قاری ساجدالرحمن لاھور
قاری ساجدالرحمن لاھور
May 19, 2025 at 01:01 AM
وہ قصہ جو آپ کی آنکھوں کو نم کردے گا 😰😰 ابو العاص نبی کریم ﷺ کے پاس بعثت سے پہلے گئے اور کہا: "میں آپ کی بڑی بیٹی زینب سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔" ( ادب ) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "میں ایسا نہیں کروں گا جب تک اس سے اجازت نہ لے لوں۔" ( شرع ) نبی کریم ﷺ زینب کے پاس گئے اور فرمایا: "تمہارے خالہ زاد بھائی تم سے نکاح کا کہتے ہیں، کیا تم اسے اپنے لیے پسند کرتی ہو؟" زینب کا چہرہ سرخ ہو گیا اور وہ مسکرا دی۔ ( حیا ) زینب نے ابو العاص بن ربیع سے شادی کی، جس سے ایک محبت بھری کہانی کا آغاز ہوا، اور انہوں نے علی اور امامہ کو جنم دیا۔ ( خوشی ) پھر ایک بڑی دشواری پیدا ہوئی ، جب نبی کریم ﷺ کو نبوت ملی، اور ابو العاص سفر پر تھے۔ جب وہ واپس آئے تو معلوم ہوا کہ ان کی بیوی مسلمان ہو چکی ہیں۔ ( عقیدہ ) زینب نے انہیں اپنے اسلام کی خوش خبری سنائی، تو ابو العاص ان سے دور ہٹ گئے۔ ( احترام ) زینب حیران ہوئیں اور ان کے پیچھے گئیں۔ انہوں نے کہا: "میرے والد نبی بن گئے ہیں، اور میں مسلمان ہو گئی ہوں۔" ابو العاص نے کہا: "کیا آپ نے مجھے پہلے بتایا یا مجھ سے اجازت لی ؟" زینب نے جواب دیا: "میں اپنے والد کو جھوٹا نہیں کہہ سکتی، وہ صادق اور امین ہیں۔ اور میں اکیلی نہیں ہوں؛ میری ماں، میرے بھائی، میرے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب، تمہارے چچا زاد بھائی عثمان بن عفان، اور تمہارے دوست ابو بکر صدیق بھی مسلمان ہو چکے ہیں۔" ابو العاص نے کہا: "میں نہیں چاہتا کہ لوگ کہیں کہ اس نے اپنی قوم کو چھوڑ دیا اور اپنے آباؤ اجداد سے بے وفائی کی صرف اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیے۔ اور تمہارے والد پر الزام لگانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا تم میری بات سمجھ سکتی ہو؟" ( تعمیری مکالمہ ) زینب نے کہا: "اگر میں نہ سمجھوں گی، تو کون سمجھے گا؟ لیکن میں تمہاری بیوی ہوں، اور تمہیں حق پر آنے میں مدد دوں گی جب تک تم اس کے لیے تیار نہ ہو جاؤ۔" ( سمجھداری اور برداشت ) زینب نے اپنے وعدے کو بیس سال نبھایا۔ ( اللہ کے لیے صبر ) ابو العاص اپنی کفر کی حالت پر قائم رہے، پھر ہجرت کا وقت آیا۔ زینب نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں اور پوچھا: "کیا آپ مجھے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت دیتے ہیں؟" ( محبت ) نبی ﷺ نے اجازت دے دی۔ ( رحمت ) زینب مکہ میں رہیں، یہاں تک کہ غزوہ بدر کا واقعہ پیش آیا۔ ابو العاص قریش کے لشکر کے ساتھ جنگ کے لیے نکلے، اور زینب دعا کرتی رہیں: "یا اللہ! میں ڈرتی ہوں کہ ایسا دن نہ آئے جس میں میرے بچے یتیم ہو جائیں یا میں اپنے والد کو کھو دوں۔" ( حیرت اور دعا ) ابو العاص غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور قید ہو گئے۔ جب زینب کو پتا چلا تو انہوں نے پوچھا: "میرے والد نے کیا کیا؟" انہیں بتایا گیا: "مسلمان جیت گئے۔" انہوں نے شکرانے کے طور پر سجدہ کیا۔ پھر انہوں نے پوچھا: "میرے شوہر کا کیا ہوا؟" جواب ملا: "انہیں قیدی بنا لیا گیا۔" زینب نے کہا: "میں اپنے شوہر کی رہائی کے لیے فدیہ بھیجوں گی۔" ( عقل مندی ) زینب کے پاس قیمتی چیز کچھ نہ تھی، تو انہوں نے اپنی ماں خدیجہ رضی اللہ عنہا کا وہ ہار نکالا جو وہ ہمیشہ پہنتی تھیں، اور اسے ابو العاص کے بھائی کے ساتھ نبی ﷺ کے پاس بھیج دیا۔ نبی کریم ﷺ نے فدیہ وصول کرتے وقت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ہار دیکھا تو رو پڑے اور پوچھا: "یہ ہار کس کا فدیہ ہے؟" جواب دیا گیا: "یہ ابو العاص بن ربیع کا ہے۔" ( وفا ) نبی ﷺ نے کہا: "یہ شخص دامادی کے رشتے میں کبھی برا نہیں نکلا۔ کیا تم اسے آزاد کر دو گے بلافدیہ ؟ اور زینب کو ان کا ہار واپس کر دو۔" ( انصاف اور تواضع ) صحابہ نے کہا: "ہاں، یا رسول اللہ۔" ( صحابہ کا ادب ) نبی ﷺ نے ابو العاص کو ہار دیا اور فرمایا: "اپنی بیوی کو کہنا، خدیجہ کے ہار کی حفاظت کرے۔" ( اعتماد ان کے اخلاق پر باوجود کے وہ حالت کفر میں ہیں ) پھر نبی ﷺ نے ابو العاص سے کہا: "کیا تم زینب کو میرے پاس واپس بھیج سکتے ہو؟" ابو العاص نے کہا: "ہاں۔" ( مردانگی ) زینب ابو العاص کو مکہ کے دروازے پر خوش آمدید کرنے آئیں، جہاں انہوں نے کہا: "میں جا رہا ہوں، لیکن تمہیں اپنے والد کے پاس جانا ہوگا۔" ( وعدہ نبھانا ) زینب نے کہا کیا آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں گے کہا نہیں سو وہ خاموشی سے بیٹے اور بیٹی کو لے کر مدینۃ منورہ آگئیں ( فرمانبرداری ) چھ سال تک زینب کے رشتے آتے رہے لیکن انہوں نے ہر رشتے کے لیے انکار کیا، ابو العاص کے لوٹنے کی امید پر۔ ( وفاداری ) چھ سال بعد، ابو العاص قافلے کے ساتھ شام جا رہے تھے۔ صحابہ نے قافلہ قبضے میں لے لیا، لیکن ابو العاص نکلنے میں کامیاب ہوگئے ، اور ابو العاص رات کے وقت زینب کے دروازے پر پہنچے۔ دروازے بجایا: ( اعتماد ) زینب نے پوچھا: "کیا تم مسلمان ہو گئے؟" ( امید ) انہوں نے کہا: "نہیں، میں بھاگ کر آیا ہوں۔" زینب نے کہا: "کیا تم اسلام قبول کر لو گے؟" ( اصرار اور وعدہ ) ابو العاص نے جواب دیا: "نہیں۔" زینب نے کہا: "فکر نہ کرو، خالہ زاد بھائی کے بیٹے، اور علی و امامہ کے والد، خوش آمدید۔" ( فضل اور عدل ) فجر کی نماز کے بعد، نبی کریم ﷺ نے سنا کہ مسجد کے آخر سے زینب کی آواز آ رہی ہے: "میں نے ابو العاص بن ربیع کو پناہ دی ہے۔" ( شجاعت ) نبی کریم ﷺ نے صحابہ سے فرمایا: "کیا تم نے وہ سنا جو میں نے سنا؟" صحابہ نے کہا: "جی، یا رسول اللہ۔" زینب نے کہا: "یا رسول اللہ، اگر ابو العاص سے دور کارشتہ شمار کروں تو وہ خالہ زاد ہیں، اور اگر قریبی رشتہ ہو تو میرے بچوں کے والد ہیں۔ میں نے انہیں پناہ دی ہے۔" نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "یہ شخص سسرالی رشتے میں برا نہیں نکلا، وعدہ کرتا تھا تو پورا کرتا تھا، اور بات کرتا تھا تو سچ کہتا تھا۔ اگر تم اس کے مال کو واپس کر دو اور اسے چھوڑ دو تو یہ مجھے پسند ہے، لیکن فیصلہ تمہارا ہے، اور تمہارے حق میں ہے۔" ( مشورہ ) صحابہ نے کہا: "ہم اس کا مال واپس کریں گے، یا رسول اللہ۔" ( صحابہ کا ادب ) نبی کریم ﷺ نے زینب سے کہا: "اپنے خالہ زاد بھائی کی مہمان نوازی کرنا، لیکن یاد رکھو، ان کی قربت تمہارے لیے حلال نہیں۔" ( رحمت اور شریعت ) زینب نے کہا: "جی، یا رسول اللہ۔" ( اطاعت ) زینب نے ابو العاص کو خوش آمدید کہا اور کہا: "کیا تمہارے لئے ہم سے جدا رہنا آسان ہے؟ کیا تم اسلام قبول کر کے ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتے؟" ( محبت اور امید ) ابو العاص نے جواب دیا: "نہیں۔" انہوں نے اپنا مال لیا اور مکہ واپس چلے گئے۔ مکہ پہنچ کر، ابو العاص نے لوگوں سے کہا: "یہ لو تمہارا مال، کیا کسی کا کچھ باقی رہ گیا ہے؟" ( امانت داری ) لوگوں نے کہا: "نہیں، تم نے بہترین وفا کی ہے۔ تمہیں اسکا بہترین بدلہ ملے " ( فطرت ) پھر ابو العاص نے کہا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔" ( ہدایت اور نعمت ) ابو العاص فوراً مدینہ روانہ ہوئے اور فجر کے وقت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: "یا رسول اللہ، آپ نے مجھے کل پناہ دی تھی، آج میں ایمان لے کر آیا ہوں۔" ( خوبصورتی سے ہدایت دینا ) پھر ابو العاص نے عرض کیا : یارسول اللہ کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں زینب کے پاس جاوں؟ ( محبت اور ازدواجی تعلقات ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی العاص کو ساتھ لیا اور زینب کا دروازے کھٹکھٹایا اور زینب باہر آئیں تو ان سے کہا تمہارے خالہ زاد بھائی تمہاری طرف لوٹنا چاہتے ہیں کیا تم انہیں قبول کرتی ہو ( والد اور کفیل ) زینب کا چہرہ سرخ ہوگیا اور وہ مسکرا دیں ( رضامندی ) اس واقعہ کے سال بعد زینب کا انتقال ہوگیا ، ابوالعاص بہت شدت سے روئے یہاں تک کہ لوگوں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے آنسو صاف کررہے ہیں اور تسلی دے رہے ہیں ابو العاص نے کہا یا رسول اللہ زینب کے بعد میرے لئے اس دنیا میں کوئ رغبت نہیں (رفیقہ حیات کی محبت ) اس حادثہ کے سال بعد ابو العاص بھی انتقال کرگئے ( پاکیزہ روحوں کا ملن ) اگر آپ یہ قصہ مکمل کر چکے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل و اصحاب پر درود و سلام بھیجیں جزاکم اللہ خیرا کثیرا
❤️ 👍 3

Comments