
Daily Islam
558 subscribers
About Daily Islam
Bring Breaking News , National , International , Business , Technology News at your Inbox With a Single Click To Access All Ones. Please Follow us to Get Updated news in your Whatsapp
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

*کالم: نوائے حق// نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلاحاتِ حج//مولانا زاہدالراشدی* `ادارتی صفحہ روزنامہ اسلام` *Follow/Read/Like/Share* (31 مئی 2025ء کو گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں منعقدہ حج سیمینار سے خطاب کا خلاصہ) بعد الحمد والصلوٰة۔ گفٹ یونیورسٹی کی انتظامیہ اور اسلامک اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کا شکرگزار ہوں کہ ”حجِ بیت اللہ” کے حوالے سے منعقدہ اس سیمینار میں اربابِ علم و دانش، اساتذہ، طلبہ اور طالبات کے سامنے اس اہم ترین دینی فریضے کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ‘حجِ بیت اللہ’ اسلام کی بنیادی عبادات و فرائض کا حصہ ہے اور دنیا بھر سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں مسلمان ذی الحجہ کے دوران حرمین شریفین میں حاضری دے کر حج ادا کرتے ہیں، عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مقدس پر حاضری سے مشرف ہوتے ہیں۔ حج کی ادائیگی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں بیت اللہ شریف کی تعمیر کے بعد سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی حج اور عمرہ دونوں ادا کیے جاتے تھے اور مختلف اطراف و اکناف سے لوگ حاضر ہو کر یہ سعادت حاصل کرتے تھے مگر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے نظام میں بہت سی اصلاحات فرمائی ہیں جس کے بعد دورِ جاہلیت کے حج و عمرہ اور اسلامی ماحول کے حج و عمرہ میں بہت سے فرق نمایاں دکھائی دیتے ہیں اور آج انہی میں سے چند نمایاں ترین تبدیلیوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے مناسک اور نظام میں ایک بڑی تبدیلی تو یہ کی کہ حج کے سفر میں عمرہ کی اجازت دے دی جو اس سے قبل نہیں ہوتی تھی۔ حج کے لیے مکہ مکرمہ آنے والے صرف حج کرتے تھے، عمرہ نہیں کر سکتے تھے، عمرہ کے لیے انہیں الگ موسم میں مستقل سفر کرنا پڑتا تھا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ‘حجة الوداع’ کے لیے تشریف لائے تو اعلان فرمایا کہ جو لوگ ہدی کا جانور ساتھ نہیں لائے وہ عمرہ ادا کر کے احرام کھول دیں اور حج کے موقع پر اس کے لیے الگ احرام باندھیں۔ یہ سن کر لوگوں کو تعجب ہوا کہ پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا حتیٰ کہ بعض حضرات نے پوچھ لیا کہ یارسول اللہ! یہ سہولت صرف اس سال کے لیے ہے یا آئندہ کے لیے بھی ہو گی؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ہمیشہ کے لیے عمرہ کو حج کے ساتھ شامل کردیا ہے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی حج کے ساتھ عمرہ کیا جو اب تک مسلسل جاری ہے بلکہ اکیلے حج سے عمرہ کے ساتھ ادا کیا جانے والا حج ثواب اور فضیلت میں زیادہ شمار ہوتا ہے۔ جاہلیت کے زمانے میں لوگ حج کے ایام میں خرید و فروخت نہیں کرتے تھے اور اسے دنیاداری سمجھ کر دینی عبادت سے الگ رکھا کرتے تھے۔ قرآن کریم نے اس کی نفی فرما دی اور کہا ‘ لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم ‘ کوئی حرج کی بات نہیں حج کے ایام میں تجارت کر سکتے ہو بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کا فضل قرار دیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دین اور دنیا کو الگ الگ سمجھنے کا جو ماحول قائم ہو گیا تھا وہ درست نہیں ہے بلکہ دین اور دنیا اکٹھے ہیں اور دونوں انسان کی ضروریات میں سے ہیں۔ البتہ ان میں توازن ضروری ہے۔ اسی طرح حج کے حوالے سے ہی یہ دعا سکھائی کہ ‘ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنة وفی الآخرة حسنة’ اے اللہ ہمیں دنیا اور دین دونوں کی اچھائیاں نصیب فرما۔ جاہلیت کے دور میں حج کے دوران بیت اللہ کا طواف تو سارے کرتے تھے مگر صفا اور مروہ کی سعی صرف قریش اور ان کے دوست قبائل کیا کرتے تھے۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ قریشی لوگ اپنی دادی حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی یاد میں ایسا کرتے ہیں، اس لیے دوسرے لوگ اس میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ مگر قرآن کریم نے اسے تبدیل کر دیا اور فرمایا کہ صفا اور مروہ کی سعی صرف حضرت ہاجرہ کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ خود بھی ‘شعائر اللہ’ میں سے ہیں۔ اس لیے حج اور عمرہ دونوں میں بیت اللہ کے طواف کے ساتھ صفا و مروہ کی سعی بھی مناسک میں شامل ہے۔ جاہلیت کے دور میں ایک بات یہ بھی تھی کہ ‘عرفات’ کا وقوف حج کے لیے آنے والے باقی سارے لوگ کرتے تھے مگر قریشی اس کے لیے عرفات نہیں جاتے تھے اور حرم کی حدود میں ہی رہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ‘نحن حمس’ جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ہم وی آئی پی ہیں اس لیے ہمارا عرفات جانا ضروری نہیں ہے۔ قرآن کریم نے اس رسم کو یہ کہہ کر توڑا کہ ‘ثم افیضوا من حیث افاض الناس’ تم بھی حج کے لیے وہیں جاؤ جہاں باقی لوگ جاتے ہیں۔ اس لیے کہ حج بیت اللہ بلکہ کسی بھی عبادت میں کوئی ”پروٹوکول” نہیں ہے اور خدا کی بندگی میں سب برابر ہیں۔ ایک اور جاہلی رسم کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا کہ بہت سے مرد اور عورتیں بیت اللہ کا طواف بے لباس ہو کر عریانی میں کرتے تھے اور اسے نیچر اور فطرت قرار دیتے تھے کہ ہم دنیا میں ننگے آئے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ کے دربار میں نیچرل حالت میں یعنی ننگے حاضر ہوتے ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرما دی اور اعلان کر دیا کہ کوئی مرد یا عورت بیت اللہ کے طواف کے لیے ننگے نہیں آئیں گے، مرد کے لیے احرام کی صورت میں مخصوص لباس ضروری قرار دیا اور عورت سے کہا کہ وہ معمول کے لباس میں حج کے مناسک ادا کرے گی۔ قرآن کریم نے حج کے نظام میں سب سے بڑی تبدیلی یہ کی کہ حج، عمرہ اور حرمِ مکہ کی حاضری کو صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص کر دیا اور حرمِ مکہ کی تولیت سے مشرکین کو الگ کر کے ان کے لیے حرم میں آنے کو ممنوع قرار دے دیا، حالانکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہونے کی وجہ سے ابراہیمی کہلاتے تھے، مگر حج اور عمرہ کو صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص قرار دے کر کسی بھی غیر مسلم کی اس میں شرکت کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔اس کے علاوہ بھی حج کے طریق کار اور مناسب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیلیاں فرمائیں اور آج تک اسی طریق کار کے مطابق حج اور عمرہ کی ادائیگی کا سلسلہ جاری ہے۔ اللہ پاک جانے والوں کا حج اور عمرے قبول فرمائیں اور ہر مسلمان کو اس کی توفیق اور قبولیت سے نوازیں۔ آمین یارب العالمین! https://dailyislam.pk/?p=121131

*اداریہ: میثاقِ معیشت اور قانون کی بالادستی اہم ضرورت* `ادارتی صفحہ روزنامہ اسلام` *Follow/Read/Like/Share* وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ معاشی میدان میں بھی پاکستان ایک عظیم قوم بن کر ابھرے گی، آج وقت ہے، پوری قوم متحد ہے، ہمیں ملک کیلئے کڑے فیصلے کرنے ہیں۔پشاور میں منعقدہ جرگے میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور، فیلڈ مارشل عاصم منیر، گورنرخیبر پختونخوا، قبائلی عمائدین اور قبائلی اضلاع کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے شرکت کی۔جرگے سے خطاب میں وزیراعظم کا کہنا تھاکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور عمائدین کی بات سنی، خیبرپختونخوا عظیم اور خوبصورت ترین صوبہ ہے، خیبرپختونخوا کے لوگوں کی تاریخ دنیا بھلا نہیں پائے گی، یہاں کے لوگوں نے ہمیشہ پاکستان کا پرچم بلند کیا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں کے پی کے عوام کی عظیم قربانیاں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ علی امین نے کہا کہ 15 سال ہوگئے این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کرنا ہوگی، اگست میں این ایف سی سے متعلق پہلی میٹنگ بلائیں گے اور اس پر ہم نظر ثانی کریں گے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں منعقدہ جرگے میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور، فیلڈ مارشل عاصم منیر، گورنر خیبرپختونخوا، قبائلی عمائدین اور منتخب نمائندوں کی موجودی موجودہ حالات میں قوم کیلئے ایک مثبت پیغام ہے۔ اس اہم نشست میں جہاں خیبرپختونخوا کی عوامی محرومیوں، وسائل کی تقسیم، مسائل، این ایف سی ایوارڈ اور سیکورٹی کی صورتحال پر بات ہوئی، وہیں یہ پیغام بھی دیا گیا کہ ریاست تمام اکائیوں کے ساتھ کھڑی اور تمام اکائیوں کو لیکر کھڑی ہے، نیز بلوچستان کے جرگے کے بعد اب کے پی کے کے اس جرگے نے یہ پیغام دیا ہے کہ قومی معاملات میں صوبے بھی وفاق اور ریاست پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔وزیراعظم نے این ایف سی ایوارڈ کے تناظر میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے اگست میں اس سلسلے میں باقاعدہ اجلاس بلانے کا عندیہ دیا اور ساتھ ہی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا جو خیبرپختونخوا کے مسائل پر گہرائی سے غور کرے گی۔ وزیر اعظم نے 2010ء کے این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبے کو دہشت گردی کے خلاف دیے گئے وسائل کا حوالہ دیا اور واضح کیا کہ صوبے کو ماضی میں بھی 700 ارب روپے فراہم کیے گئے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ مرکز اور بالخصوص صوبہ خیبرپختونخوا، جہاں وفاقی حکومت کی کٹر سیاسی مخالف پی ٹی آئی تقریباً ایک عشرے سے زائد عرصے سے حکمران چلی آ رہی ہے، ایک میز پر بیٹھ کر معاملات و مسائل کا حل نکالنے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ اس سلسلے میں این ایف سی ایوارڈ ایک ایسا معاملہ ہے جو تقریباً تمام چھوٹے صوبوں اور وفاق کے مابین اکثر بڑے تنازعات اور اختلافات کا سبب بنا رہتا ہے۔ مالی وسائل کو آبادی کے لحاظ سے تقسیم کرنے کا میکنزم بنایا جائے یا اس حوالے سے رقبے اور پیداواری وسائل کو بنیاد بنایا جائے، اس پر صوبوں میں تنازعات اکثر و بیشتر سر اٹھاتے رہتے ہیں، اب اس معاملے کو کے پی کے نے اٹھایا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاق کے نمائندے کی حیثیت سے صوبے کے اس مطالبے کو اہمیت دی اور آنے والے دنوں میں اس پر نظرثانی کا اعلان کیا۔ مالی وسائل کی منصفانہ تقسیم ایک ایسی چیز ہے جو وفاق کی اکائیوں میں نا انصافی اور کسی کے حق میں کمی بیشی کے تاثر کو ختم کرسکتی ہے اور اسی راہ سے وفاق مضبوط ہوگا۔ مستحکم وفاق اکائیوں کے استحکام سے ہی ممکن ہے، وفاق کے اہل حل و عقد کو جتنی جلد یہ نکتہ سمجھ میں آجائے اتنا ہی خود وفاق کے استحکام اور ریاست کی سا لمیت کے تحفظ کیلئے بہتر ہوگا۔ اکائیوں میں محرومی، نا انصافی اور وسائل پر جائز حق کی عدم فراہمی کے تاثر و احساس سے وفاق اور ”وفاقیت” کی سوچ کو ہی نقصان ہوسکتا ہے۔ اگر وفاق یہ سمجھتا ہے کہ زیادہ وسائل اپنے پاس رکھ کر خود کو مستحکم کرسکتا ہے تو یہ بالکل غلط سوچ اور پالیسی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف معاملہ فہم اور لچکدار رویے کے حامل شخص ہیں اور انہوں نے کے پی کے کا مطالبہ تسلیم کرکے معاملہ فہمی کا ثبوت بھی دے دیا ہے۔ اب صوبائی حکومت کو بھی اپنے سیاسی مفادات سے بالا تر ہو کر صوبے کے بہتر مفاد میں وفاق کی طرف دست تعاون بڑھا دینا چاہیے۔ وزیراعظم کی جانب سے پانی کے مسئلے پر چاروں صوبوں کو اعتماد میں لینے اور سندھ طاس معاہدے کے تحت ہر قطرے پر پاکستان کے حق کا ذکر بھی بروقت اور اہم معاملہ ہے۔ بھارتی آبی جارحیت سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو نئے آبی ذخائر کی تعمیر اور موجودہ وسائل کے مؤثر استعمال کی فوری ضرورت ہے۔ اسی پس منظر میں وزیراعظم کی زیر صدارت دیامر بھاشا ڈیم اور دیگر آبی وسائل پر منعقدہ اجلاس بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ وزیراعظم نے بجا طور پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ پاکستان کی معاشی خود انحصاری کا دارومدار سستی بجلی اور زراعت پر ہے لیکن یہ خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک ہم معاشی نظام کو شفاف نہ بنائیں، اداروں کو کرپشن، رشوت، کمیشن خوری اور کام چوری سے پاک نہ کریں اور ایک ایسا ماحول نہ بنائیں جس میں میرٹ، انصاف اور قانون کی بالادستی ہو۔ جب تک ہمارے ادارے سیاسی مداخلت سے آزاد نہیں ہوں گے اور ہر شہری کو اس کا حق نہیں ملے گا، تب تک صرف منصوبے بنانا اور اجلاس کرنا محض رسمی کارروائی سمجھی جائے گی۔ اندرونی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ ملک کے ہر طبقے میں پائے جانے والے احساسِ محرومی کا ازالہ کیا جائے۔ خاص طور پر پسماندہ علاقوں، جیسے کہ قبائلی اضلاع، بلوچستان اور اندرونِ سندھ کے عوام کو قومی دھارے میں مکمل طور پر شامل کیا جائے۔ ان کی تعلیمی، طبی، اقتصادی اور سیاسی ضروریات کو ترجیحی بنیادوں پر پورا کیا جائے۔ ان علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کی تیز رفتار تکمیل، روزگار کے مواقع، اور امن و امان کی بہتری ریاستی ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ قومی سطح پر معاشی فیصلے کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے درمیان اعتماد کا فقدان نہ ہو۔ پاکستان کی سیاست کو ذاتی مفادات سے نکال کر اجتماعی مفادات کی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمارا سیاسی کلچر اب بھی ذاتی دشمنیوں، اقتدار کی ہوس اور الزام تراشیوں میں الجھا ہوا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستان میں ایک میثاقِ معیشت پر تمام سیاسی قوتیں یک زبان ہوں اور متفقہ روڈ میپ طے کریں تاکہ کوئی بھی حکومت آئے، قومی معیشت کی سمت تبدیل نہ ہو۔ https://dailyislam.pk/?p=121134

*کالم: صدا بصحرا// حکومت مخالف متوقع ملک گیر تحریک//رفیع صحرائی* `ادارتی صفحہ روزنامہ اسلام` *Follow/Read/Like/Share* پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے بانی پی ٹی آئی سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ ہمیں عدلیہ اور ایگزیکٹو سے کوئی ریلیف نہیں مل رہا ہے۔ ہمیں دیوار کے ساتھ لگایا گیا ہے۔ ہمارے پاس سڑکوں پر آنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا۔ انہوں نے کہا کہ ملک گیر تحریک کو بانی پی ٹی آئی جیل سے خود لیڈ کریں گے تاہم احتجاجی تحریک کا مرکز اسلام آباد نہیں ہوگا۔ بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ احتجاجی تحریک کا پلان بنانے کی ذمہ داری بانی نے انہیں سونپی ہے جسے وہ پورا کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ عمران خان احتجاجی تحریک کے لیے بہت سنجیدہ ہیں۔ اب جو تحریک چلے گی اس سے پہلے ایسی تحریک کبھی نہیں چلی ہو گی۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ انہیں اپنی لیڈرشپ پر اعتماد ہے لیکن اس تحریک کی قیادت وہ خود جیل سے کریں گے۔ جہاں تک پی ٹی آئی کی متوقع احتجاجی تحریک کا تعلق ہے تو اس کا اسے آئینی حق حاصل ہے اور اس سے پہلے بھی بارہا اس نے یہ حق استعمال کیا ہے۔ بعض مواقع پر تو یہ حق اپنی حدود سے بھی تجاوز اختیار کر کے استعمال کیا گیا جس کا خمیازہ بانی پی ٹی آئی، کچھ لیڈر صاحبان اور ورکرز بھگت بھی رہے ہیں۔ اس کے لیے 9مئی کے بعد 26نومبر کو اسلام آباد پر مسلح چڑھائی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی ملک گیر احتجاجی تحریک کے اعلان سے اس بات کی تصدیق تو ہو گئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف مذاکرات کے لیے ان کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھاما نہیں گیا۔ علیمہ خان نے مئی کے آخری عشرے میں بانی پی ٹی آئی کی طرف سے بار بار اور واشگاف الفاظ میں کچھ لو اور کچھ دو کی خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنے کی خواہش کا اظہار کیا، مگر ان کے بیانات اور خواہش کو پذیرائی نہیں مل سکی۔ اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ عمران خان کے پاس دینے کے لیے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ دوسری طرف کا موقف ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی سرتوڑ مخالفت کے باوجود ملکی معیشت کا پہیہ پٹڑی پر تیزی سے رواں دواں کر دیا گیا ہے۔ اوورسیز میں عمران خان کی حمایت اور مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ ملک کے اندر تحریکِ انصاف کمزور ہو چکی ہے۔ ہندوستان سے جنگ جیت کر حکومت اور فوج کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ کمزور عمران خان بارگیننگ کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ جیل میں بیٹھ کر احتجاجی تحریک کی قیادت کرنے کے ارادے سے دو باتوں کا واضح طور پر پتا چل رہا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے یوٹیوبرز کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی ہے جن میں وہ بار بار عمران خان کے عید سے قبل جیل سے باہر آنے کی خبریں تواتر کے ساتھ دے رہے ہیں۔ اگر عمران خان کو اپنی رہائی کا یقین ہوتا تو وہ جیل میں بیٹھ کر ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان نہ کرتے۔ وہ یہ کام جیل سے باہر آ کر زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتے تھے جبکہ اس تحریک کا بظاہر تو مقصد ہی عمران خان کی رہائی نظر آ رہا ہے۔ دوسری بات یہ واضح ہو رہی ہے کہ عمران خان کو اپنی لیڈرشپ پر اعتماد نہیں رہا۔ اگر انہیں ان پر اعتماد ہوتا تو تحریک کی قیادت وہ اپنی لیڈر شپ کو سونپتے مگر باقی لیڈر شپ کو چھوڑیں انہوں نے اپنی بہنوں پر بھی اس سلسلے میں اعتماد نہیں کیا۔ شاید بعض تجزیہ نگاروں کی طرح عمران خان کو بھی احساس ہو گیا ہو کہ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو آزاد عمران خان کی نسبت قیدی عمران خان زیادہ وارا کھاتا ہے۔ اس سوچ کی وجہ لیڈرشپ کا رویہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے خصوصاً پنجاب میں ایم این ایز، ایم پی ایز، ٹکٹ ہولڈرز اور عہدیداران احتجاج کی کسی کال کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ وہ اپنے ورکرز کو لے کر احتجاجی ریلیوں کی قیادت کرنے کی بجائے پختونخوا میں جا کر چھپ جاتے ہیں یہاں تک کہ مرکزی احتجاج میں خود بھی شریک نہیں ہوتے۔ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ کو سب نے میڈیا پر دیکھا تھا جو احتجاج کے روز اکیلے ہی لاہور کی سڑکوں پر گاڑی لیے گھوم رہے تھے۔ سیکریٹری اطلاعات وقاص اکرم شیخ کہیں زیرِ زمین رہ کر بیانات جاری کر کے ورکرز کو احتجاج کی کال دے رہے تھے۔ اب احتجاجی تحریک کو ملک بھر میں شروع کرنے سے وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے والے چہرے بھی سامنے آ جائیں گے۔ اس تحریک کے ذریعے صوبے، ضلع، تحصیل اور شہروں کی مقامی پی ٹی آئی قیادت، ایم پی ایز، ایم این ایز اور ٹکٹ ہولڈرز کا امتحان بھی ہو گا۔ دودھ پینے والوں اور خون دینے والوں کی الگ الگ شناخت ہو سکے گی۔ دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کی قیادت اور ورکرز کے لیے مشکل وقت آنے والا ہے۔ علی ظفر کا کہنا ہے کہ اب جو تحریک چلے گی اس سے پہلے ایسی تحریک کبھی نہیں چلے ہو گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی موجودہ حالات میں ایسی کوئی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے؟ اس سے پہلے بھی متعدد بار کوشش کی گئی ہے لیکن آپ اگر علی امین گنڈاپور کو نکال دیں تو تمام کوششوں کے دوران پی ٹی آئی لیڈر شپ نے سخت مایوس کیا ہے۔ ایسا بھی ہو چکا ہے کہ کسی مشکل سے بچنے کے لیے پی ٹی آئی لیڈر شپ نے پولیس کو بلوا کر فرمائشی گرفتاریاں بھی دی ہیں۔ مجھے لگتا ہے پی ٹی آئی کا ایک مضبوط دھڑا عمران خان کو اس ملک گیر احتجاجی تحریک کو شروع کرنے سے روکنے کی پوری کوشش کرے گا۔ سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر جیل میں قید عمران خان سے کسی کو ملنے ہی نہ دیا گیا تو وہ احتجاجی تحریک کی قیادت کیسے کر پائیں گے؟ کہیں احتجاجی تحریک کا مقصد اپنی بارگیننگ پوزیشن بہتر بنانا تو نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان کو پی ٹی آئی کے خلاف کسی ممکنہ کریک ڈاؤن کی خبر ملی ہو اور وہ اس کی پیش بندی کررہے ہوں؟ صورتِ حال چند روز میں واضح ہو جائے گی۔ https://dailyislam.pk/?p=121120

*کالم: نیوز آئی// آپریشن بنیان مرصوص علیحدگی پسند عناصر کے لیے بھی سبق//عبدالباسط علوی* `ادارتی صفحہ روزنامہ اسلام` *Follow/Read/Like/Share* بلوچستان، سندھ اور آزاد کشمیر جیسے خطوں میں ایک چھوٹا سا طبقہ نیشنلسٹ اور علیحدگی پسند نظریات رکھتا ہے۔ جغرافیائی، سیاسی حقیقت پسندی، اسٹریٹجک پیچیدگی اور علاقائی اتار چڑھاؤ کے دور میں یہ تیزی سے واضح ہوتا جا رہا ہے کہ یہ خواہش نہ صرف ناقابل عمل ہے بلکہ اس کے پیچھے ٹھوس دلائل بھی نہیں ہیں۔ خاص طور پر ہندوستان کے طور پر ایک جارحانہ اور بالادستی کے عزائم والے پڑوسی کے خطرے کو دیکھتے ہوئے ایسا سوچنا بھی ناقابل فہم ہے۔ تقسیم اور نفرتوں کی ترویج کرنے کے بجائے اب وقت آگیا ہے کہ خوابوں اور خام خیالیوں میں رہنے والے عناصر کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ان کی حقیقی طاقت، سلامتی اور ترقی مجموعی طور پر پاکستان کو مضبوط کرنے میں مضمر ہے۔ ایک متحد، محفوظ اور مستحکم پاکستان بیرونی خطرات کے خلاف بہترین دفاع اور اپنی متنوع آبادی کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند انتظام ہے۔ ہندوستان کے علاقائی عزائم اس کی اپنی سرحدوں سے بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ جنگوں، سرحد پار دراندازیوں اور اسٹریٹجک بندشوں کی تاریخ کے ساتھ ہندوستان نے اپنے آپ کو توسیع پسندانہ رجحانات کے ساتھ ایک علاقائی تسلط کے عزائم والے ملک کے طور پر کھڑا کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اس کے اقدامات بشمول آرٹیکل 370کی منسوخی، غیرقانونی آبادیاتی تبدیلیاں اور اختلاف رائے کو دبانا ایک واضح انتباہ پیش کرتے ہیں۔ ہندوستان اپنے مفادات کے سامنے کسی دوسرے کی خود ارادیت کا احترام نہیں کرتا ہے۔ اگر بالفرض پاکستان کشمیر کو نام نہاد ‘آزاد ریاست’کے طور پر قبول کر بھی لے تو اپنے ایمان سے بتایئے کہ بھارت جیسے پڑوسی کے ہوتے ہوئے ایسی آزاد ریاست کا رہنا ممکن ہے؟ ایسی ریاست میں دفاع کے بنیادی ڈھانچے، معاشی گہرائی، سفارتی شناخت اور فوجی صلاحیت کی کمی ہوگی اور وہ بھارت کے لیے ترنوالہ ثابت ہوگی۔ پاکستان میں ہندوستان کی انٹیلی جنس کارروائیاں، باغی عناصر کے لیے اس کی حمایت اور پاکستان کے مفادات کے خلاف اس کی سازشیں اس طرح کے مخالف کے قریب رہنے کے خطرے کو اور بھی واضح کرتی ہیں۔ قوم پرست اور علیحدگی پسند تحریکیں اکثر اس بات پر زور دیتی ہیں کہ آزادی اپنی حکومت، خوشحالی اور ثقافتی آزادی لائے گی تاہم حقائق اس طرح کے نقطۂ نظر کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر، بلوچستان اور سندھ پاکستان کی قومی معیشت میں گہرائی سے مربوط ہیں۔ تمام صوبے اور آزاد کشمیر وفاقی مالی اعانت، بین الصوبائی تجارت، بنیادی ڈھانچے کے نیٹ ورکس اور مشترکہ حفاظتی انتظامات پر انحصار کرتے ہیں۔ آزاد ریاستوں کے طور پر ان کے پاس معاشی خود کفالت، صنعتی صلاحیت یا زندہ رہنے کے لیے بنیادی مالی ڈھانچے کی کمی ہے اور تنہا رہنا نا ممکن ہے۔ کوئی بڑی عالمی طاقت ان علاقوں میں فروغ پانے والے علیحدگی پسند نظریات کو تسلیم نہیں کرتی۔ علیحدگی کی کسی بھی کوشش کو بین الاقوامی تنہائی، تجارتی پابندیوں اور ممکنہ طور پر معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان ایک جوہری طاقت اور ایک اسٹریٹجک ریاست کے طور پر ایک عالمی سفارتی وزن رکھتا ہے اور چھوٹی علیحدہ ریاستیں کبھی بھی اس کی برابری نہیں کر سکیں گی۔ تباہی، افراتفری اور غیر ملکی تسلط کا باعث بننے والے نظریات کا تعاقب کرنے کے بجائے نیشنلسٹ اور علیحدگی عناصر کو متحد پاکستان کا حصہ ہونے کے واضح اور ٹھوس فوائد کو تسلیم کرنا چاہیے۔ پاکستان کی طاقتور مسلح افواج، جوہری ڈیٹرینس اور اسٹریٹجک اتحاد اس کے تمام خطوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور پاکستان خاص طور پر آزاد کشمیر کا بھرپور دفاع کرتا ہے جسے ہر وقت ہندوستان سے خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان کے حصے کے طور پر یہ علاقے قومی سلامتی کی ڈھال سے فائدہ اٹھاتے ہیں، جسے ایک نیا آزاد ملک حاصل نہیں کر سکتا۔ پاکستان نے قومی منصوبوں میں لاکھوں ملین کی سرمایہ کاری کی ہے جو دُوردراز اور پسماندہ علاقوں کو مربوط کرتے ہیں۔ سی پیک بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لیے ایک گیم چینجر منصوبہ ہے۔ پاکستان سے الگ ہونے کا مطلب ترقی کے اس راستے سے منقطع ہونا اور اس کے نتیجے میں معاشی تنہائی ہوگی۔ شکایات کا حل بغاوت میں نہیں بلکہ پاکستان کے جمہوری عمل میں حصہ لینے میں ہے۔ پاکستان کا آئین نمائندگی، علاقائی خود مختاری اور ثقافتی تحفظ کے لیے طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔ قوم پرست خدشات کو بات چیت، قانون سازی اور ترقی کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے نہ کہ تشدد یا عدم اتحاد کے ذریعے۔ عالمی تاریخ انتباہ کی تفصیلات سے بھری ہوئی ہے جہاں علیحدہ ریاستیں بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہیں یا مضبوط پڑوسیوں کی طرف سے فوری طور پر مغلوب ہوگئیں۔ یوگوسلاویہ کی تحلیل، مشرق وسطیٰ کے کچھ حصوں میں جاری عدم استحکام اور نگورنو کاراباخ یا کردستان میں حل نہ ہونے والے بحرانوں کو ہی دیکھ لیں۔ ان معاملات میں سے ہر ایک میں اقلیتی قوم پرستی طویل تنازعات، معاشی تباہی اور انسانی آفات کا باعث بنی ہے۔ پاکستان اس کے برعکس فیڈریشن کا ایک بہترین ماڈل پیش کرتا ہے۔ اس کے اتحاد نے طاقتور دشمنوں کے خلاف علاقائی سالمیت اور قومی بقا کو یقینی بنایا ہے۔ بھارت نے پاکستان میں علیحدگی پسندانہ نظریات کی کھل کر حمایت کی ہے۔ کلبھوشن یادیو کے اعترافات سے لے کر بلوچستان میں را کے مالی تعاون سے چلنے والے گروہوں کی موجودگی تک اور پاکستان کے خلاف بھارت کی جارحانہ پروپیگنڈا مہموں کے ذریعے یہ واضح ہے کہ داخلی تقسیم کو فروغ دینا بھارت کی طویل مدتی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ پاکستان کے اندر نیشنلزم اور علیحدگی پسندی کو فروغ دے کر ہندوستان پاکستان کو بغیر گولی چلائے اندر سے کمزور کرنے کی امید کرتا ہے۔ نیشنلسٹ اور علیحدگی پسند عناصر جو اپنے آپ کو ان مقاصد کے ساتھ مربوط کرتے ہیں، شعوری یا نادانستہ طور پر اپنے ہی لوگوں کے مستقبل کی قیمت پر دشمن کے مفادات کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ علیحدگی پسند رہنماؤں، ان کے پیروکاروں اور پاکستان اور آزاد کشمیر میں قوم پرستی کی طرف جھکاؤ رکھنے والوں کے لیے اپنے مفروضوں پر نظر ثانی کرنے کا وقت ہے۔ کیا فوجی اور سفارتی طور پر ایک جارحانہ ہندوستان کے سائے میں تنہا رہنا سمجھداری ہے؟ کیا پاکستان کے اداروں، دفاع اور معیشت کی حمایت کے بغیر ایک الگ تھلگ خطہ عالمی سطح پر مقابلہ کر سکتا ہے؟ کیا تشدد، تخریب کاری اور بغاوت واقعی لوگوں کے مفادات کی تکمیل کرتی ہے یا صرف مزید مصائب پیدا کرتی ہے؟ اس کا منطقی جواب واضح ہے کہ پاکستان کا اتحاد طاقت کا ذریعہ ہے ایک بوجھ نہیں۔ گورننس کو بہتر بنانے، انصاف کو یقینی بنانے اور فیڈریشن کے اندر مساوات کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرنا ہی واحد راستہ ہے۔ ایک ایسے دور میں جس میں اقوام کو معاشی بحرانوں، علاقائی تنازعات اور جغرافیائی سیاسی دشمنی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، پاکستان کی بقا اور کامیابی کا انحصار داخلی ہم آہنگی پر ہے۔ علیحدگی پسندی کا تصور نہ صرف غیر حقیقی ہے بلکہ خطرناک اور تباہ کن بھی ہے۔ وفاق کو اندر سے کمزور کرنے کے بجائے پاکستان اور آزاد کشمیر میں نیشنلسٹوں اور علیحدگی پسندوں کے لیے یہ بہت زیادہ فائدہ مند ہے کہ وہ اپنی توانائیاں اصلاحات اور قومی ترقی میں لگائیں۔ ایسا کرنے سے وہ اپنے لوگوں کو غیر ملکی تسلط اور علاقائی افراتفری کے خطرات سے بچاتے ہوئے ان کے معیار زندگی کو بلند کر سکتے ہیں۔ مستقبل تعمیر کرنے والوں کا ہے تباہ کرنے والوں کا نہیں۔ وقار، خوشحالی اور طاقت کا راستہ پاکستان کو مضبوط کرنے میں ہے نہ کہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوششوں میں۔ قوم پرستوں کے لیے یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ اگر پاکستان نہیں ہے تو وہ ہندوستان کی موجودگی میں خطے میں آزادانہ طور پر زندہ نہیں رہ سکتے۔ پاکستان میں آزادیاں اور حقوق ہیں لیکن فیڈریشن چھوڑنے سے یہ غائب ہو جائیں گے۔ یہ دیکھنا افسوس ناک ہے کہ کچھ لوگ پاکستان اور ہندوستان کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں جو کہ غیرحقیقی اور غیرمنصفانہ ہے۔ ہندوستان کا بین الاقوامی کردار اور اس کی سرحدوں کے اندر اقلیتوں کے ساتھ اس کا سلوک دنیا کے سامنے ہے اور ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ مساوی سلوک کرنے والوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ آپریشن بنیان مرصوص واضح طور پر پاکستان کی طاقت کا پیغام دیتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پاکستان میں ہر کوئی اندرونی یا بیرونی دشمنوں کے خوف کے بغیر آزادانہ طور پر رہ سکے اور کام کر سکے۔ آپریشن بنیان مرصوص کو محض ایک فوجی فتح کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ اس سے سبق بھی حاصل کرنا چاہیے۔ پاکستان اپنی علاقائی سالمیت اور پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور آزاد جموں و کشمیر سمیت اپنی سر زمین کے ہر ایک انچ کی حفاظت کا عزم کیے ہوئے ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ آپریشن بنیان مرصوص ہر شہری کو اپنا جائزہ لینے کے لیے مجبور کرتا ہے۔ نیشنلسٹوں اور علیحدگی پسندوں کے لیے وقت آگیا ہے کہ وہ غیرمنطقی خوابوں اور ناکام نظریات کو ترک کردیں۔ پاکستان کے ساتھ وفاداری کوئی سیاسی نعرہ نہیں ہے بلکہ یہ اخلاقی، تاریخی اور سالمیت کی ضرورت ہے۔ ہر پاکستانی کا مستقبل، اس کے علاقے یا نسل سے قطع نظر تقسیم میں نہیں بلکہ اتحاد میں ہے اور آپریشن بنیان مرصوص نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان ہر قیمت پر اس اتحاد کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہے۔ https://dailyislam.pk/?p=121127

خطے میں امن کی خاطر امریکا کے کہنے پر جنگ بندی قبول کی،وزیر اعظم اسلام آباد:وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ثابت ہوگیا پہلگام واقعہ فالس فلیگ آپریشن تھا، بھارت دنیا کے سامنے ثبوت پیش کرنے میں ( مزید تفصیلات کیلئے دیکھیں ) 👇 https://dailyislam.pk/?p=121065


*کالم: زنگار// کیا یوکرین نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا؟//محمد عامر خاکوانی* `ادارتی صفحہ روزنامہ اسلام` *Follow/Read/Like/Share* چار دن دن قبل یوکرین نے روس کے مختلف ائیربیسز پر شدیدترین حملہ کر کے نہ صرف روس جیسی بڑی قوت کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ دنیا بھر میں اس حملے اور اس کے دوران استعمال ہونے والی تکنیکس زیربحث لائی جا رہی ہیں۔ اسے گیم چینجز کہا جا رہا ہے۔ یہ سیکھنے کی بات ہے کہ ایک چھوٹا ملک اپنے سے کئی گنا بڑی فوجی قوت اور جدید ٹیکنالوجی رکھنے والے ملک کو کس طرح سرپرائز دے کر اسے شدید دھچکا پہنچا سکتا ہے۔ یوکرین کے اس آپریشن کو آپریشن سپائیڈرویب کہا گیا ہے۔ سپائیڈر ویب یعنی مکڑی کا جالا۔ اطلاعات کے مطابق یوکرائنی صدر زیلنسکی نے خود اس آپریشن کی نگرانی کی، تاہم اس پوری پلاننگ میں ڈیڑھ سال تک کا عرصہ لگا۔ یوکرین کی خفیہ ایجنسی ایس بی یو کے ذرائع نے بتایا کہ یوکرینی ڈرون حملے میں جن چار روسی فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اُس میں سے دو روسی فضائی اڈے یوکرین کی سرحد سے ہزاروں میل دور روس کے اندر واقع ہیں۔ بیلایا ارکتسک کا علاقہ سائبیریا میں واقع ہے جبکہ اولینیا روس کے انتہائی شمال مغرب میں مورمانسک کے علاقے میں واقع ہے۔ یہی اس پورے حملے کا سب سے اہم اور خطرناک پہلو ہے۔ یوکرین کے دارالحکومت کیف سے ڈھائی تین ہزار کلومیٹر دور روس کے بہت اندر کے علاقوں میں واقع ان ائیربیسز پر حملہ کس طرح ممکن ہوا۔ ڈرون کی اتنی ریچ نہیں ہوتی، یہ حملے یوکرائن کے اندر سے نہیں کئے گئے بلکہ روس کی سرزمین سے ہوئے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ ان ڈرونز کو لکڑی کے موبائل کیبنز میں چھپایا گیا تھا جن کی چھتیں آٹومیٹک ہوتی ہیں اور انھیں فاصلے سے کھولا جا سکتا ہے۔ یہ کیبنز اٹرکوں پر رکھے گئے تھے جنھیں مختلف طریقوں سے سمگل کر کے روس کے ان اندرونی علاقوں میں موجود فضائی اڈوں کے قریب پہنچایا گیا اور پھر مناسب وقت پر حملہ کیا گیا۔ بین الاقوامی میڈیا اور عسکری متن شائع کرنے والی دفاعی ویب سائٹس کے مطابق یہ پوری کارروائی نقل و حمل کے لحاظ سے انتہائی پیچیدہ تھی۔ یوکرائنی خفیہ ایجنسی ایس بی یو نے سب سے پہلے ایف پی وی ڈرونز روس میں سمگل کیے اور پھر لکڑی کے موبائل کیبنز منتقل کیے گئے۔ روسی سرزمین پر پہنچنے کے بعد یہ ڈرونز ان کیبنز کی چھتوں کے نیچے چھپائے گئے، جو سامان لے جانے والے ٹرکوں پر رکھے گئے تھے۔ مناسب وقت پر چھتیں کھولی گئیں اور ڈرونز ٹرکوں سے پرواز کر کے روسی بمبار طیاروں کو نشانہ بنانے نکل گئے۔ یوکرینی دفاعی تجزیہ کار سرہی کزان نے یوکرینی ٹی وی کو بتایا کہ دنیا کی کوئی خفیہ ایجنسی آج تک ایسا آپریشن نہیں کرسکی۔ (روس کے) یہ سٹریٹیجک بمبار طیارے یوکرین پر طویل فاصلے تک میزائل حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی مجموعی تعداد صرف 120 ہے جن میں سے ہم نے 40 کو نشانہ بنایا۔ یہ ایک ناقابلِ یقین تعداد ہے۔ یوکرائن نے ابتدا میں دعویٰ کیا کہ چالیس روسی بمبار طیارے تباہ ہوئے اور ان کا نقصان پانچ سے سات ارب ڈالر کاہوا۔ تاہم آزاد ذرائع کے مطابق ان دعوؤں میں کچھ مبالغہ ہے۔ بی بی سی رشیئن کی تحقیق کے مطابق یکم جون کو یوکرین کے ڈرون حملوں کے نتیجے میں روس کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے اور سٹریٹیجک ایئر فیلڈز پر موجود 11سے زیادہ طیارے تباہ ہو گئے یا انھیں نقصان پہنچا۔ ان حملوں میں جن روسی طیاروں کو نشانہ بنایا گیا ان میں Tu-95اور Tu-22M3جیسے سٹریٹیجک نیوکلیئر بمبار طیارے شامل تھے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق ان تباہ ہونے والے جہازوں میں میں پانچ یا چھ Tu-95MS، ممکنہ طور پر پانچ Tu-22M3اور ایک An-12 شامل تھا۔ یاد رہے کہ اگر کسی جہاز کو کم نقصان پہنچا ہو تب بھی وہ فوری طور پر مرمت کے بعد جنگ میں استعمال نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی ایسے بمبار طیارے کو واپس سروس میں نہیں لایا جا سکتا جسے نقصان پہنچا ہو کیونکہ طیاروں میں خرابی ایک حساس معاملہ ہے: مثال کے طور پر اگر کسی کار کو سڑک پر نقصان پہنچتا ہے تو اس میں موجود افراد کے زندہ بچنے کے امکانات ہوائی جہاز کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا شعبہ ہوا بازی میں (فوجی اور سول) خرابیوں کو زیادہ احتیاط سے دیکھا جاتا ہے اور ایسا کوئی بھی جہاز جنگ کے لیے تیار یونٹ میں نہیں رہ سکتا جسے تھوڑا سا بھی نقصان پہنچا ہو۔ Tu-22M3 اور Tu-95MS بہت مختلف بمبار طیارے ہیں۔ Tu-22M3کو سٹریٹجک بمبار نہیں سمجھا جاتا کیونکہ ان کی رینج 2500 کلو میٹر سے زیادہ نہیں۔ روسی ایوی ایشن میں یہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے بمبار طیاروں میں شامل ہوتا ہے اور اس کا اہم ہتھیار Kh-22 میزائل ہے۔ عالمی میڈیا کے مطابق یہ کافی خطرناک ہتھیار ہے لیکن یہ میزائل سوویت یونین میں تیار کیے گئے تھے اور اب ان کی پروڈکشن نہیں ہوتی۔ یہ طیارہ دوسرے ہتھیاروں کا استعمال کر سکتا ہے، جیسے کہ فضا سے پھینکے جانے والے بم لیکن فی الحال یہ K-22کو لانچ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ان میزائلوں کا ذخیرہ ختم ہونے پر Tu-22M3کیا کرے گا، یہ معلوم نہیں۔ Tu-95ایک سٹریٹجک بمبار طیارہ ہے جو شاید روس کا سب سے پرانا طیارہ ہے۔ یوکرین کے اس حملے کے کئی پہلو ہیں۔ اس نے روس جیسی بڑی جنگی قوت کو ایک بڑا سرپرائز دیا۔ روسی انٹیلی جنس مکمل طور پرناکام ہوئی۔ روسی سیٹلائٹ سسٹم مدد نہ دے سکا۔ روس کا مضبوط ترین اینٹی میزائل سسٹم بھی کام نہ آیا۔ روس کے ائیربیسز کے لیے کئے گئے حفاظتی انتظامات بھی ناکافی اور غیرموثر ثابت ہوئے۔ ایک اہم یورپی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ان حملوں نے ہوائی اڈوں پر سٹریٹیجک طیاروں کی تعیناتی میں سنگین کوتاہیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ یوکرین کے ڈرون پرواز کے دوران آزادانہ طور پر نقل و حرکت کرتے نظر آئے۔ وہ واضح طور پر کنٹرول کیے جا رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان ہوائی اڈوں کے علاقے میں کوئی الیکٹرانک جنگی نظام کام نہیں کر رہا تھا۔ ان حملوں کے دوران فضائی دفاعی نظام یا یہاں تک کہ چھوٹے ہتھیاروں سے فضائی اہداف پر فائرنگ کے بارے میں بھی کوئی خبر نہیں تھی۔ Tu-95MSکو بغیر کسی شیلٹر کے کھلے علاقے میں پارک کیا گیا تھا۔ سیٹلائٹ تصاویر کے مطابق Tu-22M3b، محفوظ علاقوں میں پارک تھے لیکن یہ حفاظت ناکافی تھی۔ ڈرون حملے سے روس کے نیوکلیئر ٹرائیڈ کو نقصان تو پہنچا لیکن یہ کوئی بہت بڑا نقصان بھی نہیں۔ ان حملوں سے روس کی جوہری طاقت کم نہیں ہو گی اور نہ ہی اس کی یوکرین پر میزائل فائر کرنے کے لیے باقی طیاروں کی صلاحیت پر فرق پڑے گا۔ تاہم روس کو اس طرح کے حملوں کے ممکنہ خطرے کے بارے میں اب کچھ کرنا پڑے گا اور اس کے لیے حفاظتی اقدامات کافی مہنگے ثابت ہو سکتے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا یوکرین کی انٹیلی جنس کے پاس اب بھی مستقبل میں ایسی کارروائیاں کرنے کے ذرائع موجود ہیں؟ اس لئے کہ یہ حملے پورے روس میں کیے جا سکتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ان حملوں کے اہداف صرف ہوائی اڈے ہوں۔ اس پورے معاملے سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ بہتر پلاننگ، آوٹ آف دا باکس سوچنے اور تخلیقی آئیڈیاز کی مدد سے ایک چھوٹا ملک بھی اپنے سے دس بیس گنا زیادہ بڑی جنگی طاقت کو سرپرائز دے سکتا، اسے دھچکا پہنچا سکتا۔ مئی میں پاکستان نے بھی اپنے سے بڑی بھارتی فضائیہ کو ایسا سرپرائز دے کر شدید زک پہنچایا تھا بلکہ وہ ایسی مفلوج ہوئی کہ اگلے دنوں گویا غائب ہی ہوگئی۔ اب یہ رائے مزید مستحکم ہوئی ہے کہ آئندہ جنگوں میں فضائیہ اور ڈرون کا کردار بہت اہم ہوگا۔ اب ائیربیسز کو کسی نہ کسی انداز سے نشانہ بنایا جاتا رہے گا اور ان کی حفاظت کے انتظامات بھی بہت زیادہ اپ گریڈ کرنے پڑیں گے۔ اگرچہ روس نے جوابی طور پر یوکرائن کو پوری قوت اور شدت سے نشانہ بنایا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس یوکرائنی حملے کے بعد روس جنگ مزید طویل کرے گا یا پھر وہ یوکرائنی پوٹینشل کو دیکھ کر درمیانہ راستہ اختیار کرتے ہوئے جنگ بندی کی طرف آئے گا۔ یہ سب سوالات اہم ہیں اور آنے والے کچھ عرصہ میں ان کے جواب ہمیں مل جائیں گے۔ https://dailyislam.pk/?p=121124

ایک سال میں حکومت کے قرضوں میں 8ہزار 848ارب کااضافہ اسلام آباد:وفاقی حکومت کے قرضے ملکی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ایک سال میں مرکزی حکومت کے قرضوں میں 8ہزار (مزید تفصیلات کیلئے دیکھیں) 👇 https://dailyislam.pk/?p=121142


حج 2025ء کے حوالے سے تمام اپ ڈیٹس روزنامہ اسلام کی ویب سائٹ پر ملاخطہ کریں!! 👇 https://dailyislam.pk/?cat=3463


یو ٹیوب کی آئی فون ڈیوائسز کیلئے گوگل ویڈیو شیئرنگ سپورٹ ختم https://dailyislam.pk/?p=121060 #dailyislamkarachi #Youtube #googlevideos