Voice Of South
June 13, 2025 at 07:14 AM
اسرائیل نے ایران پر بھرپور حملہ کیا ہے۔ تہران اور اصفہان میں متعدد نیوکلئیر سائٹس، چھ فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ پاسداران انقلاب کے چیف ، نیوکلئیر پروگرام کے سابق ڈائریکٹر اور نیوکلئیر سائنسدان سمیت ٹاپ سیکیورٹی لیڈرشپ کو مار دیا ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنائی صاحب نے اسرائیل کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ علی خامنائی صاحب کا اعلان صرف اعلان نہیں ہوتا وہ فتویٰ ہوتا ہے۔ شعیہ مسلم جو علی خامنائی صاحب کے فالورز یا مقلد ہیں ان پر بائنڈنگ ہوتا ہے۔ ایران نے پاک بھارت کشیدگی میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ کیا پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ایران کا ساتھ دے سکے۔ میرے خیال میں نہیں۔ یہ اسرائیل اور امریکا کے ساتھ ڈائیریکٹ جنگ ہے گو کہ امریکا نے کہا ہے وہ اس میں شامل نہیں ہے اور اس نے اسرائیل کو بھی باز رہنے کا کہا تھا۔ البتہ صدر ٹرمپ نے ابھی کہہ دیا ہے کہ ایران نے جوابی کارروائی کی تو امریکا اپنا اور اسرائیل کا دفاع کرے گا۔
اسرائیل نے میزائلز کے ساتھ جنگی طیارے ایف 35 سے بھی فضائی حملے کیے ہیں۔ ایرانی ائیر ڈیفنس سسٹم ناکام ہوا ہے۔ ظاہر ہے ایران کے پاس جدید سسٹمز نہیں ہیں جو ایف 35 کو کاؤنٹر کر سکیں۔ایران اپنی صلاحیت برابر جو کر سکتا ہے کرے گا اور نتیجتاً ایران پر مزید حملے متوقع ہیں۔اگر امریکی بیڑے یا اڈے کو نشانہ بنایا گیا تو امریکا بھی کود پڑے گا۔ تباہی ایران کی ہو گی۔ طاقت کے استعمال کو طاقت کا توازن ہی روک سکتا ہے جبکہ سب جانتے ہیں ایران ویسی طاقت نہیں رکھتا۔
روس اور چائنہ ایران کی ڈپلومیٹک حمایت کر سکتے ہیں جنگی میدان میں نہیں اتر سکتے۔ اسی طرح پاکستان بھی سفارتی حمایت کر سکتا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔خواہش تو میری بھی یہ ہے کہ اب اگر کام شروع ہو ہی گیا ہے تو کسی بھی طرح ایران اسرائیل کا ٹنٹنا ہی ختم کر دے مگر یہ ناممکن حد تک مشکل ہے۔ یہی گراؤنڈ رئیلٹیز ہیں۔ بظاہر یہی معلوم ہو رہا ہے ایران کا نقصان ہو گیا ہے اور مزید نقصان ہو گا۔
ایران کے پاس کبھی بھی کوئی آپشن نہیں تھی۔ چالیس سے زائد سالوں سے وہ عالمی پابندیوں کی زد میں ہے۔ اسے دنیا میں الگ تھلگ کر دیا گیا تھا۔ نتیجتاً وہ سیکیورٹی سٹیٹ بنتا گیا اور اپنی بقا کے لیے یورینیم کی افزودگی اور جوہری صلاحیت کے حصول کا راستہ اپنانے لگ گیا۔ یہی واحد ملک تھا جو اسرائیل کے ساتھ سینگ پھنسائے ہوئے تھا۔ ایرانی ملٹری ڈاکٹرائن اور ریاستی بیانئیہ ہی اسرائیل کُشی پر مبنیٰ ہے۔ حزب اللہ کی کھُلی اور حماس کی پوشیدہ اسلحہ جاتی و مالی امداد بھی ایران نے جاری رکھی۔ مسلم دنیا میں فلسطین کی آزادی کی پرزور آواز بھی ایران تھا اور ہے۔اس کو کاؤنٹر کرنے کے لیے سب سے پہلے شام میں اسرائیل نے امریکا سے مل کر وہ باب بند کیا جس راستے لبنان، حزب اللہ اور حماس کو مدد پہنچتی تھی۔ اس کے بعد اب اگلا حدف ایران ہی بننا تھا۔
ایران پوائنٹ آف نو ریٹرن پر کھڑا ہے اور اکیلا ہے۔ مقابل دنیا کی طاقتور ترین ریاستیں ہیں۔ دعا ہی کر سکتے ہیں کہ ایرانی عوام اور ایران اس جنگ سے کسی طرح بچ نکلیں۔دماغ یہی کہتا ہے کہ ایران کو دنیا کے لیے مثال بنایا جائے گا کہ جو ہمارے خلاف بولے یا اُٹھے اس کا یہ انجام ہو گا۔ ایرانی ریاست کا مسئلہ امریکا اسرائیل کو ہیڈ آن لینا ہی نہیں تھا بلکہ سعودیہ کی چھتری تلے جمع عرب ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور پراکسی وار بھی ساتھ ساتھ جاری رکھی۔ وہ ایک ساتھ کئی محاذ کھولے ہوئے تھا۔ بات وہی کہ ایران کا مسئلہ بھی دنیا سے کٹ کر سیکیورٹی سٹیٹ بننا تھا۔ عربوں و ترکیہ نے مل کر شام کا راستہ بند کرانے میں کردار ادا کیا نتیجتاً اسرائیل کو محفوظ بنایا اور اب اسرائیل ایران براہ راست جنگ میں ہیں۔
یہ باتیں اگر آپ کو چبھتی ہیں تو ذرا عالمی منظرنامے پر غور کر لیں۔ یہی پتھریلی حقیقت ہے۔