🌹اصلاحی باتیں بیان نظمیں ⬅️ اردو نعت بیان اسلامک سٹیٹس Islamic Post, Videos, Status, Follow
🌹اصلاحی باتیں بیان نظمیں ⬅️ اردو نعت بیان اسلامک سٹیٹس Islamic Post, Videos, Status, Follow
June 6, 2025 at 06:15 AM
اصلاحی باتیں بیان نظمیں: *🌻===قربانی کے فضائل و مسائل===🌻* #قسط_نمبر_4 https://whatsapp.com/channel/0029VaECwwiDeON4bsKzyT2f *قربانی کے دن کے معمولات :* ● حضرت براء رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں حضور اکرم ﷺ نے یوم النحر (بقر عید کے دن) ہمارے سامنے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ اس دن سب سے پہلا کام جو ہمیں کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم (عیدالاضحی کی) نماز پڑھیں پھر گھر واپس جائیں اور قربانی کریں، لہٰذا جس آدمی نے اس طرح عمل کیا (کہ قربانی سے پہلے نماز و خطبے سے فراغت حاصل کر لی) اس نے ہماری سنت کو اختیار کیا اور جس آدمی نے نماز سے پہلے قربانی کرلی وہ قربانی نہیں ہے بلکہ وہ گوشت والی بکری ہے جسے اس نے اپنے گھروالوں کے لئے جلدی ذبح کر لیا ہے۔(متفق علیہ) ● حضرت جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راویت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی (قربانی کا جانور) عید کی نماز سے پہلے ذبح کردے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے بدلے (قربانی کیلئے) دوسرا جانور ذبح کرے اور جو آدمی نماز پڑھنے تک ذبح نہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کے نام پر قربانی کا جانور ذبح کر دے (یہ قربانی درست ہوگی جس کا ثواب اسے ملے گا۔ (متفق علیہ) فائدہ : حدیث بالا میں قربانی کے دن کے معمولات کی ترتیب یہ ذکر کی گئی ہے کہ *پہلے* عید کی نماز ادا کی جائے کہ نماز سے پہلے قربانی کر لینے سے قربانی کا ثواب نہیں ملتا بلکہ اس کا شمار اس گوشت میں ہوجاتا ہے جو عام طور پر گھر والے کھاتے ہیں، اس سلسلہ میں مشروع یہ ہے کہ پہلے عید الاضحی کی نماز پڑھی جائے، *پھر دوسرے نمبر پر* اس کے بعد خطبہ پڑھا جائے اور سنا جائے *پھر تیسرے نمبر پر* قربانی کی جائے۔ *قربانی کا وقت :* حدیث بالا میں قربانی کا وقت پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اس لئے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عید الاضحی کے دن طلوع فجر سے پہلے قربانی جائز نہیں، البتہ طلوع فجر کے بعد قربانی کا وقت شروع ہونے کے سلسلے میں ائمہ کا اختلاف ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قربانی کا وقت شہر والوں کے لئے عید الاضحی کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے اور دیہات والوں کے لئے طلوع فجر کے بعد ہی شروع ہو جاتا ہے، ان کے ہاں قربانی کا آخری وقت بارہویں تاریخ کے آخر تک رہتا ہے، جمہور علماء کا مسلک بھی یہی ہے جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ جب آفتاب بقدر نیزہ بلند ہو جائے اور اس کے بعد کم از کم دو رکعت نماز اور دو مختصر خطبے کی بقدر وقت گزر جائے تو قربانی کا وقت شروع ہوتا ہے، اس کے بعد قربانی کرنا جائز ہے خواہ بقر عید کی نماز ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو، اس وقت سے پہلے قربانی جائز نہیں ہے خواہ قربانی کرنے والا شہر میں رہتا ہو یا دیہات کا رہنا والا ہو، حدیث بالا سے حنفیہ اور جمہور کے مسلک کی تائید ہوتی ہے۔(مستفاد از مظاہر حق) *صاحب نصاب پر قربانی کا وجوب اور زکوة و قربانی کے نصاب میں دو اہم فرق :* امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں قربانی واجب نہیں بلکہ سنت ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ ہر صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے اگرچہ نصاب نامی نہ ہو۔ (مظاہر حق) ○ واضح رہے کہ زکوٰة بھی صاحبِ نصاب پر واجب ہے، اور قربانی بھی صاحبِ نصاب ہی پر واجب ہے، مگر دونوں کے درمیان دو وجہ سے فرق ہے : 1- زکوٰة کے واجب ہونے کے لئے شرط ہے کہ نصاب پر سال گزر گیا ہو، جب تک سال پورا نہیں ہوگا زکوٰة واجب نہیں ہوگی لیکن قربانی کے واجب ہونے کے لئے سال کا گزرنا کوئی شرط نہیں بلکہ اگر کوئی شخص عین قربانی کے دن صاحبِ نصاب ہوگیا تو اس پر قربانی واجب ہے، جبکہ زکوٰة سال کے بعد واجب ہوگی۔ 2- زکوٰة کے واجب ہونے کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ نصاب ”نامی“ (بڑھنے والا) ہو، شریعت کی اصطلاح میں سونا، چاندی، نقد روپیہ، مالِ تجارت اور چرنے والے جانور ”مالِ نامی“ کہلاتے ہیں، اگر کسی کے پاس ان چیزوں میں سے کوئی چیز نصاب کے برابر ہو اور اس پر سال بھی گزر جائے تو اس پر زکوٰة واجب ہوگی، مگر قربانی کے لئے مال کا ”نامی“ ہونا بھی شرط نہیں، مثال کے طور پر کسی کے پاس اپنی زمین کا غلہ اس کی ضروریات سے زائد ہے اور زائد ضرورت کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہے، چونکہ یہ غلہ مالِ نامی نہیں اس لئے اس پر زکوٰة واجب نہیں، چاہے سال بھر پڑا رہے، لیکن اس پر قربانی واجب ہے۔ *عورت اگر صاحبِ نصاب ہو تو اس پر قربانی واجب ہے :* عورت اگر خود صاحبِ نصاب ہو تو اس پر قربانی واجب ہے، ورنہ مرد کے ذمہ بیوی کی طرف سے قربانی کرنا ضروری نہیں، گنجائش ہو تو کردے۔ *برسرروزگار صاحب نصاب اولاد پر قربانی واجب ہے چاہے ابھی ان کی شادی نہ ہوئی ہو :* اگر کوئی شخص اور اسکی اولاد (بیٹے اور بیٹیاں) سب برسرروزگار اور صاحب نصاب ہیں تو ہر ایک کے ذمہ الگ الگ قربانی واجب ہے کیونکہ قربانی ہر عاقل بالغ مرد اور عورت پر مالکِ نصاب ہونے کی صورت میں واجب ہے، چاہے وہ شادی شدہ ہو یا غیرشادی شدہ۔*خانہ داری اور کاروبار میں مشترک ہونے کی صورت میں بالغ اولاد کی طرف سے قربانی :* اگر کسی شخص کی اولاد اس کے ساتھ کاروبار اور خانہ داری میں مشترک ہے اور وہ شخص ہی اپنی اولاد کو خرچہ دیتا ہے تو اس کو چاہئے کہ اپنی اولاد کی طرف سے بھی قربانی کرے اور اگر ان اولاد کی بیویوں کے پاس زیورات اور نقدی وغیرہ اگر اتنی ہو کہ نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے تو ان کی طرف سے بھی قربانیاں کی جائینگی کہ گھر میں جتنے افراد صاحبِ نصاب ہوں گے ان پر قربانی واجب ہوتی ہے، اور اگر کمانے کے باوجود یہ گھرانہ مالک نصاب نہیں تو ان پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔ *مقروض پر قربانی :* اگرکسی مقروض پر قرض ادا کرنے کے بعد اس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت حاجاتِ اَصلیہ سے زائد موجود ہو تو قربانی واجب ہے، ورنہ نہیں۔ *صاحب نصاب پر گزشتہ سال کی قربانی ضروری ہے :* اگر کسی کے ذمہ قربانی واجب ہے تو اس پر قربانی کرنا ہی ضروری ہے، اس کی رقم کسی مستحق کو دینا جائز نہیں اور اگر اس نے گزشتہ سالوں میں قربانی نہ کی ہو تو جتنے سالوں سے قربانی واجب تھی اور ادا نہیں کی تھی، ان سالوں کا حساب کرکے (ایک حصے کی قیمت جتنی بنتی ہے) وہ رقم ادا کرے، اور یہ رقم کسی فقیر پر صدقہ کرنا واجب ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ قربانی کے تین دنوں میں جانور کی قیمت صدقہ کردینے سے یہ واجب ادا نہ ہوگا، ہمیشہ گناہ گار رہے گا، کیونکہ قربانی ایک مستقل عبادت ہے، جیسے نماز پڑھنے سے روزہ اور روزہ رکھنے سے نماز ادا نہیں ہوتی، زکوٰة ادا کرنے سے حج ادا نہیں ہوتا، ایسے ہی صدقہ خیرات کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوتی، حضور اکرم ﷺ کے ارشادات و تعامل اور پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع اس پر شاہد ہیں۔ *نابالغ بچے پر قربانی :* امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ہاں نابالغ بچے کے مال پر نہ زکوٰة فرض ہے، نہ قربانی واجب ہے، اس لئے ولی کو ان کے مال سے زکوٰة اور قربانی کی اجازت نہیں، البتہ ان کے مال سے ان کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے، اور ان کی دیگر ضروریات پر خرچ کرے۔(مستفاد از فتاوی یوسفی) *ناشر: دارالریان کراتشی*
❤️ 👍 4

Comments