MOHD YAHYA KHAN NADVI
MOHD YAHYA KHAN NADVI
June 1, 2025 at 07:05 AM
بسم اللّه الرحمن الرحيم كيا امام ابو حنيفه نے چاليس سال تكـ عشاء كے وضو سے فجر كى نماز پڑهى؟ از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى آكسفورڈ سوال: ہندوستان كے ايكـ مشہور عالم نے سوال كيا ہے: ہمارے يہانن مشہور ہے كه امام اعظم ابو حنيفه رحمة الله عليه نے چاليس سال تكـ عشاء كے وضو سے فجر كى نماز پڑهى ہے، آپ سے اس روايت كى تحقيق مطلوب ہے۔ جواب: امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ ان جلیل القدر ائمۂ دین میں سے ہیں جن پر امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ وہ علم، فقہ، دیانت، تقویٰ اور زہد میں بلند مقام رکھتے تھے، آپ نے نہ صرف اسلامی فقہ كو ترقى دى بلکہ اپنے علم، استقامت اور فہمِ دین کے ذریعے ایک ایسا فقہی ورثه چهوڑا جو آج بھی کروڑوں مسلمان کے دینی و عملی معاملات میں رہنما ہے۔ آپؒ کی شخصیت پر جہاں لاکھوں لوگ فخر کرتے ہیں، وہیں کچھ حلقے ایسے بھی ہیں جنہوں نے عقیدت میں غلو کرتے ہوئے امام صاحب سے متعلق ایسی روایات کو پھیلایا ہے جو نہ عقل سے میل کھاتی ہیں، نہ شرع سے اور نہ ہی سیرتِ نبویؐ کے مزاج سے۔ ان مشہور مگر غیر مستند روایات میں سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی، بظاہر یہ بات آپؒ کی شب بیداری اور عبادت کی نشانی کے طور پر بیان کی جاتی ہے، مگر جب اس روایت کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ ایک خارق العادت اور فطرتِ انسانی کے خلاف دعویٰ معلوم ہوتا ہے۔ اگر ہم اس دعوے کو قبول کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ امام صاحب چالیس سال تک ایک رات بھی نہیں سوئے، نہ پیشاب یا ریاح خارج كرنے كى حاجت پيش آئى، نہ کچھ کھایا پیا، نہ کسی بیماری یا سفر نے آپؒ کو مجبور کیا کہ وضو توڑنا پڑے، یہ تمام باتیں ایک عام انسان تو دور، کسی شيخ مرتاض کی زندگی سے بھی بعید نظر آتی ہیں۔ تاریخی لحاظ سے بھی یہ بات قابلِ سوال ہے، کیونکہ امام صاحب نے سفر کئے، حج پر گئے، قید میں بھی رہے۔ سوال یہ ہے کہ کون شخص تھا جو چالیس برسوں تكـ امام صاحب كى عبادت کا مسلسل مشاہدہ کرتا رہا؟ اور اگر ایسا کوئی موجود تھا تو اس کی سند کہاں ہے؟ علم حدیث و تاریخ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر واقعہ معتبر سند سے ثابت ہو، جب کہ اس روایت کی ايكـ بهى صحیح و متصل سند موجود نہیں۔ علامہ الفیروزآبادی رحمہ اللہ جیسی بڑی علمی شخصیت نے اس دعوے کو صریح جھوٹ قرار دیا، وہ اپنی کتاب الرد علی المعترض (جلد 1، صفحہ 44) میں لکھتے ہیں: هذا من جملة الأكاذيب الواضحة التي لا يليق نسبتُها إلى الإمام، فما في هذا فضيلة تُذكر، وكان الأولى بمثل هذا الإمام أن يأتي بالأفضل، ولا شك أن تجديد الطهارة لكل صلاة أفضل وأتمُّ وأكمل، هذا إن صح أنه سهر طوال الليل أربعين سنة متوالية، وهذا أمر بالمحال أشبه، وهو من خرافات بعض المتعصبين الجهال، قالوه في أبي حنيفة وغيره، وكل ذلك مكذوب"۔ ترجمه: یہ ان واضح جھوٹوں میں سے ہے جنہیں امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں، اس میں کوئی قابلِ ذکر فضیلت نہیں، بلکہ امام صاحب جیسے فقیہ کے لئے زیادہ بہتر یہ تھا کہ ہر نماز کے لیے تازہ وضو کریں، کیونکہ یہی افضل، کامل اور سنت کے مطابق عمل ہے، چالیس سال تک مسلسل جاگنا ممکنات میں سے نہیں بلکہ محالات میں سے ہے۔ یہ جاہل متعصبوں کی من گھڑت خرافات ہے، جو نہ صرف ابو حنیفہ بلکہ دیگر بزرگوں سے بھی منسوب کی گئی ہیں — حالانکہ یہ سب جھوٹ ہے۔ اسلام میں عبادت، زہد یا ولایت کا معیار نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی سنت ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سب سے بڑے عبادت گزار تھے، لیکن آپ نے نہ تو چالیس سال رات بھر جاگ کر گزارے، نہ ہی مسلسل كسى ايسى بے نیازی کا ایسا نمونہ پیش کیا جو انسانی فطرت سے متصادم ہو۔ آپ سوتے بھی تھے، گھر والوں کے حقوق بھی ادا کرتے تھے، صحابہ کرامؓ کو اعتدال کی تعلیم دیتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے کہ امت پر آسانی ہو۔ لہٰذا، اگر امام ابو حنیفہؒ جیسی ہستی نے کبھی ایسا کیا بھی ہو (جو کہ ثابت نہیں)، تب بھی وہ ہمارے لئے اُس معاملے میں اسوہ نہیں بن سکتے۔ اصل اسوہ تو وہی ہے جس پر اتباع فرض ہے — یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج بعض لوگ امام ابو حنیفہؒ کی علمی و اجتہادی خدمات کو سمجھنے اور پیش کرنے کے بجائے ان کی شخصیت کے گرد اس قسم کی خرافات و اباطیل کو جمع کرتے ہیں، اور یہی چیز عوام الناس میں مقبولیت کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ حالانکہ امام صاحب کی سب سے بڑی منقبت ان کی وہ فقہی بصیرت ہے جس نے اسلامی قانون کو اصولوں، قاعدوں، مقاصد اور اجتہاد کی راہوں سے متعارف کروایا۔ یہ حقیقت میں زوال کی علامت ہے کہ جب ہم اپنے ائمہ کی حقیقی خوبیوں کو پس پشت ڈال کر غیر ثابت شدہ اور غیر عقلی روایتوں کو ان کی فضیلت سمجھنے لگیں۔ زیرِ نظر مضمون کا خلاصہ دراصل اسی پیغام کی وضاحت ہے جسے میری تقریباً پندرہ سے بیس سال قبل لکھی گئی انگریزی تصنیف "Abu Hanifah and His Legacy" میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا مقصد امام ابو حنیفہؒ کی شخصیت، فقہی خدمات، علمی کارنامے، اور ان کے بعد آنے والے اثرات کو مدلل، تحقیقی اور اعتدال پر مبنی انداز میں امت کے سامنے پیش کرنا تھا۔ الحمد للہ، یہ کتاب علمی حلقوں میں خوب سراہی گئی، اور آج بھی تحقیق و مطالعہ کرنے والوں کے لیے ایک اہم ماخذ مانی جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ امام ابو حنیفہؒ جیسے جلیل القدر امام کی عزت و تعظیم ان کے علم، عمل، تقویٰ اور اجتہاد کے حوالے سے کریں، نہ کہ ایسی من گھڑت روایتوں کی بنیاد پر جو نہ صرف خلافِ عقل ہیں بلکہ بعض اوقات دین کے مزاج کے بھی خلاف جاتی ہیں۔ امام صاحب کی حقیقی میراث ان کا علم، ان کی فقہ، اور ان کی اصول پر مبنی سوچ ہے — یہی وہ چیز ہے جو رہتی دنیا تک ان کے نام کو روشن رکھے گی.

Comments