🌹 اردو ادب 📚
June 5, 2025 at 07:03 AM
*کنجری۔۔۔* (میرا افسانچہ جسے بین الاقوامی مقابلہ میں پذیرائی ملی۔۔ احباب کی نذر ) ابھی سورج ڈھلا نہیں تھا۔ میں اپنے گھر کے گیٹ پر پہنچ چکا تھا۔ دراصل میں اور میری بیگم گھر کے لئے نیا فرنیچر دیکھنے Habitt پر گئے تھے۔۔ برانڈڈ فرنیچر اور ھوم اسیسریز کی فنشنگ اور ڈیزائن کمال ہوتا ہے۔۔ پھر بیگم کا شوق ہے کہ جب فرنیچر لیا جائے تو کم ازکم اس پاس کے کسی بندے کے گھر میں اس جیسا نہ ہو ویسے بھی ابھی کچھ دنوں میں میری بیٹی انگلینڈ سے پڑھ کر آ رہی ہے تو وہی پرانا ماحول اسے بور کر دے گا۔۔ ابھی میں نے گیٹ پر ہارن کیا ہی تھا کہ سامنے والے گھر پر ایک کیب ا کر رکی اس میں سے ایک نوجوان 25 سے 30 سال کے درمیان کی عمر کی خاتون اتری،شمپین کے رنگ کی سن گلاسسز لگائی ہوئی تھیں جن میں میں اس کا پنک رنگ سورج کی سنہری جاتی ہوئی کرنوں میں یوں لگ رہا تھا جیسے یہ سنہری روشنی اس کے چہرے سے پھوٹ رہی ہے ۔۔کبھی آپ نے rosé wine کا گابلیٹ شام کے وقت پکڑا ہو تو اس سے پھوٹنے والی ہلی گلابی روشنی یا گلاب کے پھول پر شام کی آخری کرنیں پڑتی دیکھی ہیں بالکل ویسی ہی پیمانے کی طرح ۔ جسم ہلکا سا بھرا ہوا۔۔ کمان کی طرح تنی ہوئی۔۔ کمر اور اس پر آف وائٹ کرتا شائد یہ کوئی پری ہمارے محلہ میں اتری ہے۔۔ میں نے ایک نظر میں اس کا ایکسرے کر لیا تھا گاڑی پورچ میں لے جاتے ہوئے میری بیگم نے میری آنکھوں کی اس داد و عیش کو محسوس کر لیا تھا۔۔ میری طرف دیکھے بغیر بولی یہ شمائلہ ہے۔ ککککون۔۔؟ میں نے اپنی کیفیت چھپاتے ہوئے پوچھا۔۔ وہی جو کیب سے اتر رہی تھی۔۔ اس نے کہا۔۔ شمائلہ وہ ظہیر صاحب کی بیٹی۔۔ اچھا اچھا۔۔ وہ جس کی ڈیڑھ سال پہلے شادی ہو گئی تھی؟؟ میں نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔۔ ہاں۔۔ لیکن بیچاری کے ساتھ بہت برا ہوا۔۔ اس کی طلاق ہو گئی ہے ۔ خاوند نے آکر بہت تماشہ لگایا اس پر الزامات لگائے اور چھوڑ کر چلا گیا ہے۔۔ ایک چھوٹی بیٹی 6 ماہ کی بھی ساتھ لائی ہے۔۔ بیگم ایک سرد آہ کھینچ کر بولی۔۔ اوہ۔۔۔ بہت افسوس ہوا ۔۔ ابھی تو بہت نوجوان ہے کیسے اس کی زندگی گزرے گی۔۔ میں یہ کہتے ہوئے نجانے کیوں اپنی مسکراہٹ چھپانے میں ناکام رہا۔ مگر شکر ہے بیگم گاڑی سے اترنے میں مصروف تھی۔۔ میں اپنے کمرے میں آگیا اور اپنا کوٹ اتارنے لگا اچانک شیشے کے آگے جا کھڑا ہوا ۔۔ اور اپنا جائزہ لینے لگا۔۔ بس تھوڑا پیٹ آگے کو نکل آیا ہے اور کنپٹیوں پر بال سفید ہو گئے ہیں ورنہ آج بھی بہت سے نوجوانوں سے خوبصورت ہوں۔۔پیٹ کا کیا ہے۔۔ ابھی میں نے 2021 ماڈل کی کار نکلوائی ہے۔۔ پھر میں خود سوچ میں پڑ گیا کہ پیٹ اور 2021 ماڈل گاڑی کا آپس میں کیا تعلق ہے ۔۔ میں اپنی شرارتی ہنسی کو دانتوں سے دبا گیا۔۔ ابھی پچھلے دنوں تو میں دبئی آفیشل ٹوور پر گیا تھا۔۔ نورین پہلے مجھے انکل کہتی تھی۔۔ جب ایک دن اسے اپنی گاڑی میں لفٹ اسکے افس تک لفٹ دی تو پھر دبئی تک میرے ساتھ اس کا تعلق پچھلے تین سال سے ہے۔۔ اب وہ مجھے بور کرتی ہے۔۔ میں نے اپنے گولڈ پلیٹڈ cufflinks اپنی ڈریسنگ ٹیبل پر پھینکتے ہوئے خود سے سرگوشی کی۔۔ اچانک میری آنکھوں کے آگے چند لمحوں پہلے کا منظر گھوم گیا۔۔ جب وہ پری چہرہ اپنی کیب سے اتر رہی تھی تو اس کے کاٹن کے کپڑے گرمی کی وجہ سے اس سے چپک رہے تھے۔۔ خدا غارت کرے فیشن والوں کو کاٹن بھی اب آگ لگاتا ہے۔۔ ظہیر اچھا آدمی ہے میرا ہمسایہ بھی ہے صبح کی واک میں علیگ سلیگ رہتی ہے۔۔ کل اس سے ملتا ہوں۔۔ یہ پلان بنا کر میں نہانے چلا گیا۔۔ بڑی تگ و دو اور تھوڑا بہت پیسہ خرچ کرنے کے بعد مجھے شمائلہ کا نمبر مل گیا۔۔ آخر " سب سے بڑا روپیہ" ہے۔۔ میں نے ان دس دنوں میں ظہیر سے اچھی خاصی فرینکنیس کر لی تھی۔۔ ایک دن جب ظہیر گھر سے چلا گیا تو میں نے شمائلہ کو فون ملایا۔۔ 3 یا 4 گھنٹیوں کے بعد فون ریسیو ہوا۔۔ میرے خدا۔۔۔ اس کی آواز تو اس سے زیادہ خوبصورت تھی۔۔۔ میں نےاپنا تعارف کرایا تو وہ چونک کر بولی انکل آپ کے پاس میرا نمبر کیسے ایا۔۔ ؟؟؟؟ یہ انکل میرے دل میں چبھ گیااور منہ کا ذائقہ کڑوا ہو گیا۔۔ لیکن بڑا شکار کرنے کے لئے کئی مرتبہ شکاری کو اپنے آپ کو بھی قربانی کا بکرا بنانا پڑتا ہے۔۔ میں نے اس پر امپریشن ڈالنے کے لئے کہا کہ میرا پاس فون میں ایسی ڈیوائس ہے۔ جو گھر کے سب لوگوں کا نمبر نکال دیتی ہے۔۔ ظہیر فون نہی پک کر رہا تھا تو میں نے تمہیں فون کر لیا۔۔ اس نے کھنکتی آواز میں کہا "اچھا جی میں ابو کو بتا دوں گی" اور فون رکھ دیا۔۔ اب میں نے اسے کبھی کبھار کوئی مذہبی کوٹیشن کبھی کوئی ٹوٹے دل کی کہاوتیں اور شاعری بھیجنا شروع کر دیں۔ کچھ عرصہ تو اس کا جواب نہ آتا۔ لیکن پھر اس نے ان پیغامات پر اپنا ایک سطر یا دو سطر میں سرسری جواب دینا شروع کر دیا۔۔ اس دوران ایک ماہ گزر گیا۔۔ اور دو تین بار اس پری پیکر سے امنا سامنا بھی ہوا ۔۔ اور مسکراہٹوں کا تبادلہ بھی ہوا۔۔ ہماری ہاؤسنگ سوسائیٹی کی سپر مارکیٹ میں ایک دن ملاقات ہوئی اور مجھے علم تھا کہ وہ وہاں ہے میں جان بوجھ کر انجان بن کر اس سے ملا حالانکہ اب مجھ سے کنٹرول نہیں ہو رہا تھا میں اسے جلد از جلد حاصل کرنا چاہتا تھا۔۔ میں نے اسے ایک ٹھنڈا پیپسی کا کین آ فر کیا جو اس نے مسکراتے ہوئے قبول کیا۔۔ میں اپنی شاپنگ کی ریڑھی گھسیٹتے ہوئے اس کے قریب ہوا اور اسے بتایا کہ حالانکہ یہ سب کام میری بیوی کے ہیں۔ لیکن وہ اب ان سب کچھ کے لئے فارغ نہی اسے کلب پارٹیوں سے فرصت ہی نہین۔۔ اور میں دن بدن تنہا ہوتا جا رہا ہوں۔ وہ کھلکھلا کر ہنسی اور بولی انکل اس عمر کے یہی کرائسس ہیں۔۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور اس سے پوچھا تمہاری عمر کے کیا کرائسس ہیں۔۔ اس نے ایک گہری نظر مجھ پڑ ڈالی اور اس کا چہرہ بجھ گیا۔۔ اور اس نے منہ دوسری طرف کر کے شلیف سے سامان چننا شروع کر دیا۔۔ کیش کاونٹر پر میں جب اس سے ملا تو میں نے اسے کہا کہ "سوری۔۔ میرا مقصد تمہیں Hurt کرنے کا نہیں تھا!!! اس کا چہرہ پھر گلاب ہو گیا اور وہ مسکرا کر بولی ارے نہی یار کوئی بات نہی۔۔ سب ٹھیک ہے۔۔۔ یار۔۔۔یار۔۔۔میرا دل تو اچھل کر حلق میں انے لگا۔۔ مطلب بات بن گئی ہے۔۔ تم گھرتک کیسے جاو گی سامان کے ساتھ۔ اگر برا نہ منائیں تو میں ڈراپ کردوں۔۔ ارے انکل۔۔ یہ ساتھ ہی تو ہے میرا گھر۔ چلی جاوں گی۔ ویسے بھی مجھے اب اکیلا پھرنے میں لطف آتا ہے۔۔ نہی۔۔I insist تمہیں میں ڈراپ کر دوں گا۔ انکل ۔۔ as you wish.. چلیں ۔۔ وہ بے پروائی سے بولی۔ جب ہم گاڑی میں بیٹھنے لگے تو وہ گاڑی کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکی۔۔ میں نے بتایا یہمیرا اس سال کا ماڈل ہے۔۔ میں سال شروع ہوتے ہی ماڈل تبدیل کر لیتا ہوں وہ بولی wow آپ تو بہت موڈی ہیں۔۔ خیر میں نے اسے گھر ڈراپ کر دیا۔۔ میں سمجھ چکا تھا کہ شکار ہاتھ آگیا ہے۔۔ میں نے رات اسے کال کی تو اس کی کچھ آواز میں تبدیلی یا ناگواری محسوس ہوئی۔۔ میں نے اسے کہا کہ کیا تم کل میرے ساتھ ایک کپ کافی پینا پسند کرو گی۔۔ اس نے انکار کر دیا اور بولی ۔۔ میں کسی غیر مرد کے ساتھ اکیلے باہر جانا پسند نہی کرتی۔۔ آپ کا شکریہ۔۔ مین اس طرح کی خواتین کو خوب جانتا ہوں یہ اپنی ویلیو بڑھانے کو یہ باتیں اور اسٹائل مارتی ہیں۔۔ مین نے مسکرا کر فون بند کر دیا۔۔ اگلے ایک دو تین بلکہ ایک ہفتہ وہ میرے میسیج کا جواب بھی نہی دیتی رہی اور کال بھی کاٹ دیتی۔۔ آخر دس دن بعد میں زچ ہو گیا اور میں نے معاملہ ختم کرنے کا سوچا۔۔ اور اسے میسیج کیا کہ" میں تم جیسی کنجریوں کو خوب جانتا ہوں۔۔ خاوند کے ہوتے ہوئے بھی عیاشی سے بعض نہیں آتیں ۔ تبھی تو خاوند تمہیں چھوڑ گیا ہے۔۔ مین تو چاہتا تھا تمہیں عزت ملے مگر تم جیسی عورتیں صرف اور صرف جسم کی کمائی کھانا پسند کرتی ہیں" اور میسج اسے ریسیو ہو گیا۔۔ اس نے پڑھ بھی لیا۔۔ میں نے فون بستر پر پھینک دیا۔ اور لیٹ گیا۔۔ سوچنے لگا کہ اتنے ری ایکشن کی کیا ضرورت تھی اگر وہ گھر آگئی اور بیوی کو بتا دیا تو پھر کیا ہو گا۔۔؟ کیا ہو گا۔۔اسکو بھی اور بیوی کو بھی خوب سناوں گا شور کروں گا۔۔ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا۔۔ کہ فون کی میسج ٹون بجی۔۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میسیج پر اس کا نام لکھا ہوا تھا۔۔ جلدی سے کھولا تو حیران رہ گیا۔۔ اس نے انکل کی بجائے میرے نام سے مجھے مخاطب کر کے سوری لکھا ہوا تھا۔۔ اور لکھا تھا کہ وہ مجھے غلط آدمی سمجھتی رہی۔۔ جس پر وہ بہت شرمندہ ہے۔۔ میں کچھ دیر سوچ میں پڑھ گیا۔۔ کہ یہ سب کیا؟؟ میں نے اسے its ok سے رپلائی کیا اور سوری بھی لکھ دیا کہ میں معاملہ سلجھا کر ختم کرنا چاہتا تھا ۔۔ اسے میسیج کیا کہ "میں اپنے رویہ کی معذرت چاہتا ہوں میں کچھ ضرورت سے زیادہ جذباتی ہو گیا تھا۔۔" اس نے ایک سمائیلی بھیجا اور شرارتی انداز میں پوچھا کہ وہ کافی کی آفر اب بھی ہے یا نہیں۔۔؟ میری آنکھیں خوشی اور حیرت سے پھیل گئیں اور لکھا بالکل تمہارے لئے ہمیشہ ہے۔۔ تو وہ بولی کل شام مجھے آپ پک کر لیں Starbucks میں کافی پینے چلتے ہیں۔۔ اوہ۔۔ واہ ۔۔ بالکل شکریہ ۔۔ بس اتنا سا ہی میسیج کر سکا۔۔ دوسری شام میں نے نہا دھو کر اپنی جینز اور شرٹ جو میں نے کیلیفورنیا سے خریدی تھی پہنی اور گاڑی نکال کر اس کے دروازے کے قریب پہنچ کر اسے مس کال کی۔۔ وہ شائد تیار بیٹھی تھی۔۔یا نجانے کتنے عرصے کے بعد اسے ایک مرد کی رفاقت نصیب ہوئی تھی شائد اس سے انتظار نہ ہو رہا ہو۔۔ وہ اسی سادگی اور خوبصورتی کا پیکر بنی میری گاڑی میں آ کر بیٹھ گئی۔۔ اس کی بھینی بھینی باڈی اسپرے کی خوشبو میرے دماغ کو مدہوش کئے جا رہی تھی۔۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے کل والی بات پر سوری کہا ۔۔اخلاقی طور پر میں نے بھی اسے سوری کہا اور شرمندگی کا اظہار کیا ۔۔اس نے میری ران پر ایک چپت لگاتے ہوئے کہا ۔۔ کوئی بات نہی۔۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی تو وہ چہک کر بولی گاڑی دھیان سے چلائیں اور کافی کا وعدہ ہے ہاتھ لگانے کا نہیں۔۔۔۔ میرے ذہن پر اس کی شخصیت تیزی سے سوار ہوتی جا رہی تھی ۔۔ یہ تو شکر ہے کہ Starbucks کی شاپ جلد آ گئی ورنہ شائد مجھے سے کوئی نادیدگی سرزد ہو جاتی۔۔ شاپ والا میرے مزاج سے واقف تھا خصوصا جب میں کسی تتلی کے ساتھ ہوتا۔۔ اس نے ایک نسبتا تاریک کونے کی طرف ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔ تم کیا پیو گی۔۔ میں نے ہال میں کافی کی خوشبو میں ایک گہری سانس لیتے ہوئے اس سے پوچھا۔۔ وہ بولی Cappuccino will be fine... میں نے ویٹر کی طرف دیکھا اس نے اثبات میں سر ہلایا اور چلا گیا۔ وہ بولی آپ نے اپنے لئے کچھ نہیں کہا۔۔میں مسکرا دیا۔۔اور اسے کہا میری چوائس وہ جانتا ہے۔۔ ویسے تمہاری اور میری چوائس ایک جیسی ہے۔۔ خوب گزرے گی۔۔ اس نے شیشے کے نیچے پڑی تصویر پر انکھین گاڑ لیں۔۔ ایک لمبی خاموشی کو توڑتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا کچھ اپنے بارے میں بتاو ۔۔ سنا ہے تمہارے ساتھ بہت مس ہیپ ہوا ہے۔۔ جی۔۔ وہ بولی میری طلاق ہو گئی ہے۔۔ اوہ ۔آئی ایم سوری ۔۔ پتہ نہیں وہ کون بدبخت ہو گا جس نے تمہیں مس کر دیا۔۔۔ میری آنکھوں میں شرارت کوندی۔۔ اس نے آنکھیں اٹھا کر مجھے غور سے دیکھا ۔۔ اور کہا ایک سوال پوچھوں ؟؟ دل سے جواب دیں گے۔۔ ( میں جانتا تھا اس طرح کی طلاق یافتہ یا نوجوان بیوائیں کیا پوچھتی ہیں۔۔کہ مجھ سے شادی کرو گے۔۔جس کا عموما میں جواب بہت بولڈ اور فرینک دیتا ہوں ) میں نے انجان بنتے ہوئے کہا پوچھو۔۔ وہ بولی ۔۔ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو؟؟ نہیں۔۔۔ میں نے سر جھٹک کر بے فکری سے کہا۔۔میں ایک Happily married بندا ہوں ۔۔ اور اپنی ازدواجی زندگی سے بہت خوش اور مطمئن ہوں ۔۔ وہ بالکل اسی ہشاش بشاش انداز میں بولی پھر یہ سب کیا ہے۔۔؟ اتنی دیر میں ویٹر کافی کے دو مگ ہمارے سامنے رکھ چکا تھا اس کےبکپ پر کافی کریم سے دل بنا ہوا تھا اور میرے کپ پر تیر کمان ۔۔ لہذا میں کچھ توقف کے بعد بولا۔۔ تمہاری اداسی اور تنہائی دور کرنا چاہتا ہوں۔۔ تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں اور اپنی تنہائی بانٹنا چاہتا ہوں۔ بچے جوان ہو رہے ہیں اس وقت شادی افورڈ نہیں کر سکتا۔۔ اوہ۔۔۔ آئی سی۔۔ اس نے خالی نگاہوں سے طنزیہ لہجے میں یہ کہا۔۔ (مجھے اسی کی امید تھی۔۔ ہر اس طرح کی لڑکی شروع میں ایسا ہی رویہ رکھتی ہے۔۔ پھر وہ آسانیوں اور پیسے میں کھو کر گھل مل جاتی ہے) اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دی اور بولی۔۔ شائد ہم واقعی کنجریاں ہیں۔۔ جب سے طلاق لے کر آئی ہوں۔۔ ہر نوجوان بڑا حتکہ بوڑھا بھی میرے آنے جانے اور ملنے ملانے پر نظر رکھے ہوئے ہے۔۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی شریف محلہ میں کوئی فحشہ آجائے تو پورے محلہ کا مرکز نگاہ وہ گھر بن جاتا ہے۔۔ کوئی میرے والد کے قریب ہو رہا ہے،کوئی میرے بنک کے کام نبٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔۔ کوئی سودا سلف لینے اور پک ڈراپ کی دعوت دے رہا ہے؟؟؟ مگر اس کے بدلے عزت نہیں قیمت دینا اور لینا چاہتا ہے وہ بھی جنس کی صورت میں۔ ایک گاہک آپ بھی ہو۔۔ آپ کا طریقہ واردات تھوڑا زیادہ پروفیشنل ہے۔۔ نہی ۔۔ نہی تم غلط۔۔۔۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیا۔۔بولی جانتے ہو ہمارے معاشرے کی منافقت جب میرا نکاح ہوا تھا نا ۔۔ تو مجھے شوہر سے ملنے کی پابندی لگا دی گئی تھی۔۔ لیکن جب منگنی ہوئی تھی تو انڈرستندنگ کے لئے ہمیں ملنے کا موقع دیا گیا تھا۔۔ تاکہ ہم ایک دوسرے کو سمجھ سکیں۔۔ نکاح کے بعد ایک سال تک مجھے میرا خاوند چھپ چھپ کر ملنے پر مجبور کرتا رہا۔۔ جبکہ میں اس کی منکوحہ تھی۔ اسی چھپن چھپائی نے آخر میری رخصتی کرائی جس کا نتیجہ آج میں اس الزام کے ساتھ گزار رہی ہوں کہ۔۔ تمہیں اگ لگی ہوئی تھی نامعلوم کہاں کہاں جاتی رہی ہو گی۔۔ حالانکہ میرا خاوند میری زندگی کا پہلا اور شائڈ آخری شخص ہے۔۔نکاح تو نبی کریمﷺ کی سنت ہے اور اللہ کا حکم نا۔۔۔؟ اس نے عجیب سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا ۔۔ میں اثبات میں سر ھلائے بغیر نہ رہ سکا۔۔ وہ بولی اور یہ مہندی ،رخصتی بینڈ باجا۔۔ ہندوانہ یا معاشرتی رسم و رواج نا؟؟ ہممم۔۔۔ میں اس کے ساتھ کچھ لمحے گزارنے کے بہانے اس کو سن رہا تھا۔۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ نکاح کے بعد لڑکی اپنے خاوند سے نہیں مل سکتی جب تک ہندوانہ طریقے سے اسے رخصت نہ کیا جائے یا اس کا خاوند جوش جوانی میں اسے کہیں چوری چھپے ملنے پر مجبور نہ کرے؟؟؟ یہ تو معاشرتی ریت و رواج ہے نا۔۔ میں نے کافی میں شکر ڈالتے ہوئے کہا۔۔ وہ اچانک بپھر گئی اور تقریبا چلاتے ہوئے بولی۔۔مسٹر۔۔ اس کا مطلب تمہارا معاشرہ عورت کو کنجری بنا رہا ہے؟?؟ تم سب اپنی مرضی سے ایک نوجوان بچی کا استحصال کر رہے ہو۔۔ سنو !!! قران میں نکاح کے ساتھ رخصتی نہیں ہے بھلے تین یا چار نکاح ہو جائیں جب نکاح ہوا عورت اس مرد کی ہو گئی۔۔ لیکن اسی قران نے عورت کی رخصتی کا لفظ طلاق کے وقت استعمال کیا ہے۔ کہ اسے عزت سے رخصت کرو اور اس کے جانےکے بعد اس پر کوئی الزام نہ لگاو۔۔ یہ اصل رخصتی ہے نا جس میں عورت عزت لے کر اپنے باپ کے گھر واپس آجائے۔۔ جانتے ہو نا ۔۔ نبی کریمﷺ کے دور میں اور صحابہ کرام کے دور میں کوئی غلام باندی بھی کنجری نہیں کہلاتی تھی۔۔ کیوں ۔۔کیونکہ ہر صحابی اگر اپنی بیوی سے نبھا نہیں کر سکتا تھا تو وہ اسکی نکاح سے زیادہ عزت سے رخصتی کرتا۔۔ اس کی اتنی اچھائیاں بیان کرتا کہ ابھی اس خاتون کی عدت پوری نہی ہوئی ہوتی کہ کسی دوسرے صحابی کا پیغام نکاح اجاتا۔۔ اور وہ عورت پھر ایک عزت دار اور گھر دار بن جاتی۔۔ ایسا اس معاشرے کی تعلیم نہیں تھی کہ جو طلاق دے رہا ہے وہ گلے میں ڈھول ڈال کر اس خاتون کی کردارکشی کرتا پھرے۔۔ اور نہ ہی وہ معاشرے کے دوسرے مردوں کے لئے محض شکار تھی۔۔۔ وہ غیرت سے بیٹی دفنا دیتے مگر بے غیرتی سے اسے کنجری مشہور نہ کرتے۔۔اگر ان کے سامنے کوئی عورت سر ڈھانپ پر اجاتی تو وہ اسے محصنات یعنی عزتدار خاتون کا درجہ دیتے۔۔ تم لوگ ۔۔ منافق۔۔ سوائے اپنی بہن بیٹی کے باقی ہر عورت فحشہ ہے تمہاری نظر میں۔۔اپنے منہ کے کتوں کو لگام دو۔۔ کہیں ایسا نہ ہو تمہارے منہ کی کمائی سے تم سب کے گھر ایک ایک کنجری آ بیٹھے۔۔ جسے خود بھی علم نہ ہو کہ وہ اپنے باپ یا بھائی کے گناہ کا پھل ہے ۔۔ اس کے بھائی باپ کے لئے دنیا کی ہر طلاق یافتہ یا بیوہ کسبی ہے لہذا قدرت کی لاٹھی بے آواز ہے۔۔ لیکن عورت کب تک اپنے ناکردہ گناہ کا وبال اپنے کندھوں پر اٹھائے گی۔۔ اسی لئے تو اللہ نے کہا نا قیامت اس لئے آئے گی کہ وہ مظلوم گڑھی ہوئی لڑکی سے پوچھ سکے کہ تیرا جرم کیا تھا جو تجھے گاڑھا گیا۔۔ کبھی مٹی میں کبھی گناہوں کی دلدل میں کبھی باپ بھائی کے گناہوں کےکفارے کی صورت۔۔ کاش تم مجھ میں اپنی جوان بیٹی دیکھتے ۔۔ کہ کیسے اس کی مجبوری کا فائدہ ایک بھیڑیا اٹھا رہا ہے۔۔ یہ کہتے ہوئے اس کے دو آنسو اس کی ناک کے ساتھ بہتے ہوئے اس کی کافی میں بنے دل کے درمیان گرے۔۔۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔۔ میں نے سر جھکا لیا۔۔ مجھے نہیں معلوم وہ کب گئی۔۔ جب ویٹر آیا اور کپ اٹھانے لگا تو نجانے کیوں میں نے اسے روک دیا۔۔ اس کےکپ میں بنے دل میں چبھے وہ دو قطرے اب بھی اپنا نشان چھوڑے ہوئے تھے۔۔ میری آنکھوں میں نجانے کیوں نمی آگئی۔۔میں نے ویٹر سے کہا مجھے یہ دھو کر کپ پیک کر کے لادو۔۔ اور بل میں یہ پیسے لگا لو۔۔ ویٹر بولا سر بل تو میڈم پے کر گئی ہیں۔۔ میں نے چونک کر اسے دیکھا۔۔ اس نے نظریں جھکا لیں۔۔ اچھا کپ تو پیک کر دو۔۔ میں کپ لے کر گاڑی میں آ گرا۔۔ اس کے آخری الفاظ نے مجھے رات بھر سونے نہیں دیا۔۔ مین سوچتا رہا میری عمالقہ پر اگر کوئی ایسے ڈورے ڈالے اور وہ بھی اس کے ہاتھوں خراب ہو جائے۔۔ مجھے جھرجھری آگئی۔۔ میں نے کپ کھولا اسے کچن کے سنک میں دھونے لگا۔۔۔ مگر اس میں وہ دو آنسو جتنا میں دھوتا جاتا اتنے وہ گہرے ہوتے جاتے۔۔ میرے پورے گھر کو معلوم ہے مجھے اچانک دورہ پڑتا ہے تو میں اس کپ کو دھونے کھڑا ہو جاتا ہوں۔۔لیکن وہ آنسو اس میں سے صاف نہیں ہو رہے۔۔ میں ان دو سالوں میں کسی عورت کے قریب نہیں جا سکا۔۔شام کو جب میں واک کر کے آیا تو گھر میں گہما گہمی تھی۔۔ میں نے چونک کر بیگم سے پوچھا یہ بھاگ دوڑ کیوں؟؟؟ تو وہ مسکرا کر بولی ہماری عمالقہ کو کچھ لوگ دیکھنے آ رہے ہیں۔ میری حالت غیر ہونا شروع ہو گئ۔۔ میں بھاگ کر اپنے کمرے کی الماری کی طرف گیا ۔۔ کپ نکالا بہت دھویا اس سے آنسو صاف نہیں ہوئے۔۔ میں چیخ پڑا ان آنسوؤں کو خدا کا واسطہ دیا کہ صاف ہو جاو ۔۔ اب میری بیٹی کا گھر بسنے والا ہے۔۔ وہ آنسو اب سرخ ہوتے جا رہے تھے۔۔ اچانک اچانک مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ ظہیر کے گھر جاوں اور اس کی بیٹی کو کہوں مجھے معاف کر دے۔۔ میں اسی حالت میں اس کے گھر کی طرف دوڑا۔۔ ظہیر گھبرایا ہوا باہر نکلا خیر تو ہے شاہد تم اتنے پریشان ۔۔ ؟ ہاں ہاں۔۔ تمہاری بیٹی کہاں ہے۔۔ شمائلہ کہاں ہے۔ ؟ کیوں ظہیر نے چونک کر پوچھا۔ اسے تو یار دو سال ہو گئے وہ جرمنی چلی گئی پڑھنے ۔۔ کہتی تھی میں اس منافق معاشرے میں نہیں رہ سکتی۔ ظہیر اسے خدا کے لئے کہو مجھے فون کرے۔۔ مجھے بہت ضروری کام ہے اس سے۔۔ اچھا۔۔ سب ٹھیک تو ہے نا۔۔ ہاں ہاں سب ٹھیک ہے۔ میرے بھائ مجھ پر ایک احسان کر دو اسے کہو مجھے فون کر لے۔۔ اچھا یار تم پریشان مت ہو کر لے گی۔۔ ابھی تو وہاں رات ہو گی ۔۔صبح ضرور کر لے گی۔۔ تمام رات میں سڑکوں پر آوارہ گردی کرتا رہا۔۔ پتہ نہی کبھی آنکھوں میں پانی اور کبھی عمالقہ کی تصویر آتی جاتی رہی۔۔ رات دیر سے گھر آیا۔۔اور پتہ نہیں کب سو گیا۔۔ دوپہر کے قریب بیگم نے آ کر جگایا۔۔ رات آپ کہاں تھے۔۔ لڑکے والے آپ سے ملنا چاہتے تھے۔۔ میرا پھر سے دل پکڑا گیا۔۔کیوں ۔۔ کیوں مجھ سے ملنا چاہتے تھے؟؟؟ کمال کرتے ہو تم لڑکی کے باپ ہو یہ کیا بیوقوفی ہے؟ بیگم خفا ہو گئی۔ اچھا سنو ۔۔ وہ شمائلہ تھی نا ظہیر صاحب کی بیٹی !!! میں چونک پڑا۔۔ ہاں ہاں کہاں ہے وہ ۔۔ کیا ہوا اسے ۔۔ مین نے ایک سانس میں ہی سب پوچھا۔۔ ارے کہیں نہی آج اس کی ویڈیو کال آئی تھی۔۔ اسے پتہ چلا تھاکہ ہماری عمالقہ کا رشتہ ہونے جا رہا ہے۔۔ تو بہت دعائیں دے رہی تھی۔۔ اور آپ کو بھی سلام دے رہی تھی کہ انکل کو میری طرف سے السلام علیکم و رحمتہ اللہ کہیئے گا۔۔ میں نے جیسے ہی یہ پیغام سنا میں اپنی الماری کی طرف دوڑا۔۔ وہ کافی کا کپ نکالا اس میں دیکھا تو شفاف کپ میں دو موتیے کے پھول پڑے تھے۔۔بیگم نے چونک کر پوچھا اس میں یہ پھول کہاں سے آئے ۔۔ میں نے ایک گہری شکر کی سانس لی اور اسے کہا یہ میری بیٹی کے شگن کے پھول ہیں۔۔ الحمدللہ۔ ۔۔۔ سلیم زمان خان مئی 2021
👍 ❤️ 👌 💚 😢 14

Comments