
Karachi Urdu News
June 11, 2025 at 03:17 PM
*کیا عوام نے ناردرن بائی پاس مویشی منڈی کا بائیکاٹ کردیا؟ کے ایم سی نے 10کروڑ کیسے کمائے؟*
اندازہ تھا کہ اس بار ناردرن بائی پاس مویشی منڈی بیوپاریوں کے حوصلے توڑدےگی ، مگر اتنا ستم؟ یہ گمان نہ تھا، "بے رحم ٹھیکیداری نظام نے بیوپاریوں کو لاکھوں روپے کاقرض دار کردیا، پہلے چند اعدادوشمار دیکھیں، منڈی کے ٹھیکیداروں نے فی جانور انٹری فیس 4500روپے وصول کی، ڈھائی لاکھ جانورآئے، چلئے 2لاکھ سے حساب لگائیں تو بھی انٹری فیس کی مد میں رقم بنتی ہے 90کروڑ روپے، انتظامیہ نے بتایا کہ 19ہزار ٹریلر منڈی میں داخل ہوئے، ایک ٹریلر کی انٹری فیس تھی 5ہزار روپے مطلب صرف ٹریلر کی انٹری فیس کی مد میں 9کروڑ سے زائد رقم بیوپاریوں سے حاصل کی گئی، ایک پٹی کا کرایہ 2لاکھ بیس ہزار روپے تک تھا، جبکہ وی آئی پی بلاک میں کرایہ اس سے دوگنا زیادہ تھا، اوسطا ایک لاکھ روپے بھی جگہ کا کرایہ لگائیں اورفرض کیاجائے کہ 19ہزار ٹریلر لانے والے صرف ڈھائی ہزار بیوپاریوں نے جگہ خریدی ہے تو بھی یہ رقم بنتی ہے 25کروڑ روپے، پھر بیوپاریوں کو ہر 20گائے پر 5ڈرم بھی زبردستی فروخت کئے گئے، منڈی انتظامیہ کا کہنا ہے ڈھائی لاکھ جانور آئے یعنی 62ہزار سے زائد ڈرم فروخت کئے گئے، ایک ڈرم ڈھائی ہزار کا تھا مطلب صرف ڈرم ہی 15کروڑ روپے کے فروخت کئے گئے، یاد رہے ڈرم کی فروخت کا ٹھیکا بھی الگ دیاگیا تھا، جو بیوپاری اپنے ساتھ ڈرم لائے تھے انہیں انٹری گیٹ پر کہا گیا کہ ڈرم کے پیسے تو دینا ہی ہوں گے چاہے آپ ڈرم ساتھ لے کرجائیں یا نہ لے کر جائیں۔ جیونیوز نے دو ہفتے قبل رپورٹ کیا تھا کہ منڈی میں پانی، بجلی، چارے، ٹینٹ، پارکنگ سمیت دیگر ٹھیکے ایک ارب روپے یعنی سوکروڑ میں بانٹے گئے، جن ٹھیکیداروں نے سو کروڑ کے ٹھیکے لئے وہ دوسو کروڑ کمانے کے موڑ میں تھے اور اس پہاڑ جیسی رقم کی دیوار براہ راست عام خریدار پہ گرنی تھی۔ بیوپاریوں کے ہاتھ باندھ دیئے گئے، انہیں جنریٹرچلانے کی اجازت ملی نہ باہرسے چارہ خریدنے کی، کھانے پینے کی اشیاء تک منڈی سے خریدنے پرمجبور کیاگیا، ان پابندیوں کی وجہ بہت دلچسپ تھی، جس کو بجلی کا ٹھیکا دیا گیا اس نے یہ گارنٹی لی کہ کوئی بیوپاری جنریٹر چلانے کی گستاخی نہیں کرےگا، تاکہ وہ بیوپاریوں کو زیادہ سے زیادہ بجلی کے جھٹکے لگاسکے اور اس نے جو کروڑوں روپے دےکر ٹھیکا لیا ہے وہ پیسے دو تین گنا ہوسکیں، اسی طرح چارے، کھانے سمیت ہر شے بیوپاریوں کو منڈی سے خریدنے پر مجبور کیاگیا، بیوپاریوں کو اپنے اخراجات بالآخر عوام کی جیپ سے ہی نکالتا تھے۔ یوں منڈی اوپر گئی مگر خریدار منڈی سےباہر چلاگیا، اگر بیوپاری اور منڈی میں ٹھیکےدینے والے "ہاتھ ہلکا" رکھتے تو شاید چاند رات کو منڈی میں ہزاروں جانور نظر نہ آتے، بیوپاری روتے رہے اور گاہک خوش ہوتےرہے، ایک بیوپاری 40جانور لایا، اس نے اپنی رسیدیں دکھائیں، خرچہ تھا 17لاکھ روپے، خیر جنہیں منافع کمانا تھا وہ کما چکے، کروڑوں کےٹھیکے دے کر جن کی جیب میں رقم گئی ان کی انگلیاں اور سر گھی میں تھے، جس ٹھیکیدار نے پارکنگ کی مدمیں نو کروڑ روپے میز پر رکھے وہ بیچارہ فائدے میں رہا یا نہیں، لیکن جس نے یہ ٹھیکا دیا وہ بہت مزے میں رہا۔ کے ایم سی نے بھی اس بار دس کروڑ کی دیہاڑی لگائی، منڈی کے خارجی راستے پر دس لڑکے کھڑے کئے، ان کے ہاتھوں میں پرچیاں تھمائیں اور لڑکوں کو حکم دیا کہ فی جانور 500روپے پکڑتے جائیں، یہ ماہر لڑکے کسی گاڑی کو پیسے لئے بغیر ٹس سے مس نہ ہونے دیتے۔ منڈی انتظامیہ کے مطابق 2لاکھ جانور فروخت ہوئے، ایک جانور کی پرچی 500روپے مقرر تھی یوں کے ایم سی کی جھولی میں 10کروڑ روپے آگئے۔ عوام نے اپنے حق حلال کے دس کروڑ کےایم سی کے حوالے تو کردیئے مگر وہ سوال کررہے ہیں کہ ان کا پیسہ جائےگا کہاں؟ خیر کراچی والے گزشتہ چار سال سے مہنگا جانور خرید رہے تھے لیکن اس بار آخری دو روز میں فی جانورپر 60سے70ہزار روپے ٹوٹ گئے، لیکن خریدارناردرن بائی پاس سے منہ موڑچکا تھا، منڈی ناکام کیوں ہوئی؟ اس کا سبب انتظامیہ کی سختی ہے، کروڑوں کے ٹھیکے، زیادہ جانوروں کی آمد، زیادہ منافعے کی خواہش یا منڈی کا خاموش بائیکاٹ؟ یہ سوچنے کی بات ہے مگر منڈی میں کروڑوں کے ٹھیکے دینے والوں اور کے ایم سی کو بہت tبہت مبارکباد، اصل عید تو ان کی ہے، اسے کہتے ہیں "ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی آئے چوکھا"۔۔۔

😢
2