
✍️علمی مضامین وارشاداتِ اکابر 📚
May 31, 2025 at 01:18 PM
یہ پیغام اُن تمام بھائیوں، بزرگوں، علما، منتظمین، مہتممین، ناظمین اور ہر اُس فرد کے لیے ہے جو کسی مدرسے، تنظیم، دینی ادارے یا رفاہی کام کا ذمہ دار ہے۔ آپ دین کے خادم ہیں۔ آپ کی خدمت کو ہم سلام کرتے ہیں… لیکن ایک سوال ہے — کیا ہم واقعی دین کی خدمت کر رہے ہیں یا دین کے نام پر امت کی امانتوں سے خیانت کر رہے ہیں؟
ذرا ایک لمحے کو رک کر سوچیے… رسولِ اکرم ﷺ کی وہ حدیث یاد کیجیے جو ہمارے دلوں کو ہلا دینے کے لیے کافی ہے:
"ایک صحابیؓ نے جنگ میں جان دے دی، سب نے کہا: شہید ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ جہنم میں ہے۔"
وجہ؟ صرف یہ کہ اُس نے مالِ غنیمت سے ایک چادر بغیر اجازت لے لی تھی۔
(صحیح مسلم)
ایک چادر! صرف ایک چادر!
نہ بڑی رقم، نہ کوئی محل، نہ کوئی پروجیکٹ، نہ کسی یتیم کا ماہانہ وظیفہ، نہ کسی بیوہ کی امداد — صرف ایک چادر!
اور وہ عمل، وہ قربانی، وہ شہادت — سب کچھ رد ہو گیا!
اب ہم کہاں کھڑے ہیں؟
ہم جنہیں لوگوں نے زکات دی، صدقات دیے، عطیات دیے، قربانی کی کھالیں دی، فطرہ دیا، وقف کی زمینیں دیں، یتیموں کا مال سپرد کیا، مسکینوں کا حصہ دیا — کیا ہم نے واقعی ان سب کو ان کے حق داروں تک پہنچایا؟ یا ہم نے ان کو:
ذاتی تنخواہوں میں شامل کیا؟
اپنے گھر کے خرچوں میں استعمال کیا؟
مہنگے موبائل، گاڑیاں اور سہولتیں حاصل کیں؟
اہل خانہ کے سفروں، علاجوں، شادیوں، رہائشوں پر خرچ کیا؟
"تنظیم کی مصلحت" کے نام پر حرام کو جائز سمجھ لیا؟
"خدمت دین" کا لبادہ اوڑھ کر عوام کو مطمئن کر لیا؟
حساب کتاب کا رواج ختم کر کے خدا سے بے خوفی اختیار کر لی؟
قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ہے:
"إنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا"
(النساء: 10)
"جو لوگ یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں!"
"ولا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل..."
(البقرہ: 188)
"آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ…"
"إن الله لا يفلح عمل المفسدين"
(یونس: 81)
"یقیناً اللہ فاسد لوگوں کے عمل کو کامیاب نہیں کرتا۔"
اے دین کے دعوے دارو!
کیا تمہیں اس دن کا خوف نہیں جس دن اللہ سوال کرے گا:
تم نے فلاں بیوہ کی رقم کہاں خرچ کی؟
فلاں یتیم کی فیس تم نے کیوں نہیں دی؟
فلاں عطیہ تم نے اپنی گاڑی کے فیول میں کیوں استعمال کیا؟
کیوں تم نے امت کی امانت کو اپنے آرام و آسائش پر ترجیح دی؟
کیا تم کہہ سکو گے:
"یا اللہ! میں تو مدرسہ چلاتا تھا، اس لیے جائز سمجھا!"
"یا اللہ! میں نے دین کی خدمت کی تھی، اس لیے جو رقم آئی، وہ میرا حق تھا!"
نہیں! ہرگز نہیں!
دین کی خدمت تب قبول ہے جب وہ اخلاص، دیانت، شفافیت اور تقویٰ کے ساتھ ہو۔
اب بھی وقت ہے… توبہ کر لیجیے… نظام درست کیجیے…
اداروں میں شفاف نظام بنائیے
ہر عطیہ، ہر زکات، ہر صدقے کا مکمل ریکارڈ رکھیے
سالانہ آڈٹ، عوامی رپورٹ، بورڈ مشورے، اور امانت داری کو فروغ دیجیے
اپنے آپ کو، اپنے عملے کو، اپنے اہلِ خانہ کو اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھیے
دنیا کی عزت کو آخرت کی ذلت نہ بننے دیجیے
دین کے نام پر مالی بدعنوانی جہاد نہیں، خیانت ہے!
مدرسہ چلانا عبادت ہے، لیکن بددیانتی کے ساتھ، یہ عذاب کا دروازہ بھی ہے!
تنظیم بنانا نیکی ہے، لیکن امانت میں خیانت کر کے یہ فتنہ بن سکتی ہے!
یاد رکھو! جس دن چادر اُٹھانے والا صحابیؓ جہنم کا مستحق ٹھہرا، اُس دن ہمیں کیا بچائے گا؟
اللہ سے ڈریں! امت کی امانت کو اپنی عیاشی کا ذریعہ نہ بنائیں!
ورنہ… نہ عہدے کام آئیں گے، نہ ٹائٹل، نہ تعلیمی ڈگریاں، نہ ریشمی لباس!
اللہ ہم سب کو امانت دار، خوفِ خدا رکھنے والا، اور سچائی کا علمبردار بنائے۔
وما علینا إلا البلاغ
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته
منقول
❤️
👍
🤣
🩵
10