
Khalid Saifullah Rahmani
June 13, 2025 at 01:08 AM
🔰وحدتِ دین نہ کہ وحدتِ ادیان
🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
#شمع_فروزاں🕯
https://whatsapp.com/channel/0029Va9wjem47Xe94AA3CF37
اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لئے ایک راستہ بنایا ہے، اسی راستہ سے اس چیز کو حاصل کرنے میں انسان کی بھلائی ہے اور اس راستہ کو چھوڑ دینے میں اور اپنی طرف سے نئے راستے بنانے میں انسان کی بربادی ہے، اللہ تعالیٰ نے غذا کو پیٹ تک پہنچانے کے لئے منھ کا راستہ رکھا ہے اور اسی کے لحاظ سے جسمانی نظام بنایا گیا ہے، جب انسان کوئی لقمہ اپنے منھ میں رکھتا ہے تو خود بخود منھ میں لعاب پیدا ہوتا ہے، اور یہ لعاب کھانے کے ساتھ مل کر اس کو معدہ تک پہنچانے کے لائق بناتا ہے، پھر معدہ اسے پیستا ہے، جو اجزاء انسان کے لئے کار آمد ہیں، ان کو جذب کرتا ہے اور جو بے فائدہ ہیں، انہیں ایک مقر ر راستہ سے باہر پھینک دیتا ہے، اگر انسان صرف کھانے اور ہضم ہونے کے اس نظام پر غور کر لے تو خدا کے وجود پر ایمان لانے کے لئے کافی ہے، سانس کی نالی کے ذریعہ آکسیجن جسم کے اندر جاتی ہے اور پھیپھڑے تک پہنچتی ہے، اس سے انسان کا پورا نظام چلتا ہے، اگر کوئی شخص کھانے کی نالی کی بجائے غذا کو ناک میں ڈال دے، یا کوئی لقمہ سانس کی نالی میں ڈال دے تو زندگی خطرے میں پڑ جائے گی، جس سانس کے ذریعہ زندگی قائم رہتی ہے اور جس غذا سے انسان کا وجود ہے، وہی اس کے لئے ہلاکت کا سبب بن جائے گا۔
اسی طرح ایک راستہ وہ ہے، جو انسان کو اس دنیا سے آخرت کی کامیابی کی طرف لے جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ اس راستہ کی رہنمائی کی ہے اور اس کو کھول کھول کر انسانیت کے سامنے پیش کیا ہے، اسی راستہ کو اسلام کہا گیا ہے: ان الدین عند اللہ الاسلام (آل عمران: ۱۹) اسلام کے معنی سر جھکا دینے کے ہیں، یعنی ایسا طریقہ زندگی جس میں انسان ایک اللہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیتا ہے، اس کی رضا کے مقابلے میں اپنی خواہشات کو بھول جاتا ہے، یہی طریقہ اللہ کے یہاں مقبول ہے، اس سے ہٹ کر کوئی اور طریقہ اللہ کی بارگاہ میں قابل ِقبول نہیں؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ومن یتبع غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الآخرۃ من الخاسرین ( آل عمران: ۸۵) یہ دین جو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے، انسان کی کامیابی اور نجات اسی میں ہے ،اس کے علاوہ انسان کوئی بھی راستہ اختیار کرے، وہ اس کے لئے نقصان اور ناکامی کا راستہ ہے۔
اسلام کی اگرچہ آخری صورت جو قیامت تک قائم رہے گی، وہی ہے جس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے؛ لیکن اسلام اس کائنات انسانی میں اول دن سے رسولوں کے ذریعہ آتا رہا ہے، حضرت آدم پہلے انسان بھی تھے اور پیغمبر بھی، پھر، تمام نبیوں اور رسولوں نے اسی دین کی دعوت دی:
ووصیٰ بھا ابراھیم بنیہ ویعقوب یٰبنی ان اللہ اصطفیٰ لکم الدین فلا تموتن الا وأنتم مسلمون (البقرہ: ۱۳۲)
أم کنتم شھداء اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لبنیہ ما تعبدون من بعدی قالوا نعبد الھک والہ ابائک ابرھیم واسمعیل واسحق الھا واحد ونحن لہ مسلمون (البقرہ: ۱۳۳)
’’ابراہیم بھی اپنے بیٹوں کو اسی کی وصیت کر گئے ہیں اور یعقوب بھی (کہ) میرے بیٹو! بے شک اللہ نے تمہارے لئے دین کو پسند فرما لیا ہے؛ اس لئے اسلام ہی کی حالت میں تمہیں موت آنی چاہئے‘‘
’’کیا تم اس وقت موجود تھے، جب یعقوب کا آخری وقت آیا ، اس وقت یعقوب نے اپنے بیٹوں سے کہا: تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟ انھوں نے جواب دیا: ہم آپ کے خدا، آپ کے باپ دادا ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کے خدا یعنی ایک ہی خدا کی عبادت کریں گے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے۔ ‘‘
اس دین ِ حق کی آخری اور مکمل شکل وہ ہے، جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ انسانیت تک پہنچی، پچھلی کتابوں میں جو تحریف اور ملاوٹ پیدا کر دی گئی تھی، قرآن مجید کے ذریعہ ان کو دور کیا گیا، پچھلی شریعتوں کے بعض احکام منسوخ کر دئیے گئے تھے؛ا س لئے ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی، جس میں منسوخ اور تحریف شدہ احکام نہ ہوں، یہ ضرورت قرآن مجید کے ذریعہ پوری کی گئی۔
یوں تو آپ سے پہلے بھی ہر دور میں اللہ کے نبی آتے رہے اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک ہی وقت میں مختلف علاقوں کے لئے الگ الگ پیغمبر بھیجے گئے، جو اپنے مخاطب کی زبان سے واقف تھے، اور اسی زبان میں ان پر آسمانی کتاب نازل کی گئی؛ لیکن سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے بعد جو بھی پیغمبر پیدا ہوئے، وہ ان ہی کی نسل سے پیدا ہوئے، ان کے دو صاحبزادے تھے: سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام ،جن کی والدہ مصری نژاد خاتون حضرت ہاجرہ ؑ تھیں، ان کی نسل سے محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے، دوسرے : سیدنا حضرت اسحاق علیہ السلام ، جن کی والدہ حضرت سارہؑ تھیں، تمام انبیاء بنو اسرائیل حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل سے تھے، حجاز مقدس اور اس کے قلب میں آباد مکہ مکرمہ میں کعبۃ اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر فرمائی، جہاں پوری دنیا کے مسلمان فریضۂ حج ادا کرنے کے لئے جاتے ہیں، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی نے فلسطین کے شہر بیت المقدس میں بھی عبادت گاہ تعمیر کی، جو آج ’’ مسجد اقصیٰ‘‘ کہلاتی ہے۔
انبیاء بنی اسرائیل کی ایک بڑی تعداد ہے؛ لیکن جن پیغمبروں سے منسوب قومیں آج تک موجود ہیں اور دنیا میں آباد ہیں، وہ سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ماننے والے یہودی کہلائے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے عیسائی، اس طرح دنیا کے تین بڑے مذہبی گروہ: مسلمان، یہود، اور عیسائی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نسبت رکھتے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیادی تعلیم توحید کی تھی؛ مگر یہودیوں اور عیسائیوں نے تحریف اور آمیزش پیدا کر دی؛ اس لئے آج حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی تعلیمات مسخ شدہ اور تحریف شدہ حالت میں ہیں، اور جو کچھ ہیں، ان پر بھی ان قوموں کا عمل نہیں ہے، نہ ان کے خواص کا نہ عوام کا، سیدنا ابراہیم اور تمام انبیاء کی بنیادی تعلیم عقیدہ توحید پر مبنی تھی، آج بھی تورات یہاں تک کہ خود انجیل میں بھی توحید سے متعلق واضح مضامین موجود ہیں، جن میں بہت خوبصورتی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا تعارف کرایا گیا ہے، جیسے کسی سامان میں ملاوٹ پیدا کرنے کے بعد اُس سامان کے کچھ نہ کچھ اجزاء اس میں باقی رہ جاتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ چاول میں ملاوٹ کی وجہ سے وہ مٹی بن جائے، اور گیہوں میں ملاوٹ کی وجہ سے وہ پتھر بنا جائے، اسی طرح تورات وانجیل میں ڈھیر ساری تحریفات کے باوجود دین حق کی سچائیوں کے ذرات بھی موجود ہیں، عقیدۂ توحید بھی ہے ، رسالت اور وحی اور آسمانی کتاب کا تصور بھی ہے، جنت اور دوزخ کا بھی تذکرہ ہے، حلال وحرام کے احکام بھی ہیں؛ لیکن ان قوموں نے اس دین کو پس پشت ڈال دیا، اس کا نتیجہ ہے کہ ان کے مختلف فرقوں میں مشرکانہ رسوم ورواج بھی آگئے، ملحد اور ددھریہ بھی یہودی اور عیسائی کہلانے لگے، انھوں نے اللہ کی شریعت کی بجائے اپنی خواہش اور شہوت کو اپنی شریعت بنا لیا،غرض کہ یہودی اور عیسائی دین ابراہیمی کے راستے سے ہٹ چکے ہیں اور احکام الٰہی سے آزاد ہو چکے ہیں، صرف امت مسلمہ اپنی بہت سی کمیوں اور کوتاہیوں کے باوجود دین ابراہیمی پر قائم ہے۔
اب اس وقت مغربی دنیا کی طرف سے مسلمانوں کو راہ حق سے ہٹانے کے لئے ’’ ابراہیمہ‘‘ کے نام سے ایک نیا فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کو اس تصور کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے کہ اسلام، یہودیت اور عیسائیوں کے درمیان قربت پید اکی جائے اور اس کے لئے ایسے مراکز قائم کئے جائیں، جن میں مسجد، چرچ اور یہودی عبادت گاہ ایک ہی احاطہ میں ہوں، مغربی قوتیں اسلام کو یہودیت اور عیسائیت میں ضم کرنے کے لئے اس اصطلاح کا استعمال کر رہی ہیں، جب ۱۹۷۹ء میں مصر اور اسرائیل کے درمیان ’’ کیمپ ڈیوڈ ‘‘ معاہدہ ہوا، جس کا محرک امریکہ تھا تو امریکی صدر جمی کارٹر نے کہا کہ ’’ آئیے ہم جنگ کو ایک طرف رکھ دیں اور ہم ابراہیم کے تمام پیاسے بیٹوں کے لئے امن کا ایک معاہدہ کریں؛ تاکہ مکمل انسان ہمسائے؛ بلکہ مکمل بھائی بہن بن جائیں‘‘ پھر ۱۹۹۳ء میں میں اوسلو معاہدہ ہوا، اس وقت ایک اور امریکی صدر کلنٹن نے کہا: ’’ آج اس بہادری کے سفر میں ہم ابراہیم کے بیٹے اسحاق اور اسماعیل کے ساتھ مل کر امن کو اپنے دل وجان سے پیش کر رہے ہیں‘‘ پھر ۱۹۹۴ء میں جب اسرائیل اور اردن کے درمیان معاہدہ ہوا تو اس موقع پر اردن کے شاہ حسین نے کہا: ’’ آج کے دن کو ہم اور ہماری نسلیں ابراہیم کے بیٹوں کی حیثیت سے یاد رکھیں گی‘‘۔
اسلام میں’’ ابراہیمیہ‘‘ کے نام سے یا کسی اور نام سے مختلف مذاہب کے معجون مرکب اور ملغوبہ کا کوئی تصور نہیں ہے؛ مگر افسوس کہ عرب قائدین نے اپنی نا اہلی اور ناسمجھی کی وجہ سے اس تصور کو قبول کرنے میں احمقانہ پیش قدمی کی ہے، مصر کے سابق صدر انور السادات نے اسی جذبہ کے تحت سینا کے علاقہ میں ’’ مجمع الادیان‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا تھا، یہ اصطلاح اس وقت اور زیادہ مشہور ہوئی اور عالمی سطح پر اس کا آوازہ بلند ہونے لگا، جب ۲۰۲۰ء میں امریکہ کے زیر سر پرستی عرب امارات اور بحرین کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم کرنے کی بات سامنے آئی اور ستمبر ۲۰۲۰ء میں وہائٹ ہاؤس میں اُس معاہدہ پر دستخط ہوا، جس کو امریکی صدر ٹرمپ نے ’’ابراھام معاہدہ‘‘ کا نام دیا، اور اسی کا ایک مظہر یہ کہ عرب امارات کی راجدھانی ابو ظہبی میں ’’ ا براھیمہ ہاؤس‘‘ کا افتتاح ہوا، جس میں مسجد، چرچ اور یہودی عبادت گاہیں اکھٹے طور پر بنائی گئیں، مغرب میں ایک خاص سازش کے تحت یہ خلاف ِواقعہ اور ناقابل ِقبول تصور پیش کیا گیا ہے اور افسوس کہ عالم عرب نے اپنی بے بسی، نافہمی اور مغرب کی خوشامد میں اس اصطلاح کو قبول کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔
یہ دراصل وحدت ِادیان کی ایک عالمگیر کوشش ہے، اس کی ابتداء تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب تین قوموں سے ہوا ہے؛ لیکن اندیشہ ہے کہ بتدریج اس میں دیگر بڑے مذاہب خاص کر ہندو اور بودھ دھرموں کو بھی شامل کر لیا جائے۔
’’مذہب‘‘ بنیادی طور پر تین عناصر کو شامل ہوتا ہے: عقیدہ، شریعت اور اخلاق ، اخلاقی تعلیمات تمام ہی مذاہب میں ملتی جلتی ہیں، ہر مذہب میں دوسروں کے ساتھ حسن سلوک، بڑوں کے ساتھ احترام ، چھوٹوں کے ساتھ شفقت ، ماں باپ کی خدمت، پڑوسیوں کے ساتھ بہتر سلوک، اسی طرح صفائی ستھرائی کی تعلیم دی گئی ہے؛ البتہ اس سلسلہ میں اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے اخلاقی تعلیم کو پورے ایک نظام کی شکل میں پیش کیا ہے؛ تاکہ لوگوں کے لئے اس پر عمل کرنا آسان ہو جائے، جیسے رشتہ داروں کے ساتھ حُسن سلوک، مذاہب کی ایک مشترک تعلیم ہے؛ لیکن اسلام نے نفقہ اور وراثت کا قانون اور مختلف رشتہ داروں کے حقوق متعین کر کے اس کی متعین صورت مقرر کر دی ہے، صفائی ستھرائی کو ہر مذہب میں پسند کیا گیا ہے؛ لیکن اسلام نے اس کے لئے استنجاء، وضو غسل، نماز ادا کرنے کے لئے لباس اور جگہ کی صفائی کے تفصیلی احکام دئیے ہیں، اخلاقی پہلوؤں کو جب قانون کے دائرے میں لے آیا جاتا ہے، تو ان پر عمل آسان ہو جاتا ہے اور ہر شخص ان کی پابندی کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
عقیدہ کے معاملہ میں اسلام مکمل طور پر عقیدۂ توحید کا داعی ہے، اور مسلمان ہونے کے لئے توحید کا اقرار کافی نہیں ہے؛ بلکہ شرک سے برأت کا اظہار بھی ضروری ہے؛ اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: اني برئی مما تشرکون (انعام: ۷۸) اب غور کیا جائے کہ جو مذہب ایک خدا کو مانتا ہے اور جس مذہب میں تین تین خدا مانے گئے ہوں، یا خدا کے اختیارات بندوں کے ہاتھ میں دے دئیے گئے ہوں، یا جس میں خدا کی مخلوق کو یہاں تک کہ انسان سے کم درجہ کی مخلوق کو بھی خدا قرار دیا گیا ہو، وہ کیسے ایک ہو سکتے ہیں؟
جہاں تک شریعت کی بات ہے تو اسلام میں حلال وحرام پسندیدہ اور ناپسندیدہ افعال کی ایک پوری فہرست ہے، جو امور جائز ہیں ان میں کوئی فرض ہے اور کوئی واجب، جو امور ناجائز ہیں، ان میں کوئی حرام ہے اور کوئی مکروہ، جب کہ موجودہ یہودیت اور عیسائیت نے اپنے آپ کو شریعت کے احکام سے پوری طرح آزاد کر لیا ہے، ’’ سود‘‘ کو یہودیت اور عیسائیت میں بھی حرام قرار دیا گیا ہے؛ مگر آج پوری مغربی دنیا سود اور قمار میں نہ صرف مبتلا ہے؛ بلکہ اس کی داعی ہے، زنا کے حرام ہونے پر تورات اور قرآن مجید دونوں کا اتفاق ہے؛ لیکن آج عیسائی دنیا میں زنا کی حرمت کا کوئی تصور نہیں؛ بلکہ ایسے خیالات کو دقیانوسیت سمجھا جاتا ہے تو ایسے مذاہب کو ایک کیسے بنایا جا سکتا ہے، یہ ایک غیر حقیقت پسندانہ بات ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک ہی رنگ سرخ بھی کہلائے اور سفید بھی، یہ کیسے ممکن ہے؛ اس لئے وحدت ادیان یا مغرب کے نام نہاد مذہب ’’ابراہیمیہ‘‘ دین ِحق کو حقانیت سے محروم کرنے کی ایک گہری اور شاطرانہ سازش تو ہو سکتی ہے؛ لیکن کسی بھی صاحب عقل کے لئے قابل ِقبول نہیں ہو سکتی۔
دین ِحق کو اس کی سچائی سے محروم کرنے کے لئے ایسی کوششیں ہمیشہ سے ہوتی رہی ہیں، جب اہل مکہ نے اسلام کے ننھے منے پودے کو اکھاڑنے کی ہزار کوششیں کیں اور ناکام و نامرا د رہے تو انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک ملے جلے مذہب کو ماننے کی پیش کش کی کہ ہم بھی آپ کے خدا کی عبادت کر لیں اور آپ بھی ہمارے بتوں کی پوجا میں شامل ہو جائیں؛ لیکن قرآن مجید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ صاف اعلان کرا دیا کہ میں تمہارے باطل معبودوں کی عبادت نہیں کر سکتا: لا أعبد ما تعبدون (الکافرون: ۲) اسی طرح مسیلمہ کذاب نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ، اس نے اپنے متبعین کی ایک بڑی جماعت تیار کر لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہلایا کہ ہم لوگ نبوت کو آپس میں تقسیم کر لیں آدھے لوگ آپ کو نبی تسلیم کریں اور آدھے مجھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو مسترد فرما دیا تو جنگ یمامہ کا واقعہ پیش آیا، جس میں بارہ ہزار صحابہؓ شہید ہوئے، جن میں سات سو حافظ قرآن تھے، اسی حادثہ کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اندر قرآن مجید کو جمع کرنے کا خیال پیدا ہوا، جو عہد نبوی کے تمام غزوات میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی مجموعی تعداد ۲۵۵؍ سے زیادہ ہے۔
اس طرح کی کوششیں کئی بار کی گئی ہیں، جن میں مغل دور میں اکبر کے’’ دین الٰہی‘‘ نے بھی بہت شہرہ حاصل کیا، اکبر چاہتا تھا کہ اسلام اور ہندو مت کو ملا کر ایک ملا جلا مذہب تشکیل دیا جائے، اس کے لئے اس نے بعض گمراہ نام نہاد مسلمان مولویوں اور ہندو مذہب کے واقف کاروں سے مدد حاصل کی ، اور اس نئے مذہب کو ’’ دین الٰہی ‘‘ کا نام دیا ، شیخ احمد سرہندیؒ نے اس کے خلاف سخت مزاحمت کی، جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، اپنی زندگی کو خطرہ میں ڈالا اور اس سازش کو ناکام بنایا، یہی ان کا سب سے بڑا تجدیدی کام تھا، جس کی وجہ سے وہ’’ مجدد الف ثانی‘‘ کہلائے۔
بعد میں بھی خاص کر ۱۹۴۷ء سے پہلے اور اس کے بعد بعض قائدین کی طرف سے اس طرح کی باتیں کہی گئیں اور خواہش کی گئی کہ مسلمان ہندو مذہب کے بعض نظریات کو قبول کر لیں، اور برادران وطن اسلام کی بعض حقیقتوں کو قبول کر لیں، ظاہر ہے یہ بات مسلمانوں کے لئے قابل ِقبول نہیں تھی، دونوں مذاہب کے درمیان اتنا تضاد ہے کہ ہندو مذہبی قائدین کے لئے بھی اس کو قبول کرنا ممکن نہیں تھا؛ چنانچہ اگرچہ اکا دکا لوگوں نے اس نظریہ کی تائید کی، یہاں تک کہ ۱۹۴۷ء سے پہلے جو آخری مردم شماری ہوئی، اس میں بعض حضرات نے مذہب کے خانہ میں اپنے لئے ’’ محمدی ہندو‘‘ کی تعبیر استعمال کی؛ لیکن اس تصور کو فروغ حاصل نہیں ہو سکا۔
اگر اس کوشش کا مقصد اہل مذاہب کے درمیان اتفاق اور رواداری کا ماحول پیدا کرنا ہوتو تو اس کا راستہ وہ ہے، جو قرآن مجید نے بتایا ہے کہ ہر قوم اپنے مذہبی تصورات اور مذہبی احکام پر قائم رہے، اور جیسے وہ خود اپنے مذہب پر عمل کرے، دوسرے اہل مذاہب کے لئے بھی اس حق کو تسلیم کرے کہ وہ بھی اپنے مذہب کے مطابق عقیدہ رکھیں اور اپنے مذہب کے مقرر کئے ہوئے قانون ِزندگی پر عمل کریں، قرآن کریم کے الفاظ میں: لکم دینکم ولی دین (الکافرون:۶) باہم اخوت اور امن وامان کا حل یہی ہے کہ ہر آدمی اپنے مذہب پر عمل کرے اور دوسرے کے ساتھ بہتر سلوک کرے، ہر ایک کی جان ومال ، عزت وآبرو، مذہبی جذبات کا احترام کیا جائے، قرآن مجید میں بارہا ان حقوق کو کھول کھول کر بیان فرمایا گیا ہے اور رواداری، تحمل اور حُسن سلوک کی دعوت دی گئی ہے، مسلمانوں کو ایسے فتنوں کے بارے میں با شعور رہنا چاہئے اور ایسے دام میں آنے سے خود کو محفوظ رکھنا چاہئے ، اللہ تعالیٰ اس فتنہ سے عالم اسلام کی بھی حفاظت فرمائے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی بھی۔
۰ ۰ ۰
❤️
🎉
👍
4