اردو تحـــــــاریــــــر💌 📚📝
June 13, 2025 at 08:39 AM
"مڈل کلاس والوں! خوشی کو مؤخر کرنا دراصل زندگی کو مؤخر کرنا ہے!"
https://whatsapp.com/channel/0029Va7OLGd1Hspvf0pbwx3K
کیا کبھی کسی نے آپ سے کہا کہ زندگی صرف بلوں اور حساب کتاب کا نام ہے؟ یقیناً نہیں۔ مگر مڈل کلاس نے خود کو ایک کیلکولیٹر میں قید کر لیا ہے —
"پانچ ہزار اسکول فیس، سات ہزار یوٹیلیٹی بلز، تین ہزار راشن، اور جو بچ جائے؟ وہ بھی بچت کی مد میں کسی انجانے کل کے حوالے۔"
یہ وہ لوگ ہیں جو ہر چیز پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں، بس اپنی قربانیوں پر نہیں۔
صبح تاریکی میں نکلتے ہیں، شام تھکن کے ساتھ لوٹتے ہیں، اور پورے دن میں کبھی یہ سوال نہیں کرتے:
"میں آخر کیوں جی رہا ہوں؟"
یہ الفاظ اُن ماؤں کے لیے ہیں، جنہوں نے بیٹی کی شادی کے لیے اپنے زیور بیچ دیے۔
ان باپوں کے لیے، جنہوں نے اپنے سپنے بیچ کر بچوں کی فیس دی۔
ان شوہروں کے لیے، جو سارا دن ٹریفک، دباؤ، گرمی اور تھکن میں جھلسنے کے بعد بھی گھر آ کر مسکرا کر کہتے ہیں:
"تم کیسی ہو؟"
اور ان بیویوں کے لیے، جو دن بھر کی مشقت کے بعد ایک چائے، ایک گرم روٹی اور ایک مسکراہٹ سے گھر کو جینے کے قابل بناتی ہیں۔
لیکن سچ یہ ہے… یہ ساری قربانیاں اگر خوشی نہ دیں، تو قید بن جاتی ہیں۔
محنت اگر تھکن کے سوا کچھ نہ دے، تو غلامی بن جاتی ہے۔
اور اگر زندگی صرف بچوں، بلوں اور بچت کے گرد گھومتی ہے… تو پھر زندگی کہاں ہے؟
پاکستانی مڈل کلاس وہ طبقہ ہے، جسے نہ خوش رہنے کا ہنر آتا ہے، نہ صبر کا شعور، نہ شکر کی سمجھ، اور نہ جینے کی عادت۔
یہ شادی کو ذمہ داریوں کا بوجھ سمجھتے ہیں، بیوی کو وقت کا ضیاع، شوہر کو صرف خرچ کا ذریعہ۔
یہ لوگ خوشی کو گناہ، اور زندگی کو سزا سمجھ بیٹھے ہیں۔
ان کے لیے کیفے میں چائے عیاشی، ہوٹل کی ایک رات فضول خرچی، اور بیوی کے ساتھ باہر جانا "معاشرتی گناہ" ہے۔
کیوں؟
"بچوں کی فیس دینی ہے نا!"
"اگلے سال کی بچت؟"
"ابھی قسطیں دینی ہیں!"
اور اس سب میں "ابھی" ہمیشہ مٹ جاتا ہے، جبکہ "کل" کبھی آتا ہی نہیں۔
ہم ایک ایسی قوم ہیں جو نکاح کو عبادت تو مانتی ہے، مگر محبت کو بوجھ سمجھ کر چھوڑ دیتی ہے۔
سوچو!
دو لوگ جو زندگی کے ہر امتحان، ہر بیماری، ہر مشکل میں ایک ساتھ کھڑے ہیں…
کیا ان کا ایک ساتھ بیٹھ کر چائے پینا، ہنس لینا، یا خاموشی سے ہاتھ تھامنا بھی گناہ ہے؟
نہیں، ہرگز نہیں۔
یہ وہ لمحے ہیں جو نکال دیے جائیں تو رشتہ سانس لیتا ضرور ہے، مگر زندہ نہیں رہتا۔
تو کیا کیا جائے؟
یہ ملک مہنگا ہے — مگر کیا دل کو بھی سستا کر دو گے؟
اگر آپ جینا چاہتے ہیں تو:
1. مہینے میں ایک بار بیوی کو وقت دیں، چاہے وہ چائے کی ٹپڑی ہو یا سادہ سی واک۔ پیسے نہیں، تعلق تازہ کیجیے۔
2. سال میں ایک بار کسی معمولی ہوٹل میں رات گزاریں۔ یہ تھکن کو ختم کر دیتا ہے، تعلق کو تازہ کر دیتا ہے۔
3. بچوں کے ہوتے ہوئے بھی بیوی اور شوہر کو ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خود کو ترجیح دیں۔
4. شوہر کی تنخواہ جتنی بھی ہو، عزت کا حق دار ہے۔ اور بیوی کا کام، کسی نوکری سے کم نہیں۔
5. خوشی کو مؤخر نہ کریں — یہ سب سے مہلک جرم ہے۔ اس کا انجام ہمیشہ پچھتاوا ہوتا ہے۔
اور خواتین!
ان مردوں کی قدر کیجیے جو ہر شام گھر واپس آتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں باہر کی دنیا کھینچتی ہے، مگر وہ پھر بھی آپ کے ساتھ جیتے ہیں۔
یہ وہ مرد ہیں جو آپ کو چھوڑ کر نہیں گئے، بلکہ آپ کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔
یہ وفادار ہیں، چاہے الفاظ میں اظہار نہ کر پائیں۔
یہ مخلص ہیں، چاہے تنخواہ چھوٹی ہو۔
ان کا شکریہ ادا کیجیے۔ ان سے لڑائی نہیں، محبت کیجیے۔ اور کبھی کبھار بس یہ کہہ دیجیے:
"تم میرے لیے سب کچھ ہو۔"
کیونکہ اگر آپ "کل" کی امید میں "آج" کو مار دیں گے…
تو وہ "کل" صرف رشتوں، احساسات، محبت اور کبھی خود انسان کے جنازے اٹھائے گا۔
یاد رکھیے، آپ غریب نہیں — آپ مڈل کلاس ہیں۔
آپ کے پاس کروڑوں نہیں، مگر احساسات کی وہ دولت ضرور ہے جو زندگی کو خوش رنگ بنا سکتی ہے۔
سو جینے کے لیے بہانہ مت ڈھونڈیے — جذبہ پیدا کیجیے۔
آج کو جئیں۔ اپنے شریکِ حیات کو محسوس کریں۔ ورنہ ایک دن ہوگا، جب آپ کے پاس سب کچھ ہوگا… مگر وہ نہیں ہوگا۔
❤️
👍
😢
🇵🇸
🥺
14