Daily Islam
Daily Islam
June 8, 2025 at 10:01 AM
قربانی اور جذبہ انسانیت۔ میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند (گردشِ دوراں/ پروفیسر عبدالواحد سجاد ستی، ادارتہ صفحہ روزنامہ اسلام) وطن عزیز میں عید قربان پر ہمارا ایک ”حساس طبقہ“ جانوروں کے حقوق کےلئے پریشان ہو جاتا ہے۔ ان ”مفکرین“ کا کہنا ہے کہ جانور ذبح کرنا وحشت ناک عمل ہے۔ بہتر ہے کہ یہ رقم واٹر کولر لگوانے یا انسانیت کی فلاح کے کسی پراجیکٹ میں لگا دی جائے۔ بادی النظر میں یہ بات بڑی جاذبیت رکھتی ہے لیکن دوسری جانب عالم یہ ہے کہ یہی ”مفکرین“ سارا سال دنیا جہان کی عیاشی کرتے، بڑے محلات بناتے، لاکھوں کے موبائل خریدتے، کروڑوں کی گاڑیوں میں گھومتے، شراب اور شباب، ویلنٹائن ڈے اور نیو ائیر نائٹ پہ کروڑوں لٹاتے، کے ایف سی اور میکڈونلڈز کے علاوہ عالیشان ہوٹلوں میں پر تکلف دعوتیں اڑاتے ہیں مگر انہیں جانوروں کے حقوق یا دکھی انسانیت کی یاد نہیں ستاتی لیکن عیدِ قربان آتے ہی ان میں انسانیت کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے۔ یہ ”ماہرینِ معاشیات“ قربانی کی کامیاب ترین اور فی الفور نتائج کی حامل معاشی سرگرمی پر بھڑ ک اٹھتے اور زہر ہلاہل کو قند ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اقبال کے الفاظ میں : اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند کچھ ایسے بھی”درد انسانیت“ رکھنے والے ہیں، جو جسم فروشی اور شراب فروشی کے مکروہ دھندوں کی ڈھکے چھپے اور کبھی کھلم کھلا حمایت کرتے اور اعداد و شمار سے ان دھندوں پر ٹیکس لگانے سے اربوں کی معاشی سرگرمیوں کی ”خوشخبریاں“ سناتے ہیں۔ انہیں جو بہتر لگے وہ کریں مگر دریدہ دہنی کے ذریعے قربانی کی تضحیک کو فرضِ اوّلین نہ سمجھیں۔ قربانی کی تضحیک کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ انہیں تکلیف اسلام اور شعائرِ اسلام سے ہے۔ دنیا کے بیشتر مذاہب کے مشترکات، مقدس مقامات کی زیارات، مقدس پانی، مقدس پتھر، درس اخلاقیات، خیرات وغیرہ کے قربانی بھی شامل ہے۔ سامی مذاہب سے قبل دیوی دیوتاو¿ں کی خوشی کے لیے انسان کی قربانی دی جاتی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا جو فیصلہ کیا اس کا ذکر اسلام کے علاوہ یہود اور نصاری کی مقدس کتابوں میں تفصیلاً موجود ہے۔ مسلمانوں میں سنتِ ابراہیمی کے اتباع میں حلال جانوروں کی قربانی کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔ آرمینین چرچ کے پیروکار ایک مخصوص دن رسمِ کربانیہ پر بھیڑ یا مرغ قربان کرتے ہیں۔ ہندو مت میں ویدوں سے گھوڑے کی قربانی کا تذکرہ ملتا ہے، البتہ یہ قربانی صرف شاہی خاندان ہی کر سکتا تھا، بعد ازاں یہ رسم بھی متروک ہوگئی۔ برہمن طبقے میں کالی دیوی کی خوشنودی کےلئے بیل یا بکرے قربان کیے جاتے تھے، پھر بدھ مت نے اسے ظالمانہ رسم قرار دے کر ممنوع قرار دے دیا۔ تاہم کالی ماتا کے پیروکار آج بھی اپنے مخصوص مندروں میں جانوروں کی قربانی کرتے اور ان کا خون دیوی کے چرنوں پر چھڑکتے ہیں۔ جانوروں کی قربانی کا سب سے بڑا میلہ ہر پانچ سال بعد نیپال کے شہر بریاپور کے گادھی مائی مندر میں ہوتا ہے جس میں لگ بھگ 50لاکھ افراد 5لاکھ سے زائد جانور قربان کرتے ہیں۔ یہ میلہ ایک ماہ تک جاری رہتا ہے۔ اس”حساس طبقے“ کو دوسرے مذاہب کی رسم قربانی پر اعتراض نہیں، صرف مسلمانوں کی قربانی انہیں وحشت ناک عمل دکھائی دیتا ہے۔ عید الاضحی کے مخصوص ایام میں تقرب الٰہی کے لیے بھیمة الانعام (یعنی بھیڑ، دنبہ، بکری، بیل یا اونٹ) میں سے کسی جانور کو مخصوص شرائط کے ساتھ ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے۔ قربانی کا پس منظر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے اس عظیم واقعے سے جڑا ہوا ہے، جب ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں اللہ نے حکم دیا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو قربان کریں۔ ”پھر جب وہ لڑکا ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا؛ تو انھوں نے کہا، بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمھیں ذبح کر رہا ہوں، تمھاری کی کیا رائے ہے۔ (بیٹے نے کہا)، ابا جان! آپ وہی کیجیے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے، ان شاءاللہ، آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔“ یعنی اسماعیل علیہ السلام نے خود کو رب کی رضا میں دے دیا۔ اقبال کی زبان میں یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آداب فرزندی قربانی کا یہ واقعہ اطاعت، صبر، خلوص اور تسلیم و رضا کی اعلیٰ مثال بن گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے، نہ خون، لیکن اسے تمھارا تقوی پہنچتا ہے۔“ یعنی گوشت اور خون قربانی کا مقصود نہیں بلکہ مقصود اصلی جانور پر اللہ کا نام لینا اور خلوص سے حکم ربی کی بجا آوری ہے۔ مختصراً: ٭قربانی تقوی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے۔ ٭قربانی سے انسان میں مال و جان اللہ کی راہ میں پیش کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ٭قربانی معاشرتی فلاح و بہبود کا ذریعہ ہے؛ اس سے غرباءو مساکین کو گوشت فراہم ہوتا اور ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ ٭قربانی سے مسلمانوں کو ایثار، اخلاص اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا درس ملتا ہے۔ قربانی 10سے 12ذی الحجہ تک، دنبے، بکری، گائے، بیل، بھینس اور اونٹ کی دی جاتی ہے۔ بکرے اور دنبہ کی عمر ایک سال، بیل، گائے، بھینس کی عمر 2۔ اور اونٹ کی عمر کم از کم 5سال ہونی چاہیے۔ بکری یا دنبہ میں ایک ہی حصہ؛ جبکہ بڑے جانورں میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔ قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرنا بہتر ہے تاکہ فائدہ معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچے۔ پہلا حصہ قربانی کرنے والے اور اس کے خاندان کا۔ دوسرا حصہ رشتہ داروں اور دوستوں کا، تاکہ باہمی محبت اور رشتہ داری کے تعلقات مضبوط ہوں۔ تیسرا حصہ غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کا ہے، تاکہ ان کی ضرورت پوری ہو اور وہ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ اس تقسیم کا مقصد قربانی کی اصل روح کو زندہ رکھنا اورمعاشرتی ہم آہنگی اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہے۔ قربانی میں ریاکاری اور نمائش کی کوئی گنجائش نہیں مگر عالم یہ ہے کہ: رسمِ قربانی ہے باقی اُٹھ گیا عشقِ خلیل اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہم نے جو بکرا دیا، کیا دل بھی دیا ہے؟ کیا نفسِ بد کو بھی ہم نے اللہ کی راہ دیا قربانی میں ایک طرف”جذبہ انسانیت“ کے دہائیاں دینے والے ہیں تو دوسری جانب نمود و نمائش سے قربانی کو ضائع کرنے والے حالانکہ گوشت اورخون یا دوسروں کو متاثر کرنے اور فخر کے اظہار کا نام نہیں بلکہ مقصود اصلی خدا کی رضا اور خوشنودی ہے۔

Comments