NJ News Official
NJ News Official
June 13, 2025 at 06:28 AM
*یوکرین کی تباہی پاکستان کے لیے سبق عبرت* *دنیا کی تاریخ ہمیں بارہا یہ سبق سکھاتی ہے کہ جو ریاست طاقت سے محروم ہو، وہ بین الاقوامی معاہدوں اور امن کی ضمانتوں پر ہرگز بھروسہ نہیں کر سکتی۔ اس کی تازہ اور تلخ مثال "یوکرین" ہے، جو سوویت یونین کے زوال کے بعد ایک بڑی ایٹمی طاقت بن کر ابھرا، لیکن آج دشمن کے سامنے جس بے بسی کا منظر پیش کر رہا ہے، وہ خاص طور پر "پاکستان" کے لیے "عبرت کا سبق" ہے* *آئیے بات کو تفصیل سے سمجھتے ہیں۔ 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یوکرین کو وسیع و عریض سٹریٹیجک اثاثے ورثے میں ملے تھے۔ ان میں 19 عدد Tu-160 بمبار، 25 عدد Tu-95MS بمبار، 60 عدد Tu-22M3 بمبار، اور 1700 نیوکلیئر وار ہیڈز شامل تھے۔ اس کے علاوہ، بین البراعظمی میزائل سائلوز، جنگی بحری جہاز اور ایک ادھورا طیارہ بردار جہاز بھی اس کے حصے میں آیا تھا۔ اس وقت یوکرین روس اور امریکہ کے بعد دنیا کی تیسری بڑی ایٹمی طاقت "بن کر ابھرا" تھا* *سوویت یونین کے زوال کے بعد، یوکرین "کو مغرب کی طرف سے گہری توجہ ملی"۔ مغربی مالیاتی اداروں کے مشیروں کی زیر نگرانی سوویت طرز کی مرکزی منصوبہ بندی سے مارکیٹ اکانومی میں منتقلی کا عمل شروع ہوا۔ اس دوران ریاستی ملکیت کے بڑے اداروں کی نجکاری کا عمل غیر منظم اور بدعنوانی کا شکار رہا، جس کے نتیجے میں اثاثوں کی بڑے پیمانے پر "لوٹ مار ہوئی"۔ غیر ملکی سرمایہ کاری سے ملک کو کوئی فائدہ نہ ہوا اور وہ ایک پیچیدہ "معاشی بحران کا شکار ہو گیا"* *معاشی بحران کے دوران امریکہ نے "امن" کے نام پر یوکرینی قیادت کو Nunn–Lugar پروگرام کے تحت صرف 500 ملین ڈالر کے عوض ایٹمی اثاثے ختم کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس پروگرام کے تحت 10 عدد Tu-160، 25 عدد Tu-95MS، اور 60 عدد Tu-22M3 بمبار تباہ کر دیے گئے، جبکہ 575 کروز میزائل گیس کی قیمت کے طور پر روس کے حوالے کر دیے گئے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انتہائی جدید طیارے، جنہوں نے صرف چند سو گھنٹے پرواز کی تھی، امریکی ماہرین کی نگرانی میں کاٹ کر تباہ کر دیے گئے* *پھر یوکرین 1994 کے بوداپیسٹ معاہدے کے تحت اپنی سلامتی کی عالمی ضمانت کے بدلے نیوکلیئر ہتھیاروں سے بھی دستبردار ہو گیا۔ لیکن جب روس نے 2014 میں کریمیا پر قبضہ کیا اور 2022 میں مکمل جنگ چھیڑ دی، تو ان معاہدوں نے یوکرین کو کوئی تحفظ فراہم نہ کیا۔ امریکہ اور نیٹو ممالک نے صرف اپنے پرانے ہتھیار دیے اور بدلے میں یوکرین کے انتہائی قیمتی معدنی ذخائر ہتھیا لیے* *اب آتے ہیں پاکستان کی طرف، جس کے ایٹمی ہتھیار اس کی خودمختاری، دفاع، اور خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کا واحد ذریعہ ہیں۔ ورنہ بھارت جیسا پڑوسی دشمن ہر لمحے اس کے وجود کے خاتمے کے لیے ہر حد پار کرنے کے لیے تیار رہتا ہے* *لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اندرونِ ملک ایک مخصوص لابی برسوں سے ایٹمی ہتھیاروں کی شدید مخالفت کرتی آئی ہے۔ مرحوم عمر اصغر خان، عاصمہ جہانگیر، اور ڈاکٹر پرویز ہودبائی جیسے نمایاں چہروں کا موقف رہا ہے کہ پاکستان کو اپنے ایٹمی اثاثے ترک کر کے ’’امن‘‘ کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ یہ کہتے ہیں کہ ایٹمی اثاثے اور "جوہری پروگرام" ملک کے لیے "بوجھ" ہیں* *لیکن حقیقت میں یہ سوچ پاکستان کو نہتا کر کے بھارت کے سامنے جھکانے کی ایک خطرناک کوشش ہے — بالکل ویسی ہی جیسے یوکرین کو نہتا کر کے روس کے سامنے ڈال دیا گیا ہے* *پاکستان کو ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنے کے لیے اسے معاشی طور پر مضبوط نہیں ہونے دیا جا رہا۔ 2018 کے بعد بطور خاص پاکستان کے معاشی بحران کو اس قدر گہرا کیا گیا کہ "دفاعی اخراجات" واقعی ملک اور قوم پر بوجھ دکھائی دینے لگے تھے۔ اسی دوران سول سوسائٹی کے نام پر سٹریٹیجک پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی کوششیں کی گئیں، سوشل میڈیا، این جی اوز، اور لبرل طبقے نے ایٹمی پروگرام کو ’’بوجھ‘‘ قرار دینا کوئی معصوم سوچ کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ جس کا واحد مقصد پاکستان کو دفاعی طور پر غیر مؤثر بنانا ہے* *یوکرین کا انجام چیخ چیخ کر پاکستان کو خبردار کر رہا ہے: "اگر تم نے اپنی عسکری طاقت کو کمزور ہونے دیا، تو کوئی "بوداپیسٹ جیسا معاہدہ تمہارے تحفظ کا ضامن نہیں ہو سکے گا — بھارت تمہارے سروں پر میزائل برسائے گا!" اور تم عالمی برادری سے اپیلیں کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکو گے* *یوکرین کا زوال اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ جو قوم اپنی طاقت چھوڑتی ہے، وہ اپنی زمین، نسل اور عزت سب کچھ کھو دیتی ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام کوئی فخر یا نمائشی کارنامہ نہیں، بلکہ ایک زندہ قوم کی بقاء کی ضمانت ہے۔ امن صرف طاقت سے ممکن ہے۔ کمزور کا کوئی دوست نہیں ہوتا — صرف وعدے ہوتے ہیں، وہ بھی جھوٹے* *البتہ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ معاشی استحکام کے بغیر ایٹمی اور* *اسٹریٹیجک* *اثاثے بھی سلامتی کی ضمانت نہیں بن سکتے۔ اس کی سب سے بڑی مثال سوویت یونین ہے* https://whatsapp.com/channel/0029Vah5UFD6xCSQGfEIAy3P *پاکستان کی سلامتی کے لیے یہ اشد ضروری ہے کہ ہم معاشی بحران سے نکلنے کے لیے "خود انحصاری" کو فروغ دیں۔ اس کے لیے، اشرافیہ اور بیوروکریسی کے تمام غیر ضروری اخراجات ختم کیے جائیں، جبکہ حکومت کے نان-ڈیویلپمنٹ اخراجات میں 50 فیصد تک کمی لائی جائے۔ بنیادی یوٹیلیٹیز جیسے بجلی، گیس، ڈیزل/پیٹرول اور اشیائے خود نوش کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی لا کر عوام کو فوری اور حقیقی ریلیف فراہم کیا جائے۔ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (R&D) کے لیے جی ڈی پی کا ایک فیصد مخصوص کیا جائے تاکہ جدت اور خود کفالت کی بنیاد رکھی جا سکے۔ اس کے علاوہ، کاروبار اور چھوٹی و درمیانی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹھوس پالیسیاں اپنائی جائیں، اور ٹیکس کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے شرح کو کم کیا جائے* *دوسری جانب، پاکستان کی "ایٹمی پالیسی کو ایک ناقابلِ واپسی قومی اثاثہ" قرار دیا جائے۔ لبرل این جی اوز اور بیرونی ایجنڈے پر چلنے والی لابیوں کی ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کی مہم کو قومی سلامتی کی خلاف ورزی قرار دیا جائے۔ دفاعی صنعت اور سٹریٹیجک اداروں کو جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے تاکہ ہماری دفاعی صلاحیتیں ہمیشہ مضبوط رہیں* *یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ معاشی عدم استحکام اور سٹریٹیجک اثاثوں سے محرومی دونوں ہی ریاست پاکستان کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوں گے۔ جس طرح یوکرین نے اپنی ایٹمی طاقت کھو کر بے بسی کا سامنا کیا، اسی طرح پاکستان بھی اگر معاشی طور پر کمزور اور دفاعی طور پر نہتا ہوا تو اسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مضبوط معیشت کے بغیر دفاعی صلاحیتوں کو برقرار رکھنا ممکن نہیں، اور دفاعی قوت کے بغیر ملکی سالمیت کو یقینی بنانا ایک خواب ہے* *لہٰذا، "خود انحصاری، معاشی استحکام، اور ایٹمی دفاع کو قومی ترجیح بنانا ہی پاکستان کی بقا کی ضمانت ہے*
Image from NJ News Official: *یوکرین کی تباہی پاکستان کے لیے سبق عبرت*  *دنیا کی تاریخ ہمیں بارہا ی...
❤️ 👍 2

Comments