
Darpan Nibraas
May 18, 2025 at 11:24 AM
سودا ہے جو دل دے کے خریدار سے الجھے
سلجھے ہوئے ہم سے نہ کبھی یار سے الجھے
ہونے نہ دیا رشک نے اظہار تمنا
ہر بات میں ہم اپنی ہی گفتار سے الجھے
الجھاؤ سے الجھاؤ ہیں اس عشق میں یا رب
دل دار سے اٹکے تھے کہ اغیار سے الجھے
کیا سیر ہو شانے سے لڑے گر دل صد چاک
ایک ایک گرفتار گرفتار سے الجھے
اٹکے تو کسی چشم فسوں ساز سے اٹکے
الجھے تو کسی طرۂ طرار سے الجھے
چوری سے بھی پہنچے نہ ترے گھر میں کبھی ہم
برسوں یوں ہی خار سر دیوار سے الجھے
کھلتے نہیں تم داغؔ الجھتی ہے طبیعت
اچھے کسی عیار سے مکار سے الجھے
داغ دہلوی
👍
🖤
😒
3