
Daily Islam
June 10, 2025 at 08:19 AM
*اداریہ: بھارت اور اسرائیل، دو دہشت گرد ریاستیں*
`ادارتی صفحہ روزنامہ اسلام`
*Follow/Read/Like/Share*
بھارت اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی یکسانیت پوری دنیا کے امن کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ دونوں جارح مزاج ریاستوں کے درمیان گہرے تعلقات بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ یہ دونوں ریاستیں جو بظاہر مختلف جغرافیائی اور ثقافتی پس منظر رکھتی ہیں، مسلمانوں کے خلاف جارحانہ پالیسیوں، انسانی حقوق کی پامالی اور مذہبی تعصب کے حوالے سے حیران کن مشترکہ طرز عمل رکھتی ہیں۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے حالیہ بیان میں بھارت کے ہندوتوا نظریے کو پورے خطے کے لیے ایک خطرناک عنصر قرار دیا ہے۔ دنیا بھر کے امن پسند انسانوں کو بھارت سے متعلق پاکستان کے موقف پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینا چاہیے جو کہ اسرائیل کی ہی مانند نسل کشی کے حربے اختیار کر چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق بھارت میں حالیہ تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی کے خطرات تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔
جس طرح اسرائیل کی صیہونی پالیسی کی بنیاد فلسطینیوں کو ان کی آبائی زمینوں سے بے دخل کرنا اور ان کے وجود کو مٹانا ہے، اسی طرح بھارت کی پالیسی بھی کشمیر میں اسی نوعیت کے ریاستی جبر پر مبنی ہے، جہاں کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے اور اب تو بھارت میں موجود مسلمانوں کی زندگیاں بھی خطرات سے دوچار ہو چکی ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں پر ہر طرح کی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں اور انھیں کچلنے کا ماحول تیار کر لیا گیا ہے۔ حیرت انگیز طورپر یہ دونوں ریاستیں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ ”دہشت گردی کا شکار” ہیں جبکہ ان کے مظالم روز بروز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف کئی دہائیوں سے عسکری کارروائیاں کر رہا ہے۔ دونوں ریاستوں کے درمیان یہ مماثلت واضح کرتی ہے کہ ان کی قیادت ایک مشترکہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس کا بنیاد ی مقصد مسلمانوں پر مکمل بالادستی اور ان کے وسائل پر تسلط ہے۔ یہ دونوں ریاستیں صرف دہشت گردی اور ظلم وجبر ہی میں یکساں نہیں بلکہ اطلاعاتی جنگ میں بھی ایک دوسرے کی ہمنوا ہیں۔ ایک عالمی نشریاتی ادارے میں شائع ہونے والی حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں آزادی صحافت کی صورت حال انتہائی تشویشناک ہے۔ جنگ مخالف رائے رکھنے والے دانش وروں کو پابند سلاسل کیا جارہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ حکومت طاقت کے بل بوتے پر ہر اختلافی آواز کو دبانا چاہتی ہے۔ یہی طرز عمل اسرائیل میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ جب بھی اس کے مظالم پر آواز اٹھائی جاتی ہے، اسرائیل اسے فوراً ”یہود دشمنی” کا نام دے کر رد کرتا ہے، تاکہ حقیقت کو چھپایا اور سچ کو دبایا جا سکے۔ دونوں ریاستیں اپنی ریاستی پالیسیوں کے دفاع کے لیے جھوٹی خبروں اور منظم پروپیگنڈا پر انحصار کرتی ہیں۔ بھارت میں کارپوریٹ میڈیا مکمل طور پر حکومت کے زیر اثر ہے اور اربوں روپے سرکاری تشہیر پر خرچ کیے جا رہے ہیں تاکہ عوام پر ایک مخصوص حکومتی موقف کو مسلط کیا جا سکے۔ واشنگٹن پوسٹ کی حالیہ رپورٹ نے بھی اس بات کو پوری طرح سے کھول کر رکھ دیا ہے کہ کس طرح بھارتی نیوز رومز نے پاکستان کے خلاف فرضی اور جھوٹی خبریں پھیلائیں، جس میں بغاوت اور حملے جیسے بے بنیاد دعوے شامل تھے، جو نہ صرف صحافت کا اخلاقی دیوالیہ پن ہے بلکہ قومی اخلاقیات کی بھی شکست ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جب ریاستی سرپرستی میں چلنے والے چینل جھوٹ بول کر جنگی جنون پھیلائیں اور ویڈیو گیمز کے مناظر کو خبری ویڈیوز بنا کر پیش کیا جائے تو اس سے صرف صحافت نہیں مرتی بلکہ عوام کا فہم بھی دفن ہوجاتا ہے۔ یہ طرز عمل خطے میں اشتعال انگیزی کو بڑھا کر خطرناک نتائج کو جنم دے سکتا ہے جس کی جانب پاکستان باربار توجہ دلا رہا ہے۔
اسرائیل نے خطے میں ایسی ہی چالوں کی مدد سے فتنہ و فساد کی آگ بھڑکا رکھی ہے۔ اب تو یورپ کی سڑکوں سے لے کر اس کے ایوانوں تک اسرائیل کے انسانی جذبات مشتعل ہوتے جا رہے ہیں۔ یورپی عوام اور دانشور طبقے کے درمیان اب یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کیا یورپ ہمیشہ امریکا کے تابع ہی رہے گا؟ یورپ میں رونما ہونے والی تبدیلی کے اثرات اس طرح بھی دیکھے جا سکتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 143ممالک نے فلسطین کے حق میں اور صرف 8نے اسرائیل کے حق میں ووٹ دیا۔ یورپ کے طرزفکر میں ہونے والی تبدیلی کی وجہ اسرائیل کے مظالم ہی ہیں۔ پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری عید الاضحی کے دن بھی جاری رہی، جس میں ایک ہی دن میں 100سے زائد فلسطینی شہید ہوئے اور امدادی کشتی ”مدلین” پر حملہ کر کے اسے قبضے میں لے لیا گیا جو کہ کھلی بدمعاشی کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی نمائندہ نے اس کارروائی کو غیرقانونی قرار دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس قسم کے بیانات سے اسرائیل کو کچھ فرق پڑتا ہے؟ دوسری طرف بھارت میں مسلمانوں کو مسلسل مذہبی بنیاد پر حملوں، عبادت گاہوں کی مسماری اور معاشرتی امتیاز کا سامنا ہے۔ مسلمانوں پر حملے اور مساجد کی توڑپھوڑ روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ یہ دونوں مثالیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ اسرائیل اور بھارت دونوں ہی مسلمانوں کے خلاف ایک منظم اور وسیع پیمانے پر جارحانہ پالیسیاں اپنائے ہوئے ہیں جن کے خلاف مسلم اُمہ کو اب بنیان مرصوص بن جانا چاہیے۔ قرآن کریم کی سورة المائدہ میں یہ بیان موجود ہے کہ مسلمانوں کے بدترین دشمن یہود اور مشرکین ہوں گے۔ موجودہ حالات میں یہ پیش گوئی بالکل واضح طور پر ظاہر ہورہی ہے۔ اسرائیل اور بھارت مسلمانوں کے خلاف منظم کارروائیاں کررہے ہیں۔ بھارت اسرائیل سے اسلحہ اور نگرانی کی ٹیکنالوجی حاصل کر رہا ہے، جو ظاہر ہے کہ پاکستان کے خلاف ہی استعمال ہوگی۔ یہ گٹھ جوڑ عالمی امن کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔
اِس صورت حال میں مسلم ممالک کے لیے خاموشی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور ترکیہ جیسے ممالک کو فوری اور مؤثر حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو مزید فعال بنانا ہوگا تاکہ بھارت اور اسرائیل کے مظالم کو عالمی فورمز پر اجاگر کیا جاسکے۔ پاکستان کو اپنی معیشت کو مضبوط بنانے اور دفاعی صلاحیت میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی سطح پر مؤثر کردار ادا کرسکے۔ ترکیہ کو فلسطینی کاز کی حمایت جاری رکھنی چاہیے۔ پاکستان اور ترکیہ کا کردار مسلم دنیا میں اس وقت فیصلہ کن ہوسکتا ہے۔ ترکیہ اور پاکستان کو دفاعی اور اقتصادی میدان میں تعاون بڑھانا چاہیے تاکہ ایک مضبوط مسلم بلاک وجود میں آسکے جو ان فتنہ پرور ریاستوں کے مقابلے میں ایک ٹھوس قوت بن سکے۔ یہ وقت محض بیانات دینے کا نہیں بلکہ عملی اقدامات اٹھانے کا ہے تاکہ ظلم کو روکا جا سکے اور مسلمانوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔