
Politics Plus
June 13, 2025 at 06:50 AM
*اپنا اپنا اسماعیل پیش کرو!*
آلاء النجار سے کون واقف نہیں؟ نو شہیدوں کی ماں جن کی عمریں ۶ ماہ سے ۱۲ سال کے درمیان تھیں، حمدی النجار کی بیوہ، حافظۂ قرآن، بچوں کے امراض کی ماہر طبیبہ، خنساءِ دوراں۔ وہ امت کے کٹے پھٹے بچوں کے لیے دوا دارو کا انتظام کر رہی تھی۔ ایسے میں جھلسے ہوئے نو (۹)بچے اسی کے ہسپتال ’الناصر میڈیکل کمپلیکس‘ میں لائے گئے، جھلسے ہوئے نو بچے یا جھلسے ہوئے نو لاشے اور دو جھلسے ہوئے مزید لوگ بھی، آلاء کا گیارہ سالہ لختِ جگر آدم اور ان بچوں کا باپ، آلاء کا شریکِ حیات حمدی النجار۔ وہ صدمے کے عالم میں کچھ بول بھی نہ سکی۔ یحییٰ، رکان، رسلان، جبران، ایو، ریوان، سیدن، لقمان اور سدرہ…… آلاء کے دل نے ان سبھی ناموں کو باری باری پکارا، لیکن کہیں سے کوئی جواب نہ آیا۔ آلاء نے حمدی کو پکارا، لیکن حمدی بھی جان کنی کے عالم میں تھا۔
کچھ دیر کو آنکھیں بند کر لیجیے۔ تصور کیجیے، آلاء النجار آپ ہی ہیں۔ یہ آپ کے سامنے آپ کے لخت ہائے جگر پڑے ہیں۔ سخت دل ہیں تو بھی آپ کے رونگٹے تو کھڑے ہوئے ہوں گے۔ ورنہ تصور کے ان چند ثانیوں میں آپ کی زبان گنگ ضرور ہو گئی ہو گی۔ دماغ ماؤف ہو گیا ہو گا، دل چند چند بار دھڑکنا بھول گیا ہو گا۔ آلاء النجار نے یہ سب کچھ جھیلا ہے، بلکہ وہ اب تک جھیل رہی ہے۔ وہ اس صدمے سے تا دمِ تحریر باہر نہیں نکل سکی۔ کہنے والوں نے کہا ہے کہ وہ نہ کھاتی پیتی ہے، نہ بولتی ہے، بس تسبیح گھماتی رہتی ہے۔ ہم ہوتے تو ہمیں تسبیح کا بھی کہاں ہوش رہتا۔ دل پھٹ جاتا، جگر پاش پاش ہو جاتا۔
ذوالحجۃ کا مہینہ ہے، یہ سطور پڑھنے کے ایک آدھ دن بعد یا تو آپ سنتِ ابراہیمی (علیہ وعلیٰ نبینا ألف صلاۃ وسلام) ادا کر نے والے ہوں گے یا کر چکے ہوں گے۔ خلیل اللّٰہؑ کو بذریعہ خواب وحی ہوئی کہ اپنی قیمتی ترین چیز، اپنا قیمتی ترین بیٹا، اپنے بڑھاپے کی اولاد، اپنے اسماعیلؑ کو ہماری خاطر ذبح کر دو۔ تسلیم و رضا کے مجسم خلیل اللّٰہ (علیہ صلاۃ اللّٰہ وسلام) نے ایک لحظے کو سوچا بھی نہیں۔ باپ کا کسی درجے میں غم خوار اور اب چھوٹا موٹا مشیر، اسماعیلؑ، اس عمر کی اولاد جس کو بوڑھے باپ نے بڑے چاؤ سے، بڑے ارمانوں سے پالا ہوتا ہے اور اب یہ بھاگ بھاگ کر کام کروانے والا بن جاتا ہے، اسی کو ذبح کرنے کا حکم ہوا ہے۔ جب اسماعیلؑ کو ابراہیمؑ نے بتایا تو اسماعیلؑ بولے يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ، ابا جان! کر گزریے وہ کام جس کا حکم آپ کو دیا گیا ہے:
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
یہ فیضانِ نظر بھی تھا اور مکتبِ جوارِ کعبہ و ابراہیمؑ کی کرامت بھی۔ خلیل اللّٰہؑ نے دل کے ٹکڑے کو لٹایا اور چھری پھیر دی۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ لَا شَرِيْكَ لَهٗ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ (سورۃ الانعام: ۱۶۲–۱۶۳)
’’کہہ دو کہ : بے شک میری نماز، میری عبادت اور میرا جینا اور مرنا سب کچھ اللّٰہ ربّ العالمین کے لیے ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے، اور میں اس کے آگے سب سے پہلے سرجھکانے والا ہوں۔ ‘‘
چھرا تھا، خون کی دھار تھی، اور ابراہیمؑ کا دل بارگاہِ خداوندی میں فروتنی، انؑ کاسارا وجود ، اس وجود کا رُواں رُواں، ریشہ ریشہ حالتِ سجدہ میں تھا۔ اسماعیلؑ اب ذبیح اللّٰہ ہو گئے تھے۔
یہ سنتِ خلیل اللّٰہی ہزاروں سال سے جاری ہے۔ یہاں قربانی اپنی قیمتی ترین چیز کی ہوتی ہے۔ اللّٰہ کے احکام کی بجا آوری یہ قربانی ہے۔ اس قربانی کو ذوالحجۃ کی شرط کے بغیر اہلِ غزہ پچھلے ڈیڑھ سال سے دن کے چوبیس گھنٹے پیش کر رہے ہیں۔ آلاء النجار اسی خلیل اللّٰہی سلسلے سے ہے۔
ہمارے پاس کہنے کو مزید کچھ بھی نہیں ہے۔آلاء النجار کے لیے اس کے ایمان کی سلامتی کا سوال ہے اور اپنے لیے ایمان و اسلام اور غیرت و حمیت کا سوال ہے، خلیل اللّٰہی سلسلے کی نسبت اور قربانی کی توفیق کا سوال ہے۔ آلاء النجار کی دینِ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خاطر قربانی دیکھو اور پھر اپنے اعمال کا جائزہ لو، کیا آس لگائے بیٹھے ہو!؟
ہم سب سے بس ایک ہی تقاضا ہے: اپنا اپنا اسماعیل پیش کرو!
اللھم اهدنا فيمن هديت وعافنا فيمن عافيت وتولنا فيمن توليت وبارك لنا فيما أعطيت وقنا شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضی عليك وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تبارکت ربنا وتعاليت!
اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم اهدنا لما اختلف فيه من الحق بإذنك. اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وارضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!
🤲
1