعد ہی خاص کر لیا جائے، جیسے جو مطلق ہو رہی تھی، چل رہی تھی، وہ تو چلتی ہی رہے گی، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، بازار میں، بستر پر۔ وہ تو کرنی ہی ہے۔ لیکن بطورِ خاص نماز کے اوقات میں بھی، فرض نماز کے بعد بھی تکبیر کہنے کا جو عمل تھا، یا جو عمل جاری ہے، جسے 'تکبیراتِ مقیدہ' بھی کہتے ہیں، کہ ایامِ تشریق میں یا نو ذی الحجہ سے مطلق بھی تکبیر ہونی چاہیے اور مقید بھی۔ اس کی دلیل آثار ہیں۔ ✺ *ایک اعتراض اور اس کا علمی جائزہ:* مولوی صاحب (کفایت اللہ سنابلی) نے عبارت تو پڑھی کہ ’’فِيْهِ آثَارٌ وَاجْتِهَادَاتٌ‘‘ لیکن ’’آثار‘‘ کا ترجمہ حذف کر دیا، یہ نہیں کہا کہ آثارِ صحابہ ہیں۔ صحابۂ کرام ایسا کیا کرتے تھے۔ علماء کے اجتہاد ہیں، اقوال ہیں، یہ کہہ کر گزر گئے۔ آثارِ صحابہ ہیں۔ اور آثار بھی کسی عام صحابی کے نہیں ہیں، بلکہ علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمۃ اللہ علیہ نے، علامہ ابن رجب حنبلی نے اجماع نقل کیا ہے کہ صحابۂ کرام کا اجماع ہے کہ یہ فرض نمازوں کے بعد تکبیرات کہتے تھے۔ اور آثار کس کے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے، اُن سے پہلے سیدنا عمر، سیدنا علی، سیدنا ابن مسعود، سیدنا ابن عباس، خود سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم اجمعین فرض نمازوں کے بعد تکبیرات کہا کرتے تھے۔ گھر میں سنت پڑھتے تھے، گھر میں فرض نہیں پڑھا کرتے تھے صحابۂ کرام۔ صحابہ کرام، (بعض) مولویوں کی طرح، فرض نمازیں گھروں میں نہیں پڑھا کرتے تھے۔ سنت نماز پڑھا کرتے تھے، فرض نماز مسجد میں پڑھتے تھے۔ ❍ امام بخاری نے نقل کیا ہے، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر معلقاً، سند حذف کر کے: ’’أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يُكَبِّرُ خَلْفَ الصَّلَوَاتِ۔‘‘ کہ سیدنا ابن عمر فرض نمازوں کے پیچھے تکبیر کہا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري تعليقًا، كتاب العيدين، باب التكبير أيام منى وإذا غدا إلى عرفة] سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہی، یہ سب خلفائے راشدین ہیں۔ اور صحابۂ کرام ان کی اقتدا کرتے تھے اور تکبیر کہا کرتے تھے۔ ✺ *تکبیراتِ مقیدہ کا آغاز اور حکمت:* تو اسی لیے نمازوں کے بعد کا اہتمام شروع کب ہوتا تھا؟ عرفہ سے، یعنی عرفہ کی فجر سے لے کر تیرہ تاریخ تک۔ تو اِسی لیے اِسے 'مقید' کہا کہ یہ نمازوں کے ساتھ بھی پڑھو، اور 'مطلق' تو چل ہی رہی ہے۔ ایک تاریخ سے چل رہی ہے تیرہ تاریخ تک۔ ☜ تو ایسا نہیں ہے کہ نو ذی الحجہ کی فجر سے لے کر تیرہ کی عصر تک صرف 'تکبیراتِ مقیدہ' ہی رہیں گی اور 'مطلق' نہیں رہے گی۔ 'مطلق' تو علیٰ حالہٖ جاری ہے، جو یکم سے چل رہی ہے وہ تیرہ تک جاری رہے گی۔ مزید برآں، عرفہ کی صبح سے لے کر ایامِ تشریق کے آخر تک فرض نمازوں کے بعد بھی تکبیرات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ✺ *تکبیرات کا شرعی حکم: مستحب:* اور یہ مستحب ہے۔ تکبیرات، چاہے وہ ایامِ تشریق میں ہوں یا عشرۂ ذی الحجہ میں، 'مطلق' ہوں یا 'مقید'، جو بھی نام فقہاء نے دیا ہے (کہ فرض نمازوں کے بعد کی وجہ سے 'مقید' کہہ دیا ہے)، یہ سب مستحبات ہیں۔ یہ فرائض اور واجبات نہیں ہیں۔ اِس لیے اِس پر اصرار کرنا کہ یہ فرض ہے، یا اِس کی کوئی دلیل ہی نہیں ہے، یا اِس طرح کی اصطلاح ہی صحیح نہیں ہے، یا یہ غیر شرعی اصطلاح ہے، ایسی بات نہیں ہے۔ ✺ *شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا موقف:* الحمدللہ! شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی جس عبارت کا حوالہ دے رہے تھے، وہ بھی 'تکبیراتِ مطلقہ' اور 'مقیدہ' ہی کے ساتھ فتویٰ دیتے ہیں کہ 'مقید' نو تاریخ کی صبح سے لے کر تیرہ تاریخ تک ہے۔ وہ یہ بتا رہے ہیں کہ اس پر کوئی نبی ﷺ کی صحیح اور صریح دلیل (یعنی اس خاص تقسیم اور نام پر) نہیں ہے، بلکہ: ’’فِيْهِ آثَارٌ وَاجْتِهَادَاتٌ۔‘‘ ’’اس میں آثارِ (صحابہ) اور اجتہادات (علماء کے) ہیں۔‘‘ علماء کے اجتہاد بھی ہیں کہ انہوں نے آیات کو سمجھا ہے کہ 'ایامِ معلومات' عشرۂ ذی الحجہ ہیں اور 'ایامِ معدودات' ایامِ تشریق ہیں، اور چونکہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فرض نمازوں کے بعد ایسا کیا کرتے تھے، لہٰذا انہوں نے یہ اصطلاح وضع کر لی کہ وہ 'مطلق' ہے جو پہلے سے جاری ہے اور تیرہ تاریخ تک چلے گی، اور 'مقید' یہ ہے کہ اِن ایام میں، یعنی عرفہ کی فجر سے لے کر (پانچ دن تک)، آپ نمازوں کے بعد بھی تکبیرات کا اہتمام کریں۔ ✺ *خلاصۂ کلام:* تو الحمدللہ! اِس میں آثارِ صحابہ اور علماء کے اجتہادات ہیں، اور الحمدللہ تکبیرات کہنے کی جو عمومی دلیلیں ہیں، وہ اِس وقت کو بھی شامل ہیں اور اُس صورت کو بھی۔ ☜ ہاں! اگر کوئی شخص صرف یہ سمجھتا ہے کہ اِن پانچ ایام میں (یعنی عرفہ، نو ذی الحجہ کی فجر سے لے کر تیرہ تاریخ تک) صرف فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ یا تین مرتبہ تکبیر کہنی چاہیے اور بقیہ اوقات میں نہیں کہنی چاہیے، تب اُس پر بدعت کا حکم لگانا صحیح ہوگا۔ لیکن اگر وہ 'تکبیراتِ مطلقہ' بھی کہہ رہا ہے اور 'مقیدہ' بھی، تو هٰذَا هُوَ الْمَطْلُوْبُ۔ وَبِاللهِ التَّوْفِيْقُ۔ https://www.facebook.com/share/v/19For4VpaU/ ┈┉┅━━━❁━━━┅┉┈
❤️ 👍 🤍 🥀 7

Comments