اردو تحـــــــاریــــــر💌 📚📝
June 13, 2025 at 09:53 AM
میں 80 کی دہائی میں پیدا ہوا۔ ایک سادہ، بے فکر، اور خالص دور کا چشم دید گواہ ہوں، جب سب کچھ سادہ تھا، مگر دل بہت خوش ہوا کرتے تھے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Va7OLGd1Hspvf0pbwx3K
وہ وقت جب سب سے مشہور کھیل "چھپن چھپائی"، "اونچ نیچ" اور "برف پانی" ہوا کرتے تھے۔ نہ کوئی موبائل تھا، نہ ٹیب، نہ واٹس ایپ، ہمارا سوشل میڈیا وہ گلی تھی جہاں دوستوں کی آوازیں گونجتی تھیں۔
اور "اکڑ بکڑ بمبے بو" ایک باقاعدہ فیصلہ ساز مجلس ہوتی تھی۔
ہم وہ بچے تھے جن کی جیب میں چمکتی "میچل کی ٹافی"، اور ہاتھ میں "ببل گمرز" والے جوتے ہوتے۔
چار روپے کی پیپسی ہمیں "بڑوں" جیسا محسوس کروا دیتی، پولکا ائس کریم کا جادوئی ذائقہ کتنی ہی دیر تک ہونٹوں سے چپکا رہتا۔
اور جب کوئی بچہ "ونڈر بریڈ" کی BMX سائیکل پر آتا،تو محلے میں چھوٹے چھوٹے دلوں میں ہلکی سی جلن ضرور ہوتی۔
ہم ساڑھے سات بجے اسکول جانے سے پہلے جلدی جلدی ناشتہ کرتے اور پی ٹی وی پر کارٹون دیکھنے کی کوشش کرتے کہ کہیں یہ خزانہ ہاتھ سے نکل نہ جائے۔
اور شام سات بجے وہ لمحے آتے جب "ننجا ٹرٹلز"، "پوپائے دا سیلر مین"، "کیپٹن پلینٹ" اور "نائٹ رائڈر" جیسے نام ہماری دنیا کو کسی خواب جیسا بنا دیتے۔
تب ٹی وی ایک ہوتا تھا،مگر سب ایک ساتھ دیکھتے تھے،اور شاید اسی لیے ہم سب ایک جیسے تھے۔
ہمیں فلمیں دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، مگر جمعرات کی رات کوئی پرانی پاکستانی فلم لگا کرتی، جس کے سین آہستہ آہستہ دیکھتے دیکھتے ہمیں نیند آ جاتی۔
کیونکہ اگلا دن "جمعہ" ہوتا تھا، اور اسکول کی چھٹی!
گرمیوں کی تین مہینے کی چھٹیاں تو جیسے کوئی دوسرا جہان تھیں۔ دوپہر کو گھر والے سوجاتے اور ہم،
جلتے سورج کی پرواہ کیے بغیر ویڈیو گیمز کی دکان پر جا پہنچتے۔
پسینے میں شرابور، دو روپے کے سکے ہاتھ میں لیے،
اور دل میں صرف ایک خواہش کہ وقت یہیں رک جائے۔
اور ویڈیو گیمز؟
"سنو بروز" کی برفانی گولیاں، "سٹریٹ فائٹر" کے دھواں دار پنچ، "ٹینک" کی مشنری جنگیں، اور "کنٹرا" کی سپیڈ۔۔۔
یہ سب کچھ آج بھی دل کی اسکرین پر ویسے ہی چلتا ہے جیسے کل ہی کھیلے ہوں۔
اسی دوپہر، صحن یا چھت پر پڑی برف والی بالٹی میں آم ٹھنڈے کرنا، پھر شام کو وہ آم نکال کر کھاتے وقت جیسے ہم کوئی تہوار منا رہے ہوں۔
چھتوں پر بیٹھ کر ٹھنڈی ہوا میں رسالے پڑھنا ہماری زندگی کے خاص ترین لمحے ہوا کرتے تھے۔
ٹارزن کی مہمات، عُمرو عیّار کی چالاکیاں، انسپکٹر جمشید کی کھوجیں، جناب اے حمید صاحب کا لکھا عمبر ناگ۔۔۔
سبھی کہانیاں ہمارے تخیل کو جگا دیتی تھیں۔
ان رسالوں کے ساتھ وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔
اور پھر وہ راتیں بھی یاد آتی ہیں
جب پی ٹی وی پر ڈرامہ "وارث"، "اندھیرا اجالا"، "دھند"، "ان کہی" یا "تان سیں" چلتا تھا۔
بازاروں کی دکانیں وقت سے پہلے بند ہو جاتیں،
لوگ جلدی گھر آتے تاکہ یہ قیمتی لمحے کسی سے چھن نہ جائیں۔
گھروں میں خاموشی طاری ہو جاتی، اور ہر آنکھ اس چھوٹے سے اسکرین پر جمی ہوتی، جہاں کہانی نہیں، زندگی دکھائی دیتی تھی۔
کبھی کبھی ہم پانی میں کشتیاں بہایا کرتے، گڈے گڈی کی شادیاں رچاتے،اور کبھی انگلی ملا کر دوستی "پکی" کر لیا کرتے۔
ہماری سب سے بڑی خوفناک چیزیں انجیکشن، قاری صاحب اور بند کمرے ہوا کرتے تھے، اور سب سے قیمتی خزانہ ایک نئی ربر، نیا پینسل باکس یا عید پر ملی پچاس روپے کی عیدی۔
دوپہر کے وقت جب سب گھر والے قیلولہ کرتے، تب ہم چپکے سے دوستوں کے ساتھ سائیکل پر نکل جاتے، نہ کوئی فون، نہ کوئی فکر، بس یہ احساس کہ دن ابھی بہت لمبا ہے۔
یہ بچگانہ یادیں شاید "معمولی" لگیں، مگر یہی وہ قیمتی لمحے ہیں جو آج کے شور شرابے میں سکون بن کر یاد آتے ہیں۔
نئی نسل کو شاید یہ سب معمولی لگے، لیکن ہم جانتے ہیں یہی وہ وقت تھا جب ہم سچے دل سے مسکراتے تھے، بے مقصد ہنستے تھے، اور ہر دن جیتے تھے جیسے وہ آخری ہو۔
ہم بڑے ہو گئے ہیں…
لیکن وہ بچپن
اب بھی ہمارے اندر کہیں سانس لیتا ہے اور شاید تا دم آخر لیتا رہے گا۔😢😔
😢
👍
❤️
♥️
🇵🇸
🥺
17