
Information Public 1️⃣
June 10, 2025 at 04:02 PM
*باپ: وہ سایہ دار درخت جس کی چھاؤں میں اولاد جوان ہوتی ہے*
*(ازقلم: نوید احمد ہمدرد سئنیر جرنلسٹ )*
باپ... صرف ایک لفظ نہیں، ایک پوری کائنات کا نام ہے۔ ایک ایسا وجود جو اپنی پوری زندگی کو ایک خاموش قربان گاہ میں بدل دیتا ہے، جہاں وہ اپنی تمام خواہشوں، آراموں، خوابوں اور تکالیف کو بے دریغ نذر کر دیتا ہے۔ وہ اپنے وجود کو تپتی دھوپ میں کھڑا کر دیتا ہے، صرف اس لیے کہ اس کے زیرِ سایہ اس کی اولاد ٹھنڈی ہوا میں سانس لے سکے، محفوظ محسوس کر سکے، اور پراعتماد طریقے سے جوان ہو سکے۔
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اس سایہ دار درخت کی جڑیں کتنی گہری ہوتی ہیں؟ وہ جڑیں باپ کی بے مثال قربانیوں، راتوں کی بے خوابیوں، دنوں کی تھکن، خاموش آنسوؤں، اور ہمیشہ دبے ہوئے اپنے دکھوں سے پانی پاتی ہیں۔ وہ درخت کبھی مرجھاتا نہیں، چاہے زمین کی تپش کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو جائے۔ کیونکہ اس کی زندگی کا مقصد ہی یہی ہے – اپنے پتوں کی چھاؤں میں اپنے پھلوں (اولاد) کو پنپتے دیکھنا۔
*پھر ایک دن وہ پھل پک جاتے ہیں، جوان ہو جاتے ہیں۔*
لیکن افسوس! کبھی کبھی یہی جوان شاخیں، جنہیں اس درخت نے اپنے رس سے سینچا تھا، اس کی طرف ہی خاردار ہو جاتی ہیں۔ باپ کا ہر مشورہ، ہر نصیحت، ہر تجویز – جو اس کے عمر بھر کے تجربے کی گہرائی سے نکلتی ہے – سوالات کے تیروں کی زد پر آ جاتی ہے۔ "کیوں؟"، "یہ کیسے؟"، "آپ کا طریقہ پرانا ہو گیا ہے"، "میں خود بہتر جانتا ہوں!"۔ ہر اعتراض، ہر جھڑک، ہر بے اعتنائی... ایک ایسا خنجر بن جاتی ہے جو اس درخت کی چھال کو چیرتا ہے، جو اس کی جڑوں میں زہر گھولتا ہے۔
*سوچیے... کتنا دکھ ہوتا ہوگا؟*
وہ دکھ جب وہی ہاتھ، جو اس نے پال پوس کر جوان کیا، اسی کے تجربے کو حقیر سمجھے۔
وہ درد جب وہی آوازیں، جو اس نے بولنا سکھائیں، اسی کی بات کاٹنے لگیں۔
وہ کسک جب وہی آنکھیں، جو اس کی محبت سے چمکی تھیں، اب اس کی حکمت کو شک کی نگاہ سے دیکھیں۔
کتنا دکھ... کتنا درد... کتنی بے بسی ہوگی اس باپ کے دل میں جو ہر سانس اولاد کے لیے لے رہا تھا؟
یہ صرف اختلافِ رائے کا معاملہ نہیں۔ یہ اس عظیم قربانی کی ناقدری ہے۔ یہ اس بے لوث محبت کی بے حرمتی ہے۔ یہ اس سایہ دار درخت کی چھال اتارنے کے مترادف ہے جو ہمیشہ محافظ تھا۔
*اولادو!*
تمہاری آزاد سوچ، تمہارے نئے خیالات قابلِ احترام ہیں۔ لیکن یاد رکھو:
- تمہارے "جدید" راستے کی روشنی بھی اسی درخت کی چھاؤں میں پروان چڑھی تھی۔
- تمہاری "آزاد" آواز کو گونجنے کا حوصلہ اسی نے دیا تھا۔
- تمہارے ہر سوال کے جواب کی بنیاد اسی کے تجربات نے رکھی تھی۔
اختلاف کرو، لیکن ادب کے ساتھ۔
سوال اٹھاؤ، لیکن احترام کے ساتھ۔
اپنا راستہ چنو، لیکن اس کے مشورے کو سن کر، اس کی آنکھوں میں چمک دیکھ کر۔ وہ چمک جو صرف تمہاری خوشی سے آتی ہے۔
کیونکہ جب تمہارا سایہ دار درخت بظاہر خاموش کھڑا ہے، تو جان لو، اس کی جڑیں تمہارے لیے دعائیں کر رہی ہیں۔ اس کے اندر کا درد صرف ایک ہی چیز سے دور ہو سکتا ہے – تمہارے پیار، تمہارے احترام، اور تمہارے اس اعتراف سے کہ *"آپ کے بغیر، آپ کی قربانیوں کے بغیر، میں کچھ بھی نہیں تھا۔"*۔
❤️
3