Darpan Nibraas
Darpan Nibraas
May 18, 2025 at 11:05 AM
دہلی لال قلعے میں مشاعرہ تھا۔ "دِل" کا قافیہ باندھنا ضُرُوری تھا۔دیکھنا یہ تھا اس قافیے کو کون کِس ڈھنگ سے باندھتا ہے۔ اساتذہِ وقت جمع تھے۔ اِن میں سیمابؔ اکبر آبادی بھی تھے اور جِؔگر مرادآبادی بھی ، سیمابؔ نے اِس قافیے کو یوں باندھا۔ ؎خاکِ پروانہ رکِ گُل، عرقِ شبنم سے اُس نے ترکیب تو سوچی تھی، دِل نہ بنا۔۔۔! شعر ایسا ہو گیا شور مچ گیا سب کا خیال تھا اِس قافیے کو کوئ اِس سے اچھا کیا باندھے گا؟ سب کی نظریں جِؔگر پر لگی ہُوئیں تھیں معاملہ دِل کا ہو اور جؔگر چُوک جائیں وہ شعر پڑھا کے سیماب کا شعر ذہنوں سے محو ہو گیا۔ ؎زندگانی کو میری عقدہء مُشکل نہ بنا برق رکھ دے دِل میں میرے، دِل نہ بنا۔۔۔! یہ ایسا دِلچسپ مقابلہ ثابت ہُوا اس قافیے کو ردیف میں بدل کر اگلے مشاعرے کے لیے پیش کر دیا گیا یعنی ”دِل نہ بنا“ کی بجاۓ ”دِل بنا دیا“ پر طبع آزمائی کرنی تھی۔ یہ مشاعرہ بھی لال قلعہ دہلی میں ہُوا اِس مشاعرے میں حیدرؔ دہلوی کے شعر نے دھوُم مچا دی۔ ؎اِک دِل پہ ختم قُدرَتِ تخلِیق ہو گئی سب کُچھ بنا دیا جو میرا دِل بنا دیا۔۔۔! حیدرؔ دہلوی اُستادِ وقت تھے اور خیام الہند کہلاتے تھے یہ شعر ایسا بے اختیار ہو گیا کہ لگتا تھا اب کوئی کیا کہے گا۔ جِؔگر نے یہ شعر پڑھا اور یادگار پڑھا۔ ؎بے تابیاں سمیٹ کر سارے جہان کی جب کُچھ نہ بن سکا تو میرا دِل بنا دیا۔۔۔! شعر ادا ہونے کی دیر تھی حیدرؔ دہلوی سکتے کی سی کیفیت سے میں اُٹھے۔جا کر جِؔگر کو گلے لگا لیا اِن کے ہاتھ چُومے اور وہ صفحات جن پر اُن کی شاعری درج تھی جِؔگر کے پاوں میں ڈال دیے۔۔۔! سلمان امروہوی
🖤 1

Comments