GBC Students Support Network
June 6, 2025 at 06:25 AM
میں نے ثنا یوسف کو اس کے قتل سے پہلے کبھی کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر نہیں دیکھا تھا۔ جب اس واقعے کا علم ہوا، تو اس کا اکاؤنٹ visit کیا۔ پتہ چلا اسی دن اس نے اپنی سترہویں سالگرہ منائی تھی۔ یہ دیکھ کے دل بڑا بوجھل ہوا کہ اتنی چھوٹی عمر میں دنیا سے اس بے دردی سے چلی گئی۔میں نے اس کی کچھ ویڈیوز دیکھیں جن میں اس کی معصومیت نمایاں تھی۔ چونکہ چترال میں غیرت کے نام پر قتل کے کوئی نمایاں واقعات سننے میں نہیں آئے ہیں، اس لیے میں نے اس امکان کو ذہن سے نکال دیا تھا۔ میرے ذہن میں بار بار یہ خیال آ رہا تھا کہ قاتل کوئی ایساشخص ہوگا جو ثنا کو اپنی ملکیت سمجھتا ہوگا، اور انکار کی صورت میں اس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا ہوگا۔ یہ خیال میرے ذہن میں کیوں آیا، اس کی ایک بنیادی وجہ ہمارے معاشرے میں موجود وہ ذہنیت ہے جو ملکیت کے تصور پہ قائم ہے۔ ہمارے ہاں جب کوئی لڑکی کسی بھی مقصد کے لئے گھر سے باہر قدم رکھتی ہے تو اکثر مرد اسے اپنی دسترس میں سمجھنے لگتے ہیں۔ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خاص طور پر ٹک ٹاک پر موجودگی کو تو معاشرے کا ایک بڑا حصہ بدکرداری سے جوڑ دیتا ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک عورت اگر گھر کی چاردیواری سے نکل کر عوامی وجود رکھتی ہے تو اسے اپروچ کرنے کا آپ کے پاس لائسنس آ جاتا ہے۔اور انکار کی صورت میں ان کی انا کو ایسی ٹھیس پہنچتی ہے کہ وہ جذبات میں آ کے نہ صرف دوسروں کو، بلکہ خود کو بھی نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے۔ آئی جی صاحب کی پریس کانفرنس میں بھی کچھ ایسے ہی اشارے ملے کہ ملزم نے ثنا کو بار بار اپروچ کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ اپروچ چاہے شادی کی آفر کی صورت میں تھی، “دوستی” کے لئے تھی یا سوشل میڈیا پر کسی کولیب کے ذریعے اپنی ریچ بڑھانے کے لئے، مگر اس کے پیچھے کار فرما اصل ذہنیت وہی تھی جو آج بھی بہت سے ذہنوں میں پل رہی ہے: "تم سوشل میڈیا پر موجود ہو، مجھے انکار کیسے کر سکتی ہو؟" یہ ایک انتہائی خطرناک ذہنیت ہے جو معاشرے میں گہرا وجود رکھتی ہے۔اور پتہ نہیں کب اور کیونکر بدلے گی! اس واقعے کا ایک اور پہلو ہے جس پر مجھے لگا کہ بات کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ جس وقت کچھ لوگ ثنا کی آزادی اور خود مختاری پر انگلیاں اٹھا رہے تھے، اور اس کی موت پہ خوشیاں منا رہے تھے، اس وقت بڑی تعداد میں لوگ ایسے بھی تھے جو نہ صرف اس کی حمایت میں آواز اٹھا رہے تھے بلکہ اس کے والدین سے اظہارِ ہمدردی اور اس کے لئے انصاف کی بات کر رہے تھے۔ ان میں ایک خاطر خواہ حصہ مردوں کا بھی تھا۔ مگر ہم میں سے کئی لوگ، شاید جذبات میں آ کر، زیادہ تر نفرت انگیز کمنٹس کی اسکرین شاٹس شیئر کرتے رہے، اور یوں مثبت آوازیں پس منظر میں چلی گئیں۔مجھے لگتا ہے کہ کبھی کبھی ہم خود لاشعوری طور پر ایسی باتوں کو relevant بنا رہے ہوتے ہیں جو اصل میں اتنی اہمیت نہیں رکھتے۔ اگر ہم ایسے بےنام اور بے معنی تبصروں کو نظرانداز کردیں تو ان کا بیانیہ خودبخود ماند پڑ جائے گا۔ ہمیں ان آوازوں کو ابھارنے کی ضرورت ہے جو واقعی قابل توجہ ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے میں مثبت اور تعمیری سوچ پروان چڑھے تو خود ہمیں اس سوچ کو مرکز میں رکھنا ہوگا۔ نفرت کو بار بار دہرا کر کہیں ہم خود اسے تقویت دینے کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ تیسری اور آخری بات جو میں کہنا چاہتی ہوں وہ والدین سے ایک گزارش ہے۔ براہ مہربانی اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت پر توجہ دیں۔ خاص طور پر بیٹوں کو consent کا مطلب سمجھائیں۔ ان کو بتائیں کہ دوسرا انسان، خاص طور پر عورت، اگر کسی بات پر 'نہ' کہے تو اس کا مطلب واقعی میں 'نہیں' ہوتا ہے، چاہے وہ دوستی ہو، رشتہ ہو یا کوئی اور بات۔ بغیر صاف رضامندی کے کوئی بھی تعلق زبردستی نہیں تھوپا جا سکتا۔ ایسا نہ ہو کہ وہ صرف اپنے لئے نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لئے بوجھ اور ناسور بن جائیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ بچوں کو آزادی اور خود اختیاری دینے کے ساتھ ساتھ ان کی مناسب رہنمائی بھی یقینی بنائی جائے، خاص طور پر اس وقت جب وہ ابھی پختہ عمر کو نہ پہنچے ہوں-ان کو یہ اعتماد اور تحفظ دیں کہ اگر ان کو کوئی مشکل پیش آئے، یا وہ کسی الجھن کا شکار ہوں، تو سب سے پہلے آپ کے پاس آئیں۔ آج کی دنیا بہت بے رحم ہو چکی ہے، اور معاشرہ انتہا پسندی کی حدوں کو چھو رہا ہے۔سوشل میڈیا کی دنیا میں بھی تو پس پردہ یہی انسان بستے ہیں، ہم کیسے آنکھ بند کر کے ان پر اعتماد کر سکتے ہیں؟ جب ہم کم عمری کی شادی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں کہ اٹھارہ سال سے کم عمر بچے یہ فیصلہ نہیں کر سکتے، تو کیا یہی اصول سوشل میڈیا کے لیے بھی نہیں ہونا چاہیے؟ کیا انہیں بھی اسی طرح رہنمائی اور تحفظ کی ضرورت نہیں؟ ہم سب کو ان باتوں پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔عورت کی خود مختاری کو آج بھی کئی ذہنوں میں برداشت نہیں کیا جاتا، اور سوشل میڈیا پر موجودگی کو بدکرداری سے جوڑنا معمول بن چکا ہے۔ ایسے میں صرف مجرم کو سزا دلوانا کافی نہیں، ہمیں اس ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ساتھ ہمیں بحیثیت ذمہ دار شہری نفرت انگیز بیانیے کو بار بار دہرانے کے بجائے ان مثبت آوازوں کو ابھارنا ہوگا جو انصاف، تحفظ اور احترام کی بات کرتی ہیں۔ اور سب سے اہم بات، اپنے بچوں کو صرف آزادی نہیں بلکہ ذمہ داری کا شعور بھی دینا ہوگا، ورنہ یہ خلیج مزید گہری ہوتی جائے گی۔
👍 ❤️ 😢 😂 🙏 27

Comments