Daily Islam
Daily Islam
June 10, 2025 at 08:23 AM
*کالم:سوزِ دروں// حکمران کی اجازت کے بغیر جہاد نہیں ہو سکتا//عبدالمنعم فائز* `ادارتی صفحہ روزنامہ اسلام` *Follow/Read/Like/Share* افغانستان میں پولیس کے نگران مولانا سعید اللہ سعید نے پولیس ہیڈ کوارٹر میں بیان کرتے ہوئے وہ بیان دیا ہے، جس پر ایک عرصے سے پاکستان کے علمائے کرام بات کر رہے تھے۔ انہوں نے پہلی بار افغان حکومت کی طرف سے یہ بات کہی ہے کہ امیر کی اجازت کے بغیر کسی گروہ کو کہیں حملے کرنے یا جنگ چھیڑنے کی اجازت نہیں۔ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے سمجھاتے ہوئے کہا کہ جس طرح نماز، روزہ، حج، زکو ہم پر فرض ہوتی ہے تو ہم پہلے اس کے احکام سیکھتے ہیں، پھر ان فرائض کو سرانجام دیتے ہیں، بالکل اسی طرح جہاد بھی ہے۔ جہاد کے احکام کو سیکھے بغیر آپ جہاد نہیں کر سکتے۔ جہاد کی اہم شرط یہ ہے کہ امیر کی اجازت کے بغیر آپ کہیں حملہ نہیں کر سکتے۔ مختلف گروہوں میں شامل ہوکر بیرون ملک لڑنے والے حقیقی مجاہد نہیں ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق افغان حکومت اس سے قبل دو بار ایسا بیان پہلے بھی دے چکی ہے۔ 2023میں افغان وزیر دفاعی ملا محمد یعقوب مجاہد نے کہا تھا کہ امیر المومنین ملا ہبت اللہ نے افغانستان سے باہر لڑنے والوں کو روک دیا ہے۔ افغانستان سے باہر لڑائی، شرعی جہاد نہیں ہے۔ اسی طرح کا بیان پشاور میں افغان کونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر بھی دے چکے ہیں لیکن اس موقع پر افغان قیاد ت کا یہ بیان مایوسی میں امید کی کرن بن کر سامنے آیا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے ذمہ دار خوارج یعنی ٹی ٹی پی وغیرہ کا موقف رہا ہے کہ ”ہم تو پاکستان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے، نہ ہی ہم یہاں کے حکمرانوں کو اپنا حکمران مانتے ہیں، بلکہ ہماری بیعت تو افغان امیر ملا ہبت اللہ سے ہے، اس لیے قرآن و حدیث میں امیر کی اطاعت کا جو حکم دیا گیا ہے، وہ ہم ملا ہبت اللہ کی بات مان کر پورا کرتے ہیں”۔ اب افغان حکومت کی طرف سے پہلی بار بہت واضح انداز میں منع کر دیا گیا ہے اور ان کا وہ آخری عذر بھی ختم کر دیا گیا ہے، جس کی بنیاد پر وہ کہتے تھے کہ ہم پاکستان میں کارروائیاں اپنے امیر کی اجازت سے کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جہاد کے لیے امیر کا ہونا ناگزیر ہے، امام و امیر کی سربراہی میں ہی جہاد کیا جائے گا۔ امیر ہی فیصلہ کرے گا کہ کب جنگ لڑنی ہے، کہاں حملہ کرنا ہے؟ کب رکنا ہے اور کب آگے بڑھنا ہے؟ قرآن میں مجید میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اللہ، اس کے رسول اور اپنے امیر کی اطاعت کرو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہر کام میں امیر کی اطاعت ضروری ہے: قال اللہ تعالیٰ: یاایہا الذِین امنوا اطِیعوا اللہ واطِیعوا الرسول واولِی الامرِ منکم۔ سورہ نور سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام جب تک آپ سے اجازت نہ لے لیتے وہ جہاد اور جماعت جیسے کسی بھی اہم کام کو سرانجام نہ دیتے۔ قال اللہ تعالیٰ: اِنما المومِنون الذِین امنوا بِاللہِ ورسولِہِ واذا کانوا معہ علی امر جامِع لم یذہبوا حتی یستاذِنوہ۔ امن اور خوف کی صورت میں امیر، امام یا خلیفہ کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب ذرا سی غلطی پوری قوم یا ملک کو تباہی سے دوچار کر سکتی ہے۔ اس لیے اس موقع پر امیر کی بات ماننے کا خصوصی حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: واِذا جائہم امر مِن الامنِ اوِا لخوفِ اذاعوا بِہِ ولو ردوہ اِلی الرسولِ والیٰ اولوالامرِ مِنہم لعلِمہ الذِین یستنبِطونہ مِنہم۔ امیر جب جہاد کے لیے بلائے تو اس وقت حکم ماننا ضروری ہے۔ اس بات پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہ بھی فرمائی ہے کہ جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو ضروری ہے کہ اللہ کے رستے میں نکلو۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جاتا ہے تو تم کسل مندی دکھانا شروع کر دیتے ہو؟ اس آیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ امام اور امیر ہی ہے جو جہاد کی طرف بلائے گا، ریاست کے متعین کردہ نمائندے کے علاوہ کسی بھی شخص کو ذاتی حیثیت میں اس کی اجازت نہیں کہ وہ اپنے طور پر جہاد کا اعلان کرے۔ یاایہا الذِین امنوا ما لکم ِاذا قِیل لکم انفِروا فِی سبِیلِ اللہِ الثاقلتم ِالی الارضِ۔ صحیح بخاری کی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ جہاد و قتال امام ہی کی سرپرستی میں ہوگا۔ امام چاہے فاسق و فاجر ہو تب بھی جہاد و قتال اسی کی سربراہی میں ہی ہوگا۔ کسی بھی شخص کو انفرادی طور پر اس کی اجازت نہیں ہوگی کہ اپنے طور پر جہاد شروع یا ختم کر دے۔ نفیر عام، فقہ اسلامی کی بہت معروف اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب امیر و امام یہ اعلان کردے کہ اب ہر شخص جنگ کے لیے نکلے یا اپنے وطن کے دفاع کے لیے نکلے تو پھر ہر ہر شخص پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ جہاد کے لیے روانہ ہو۔ نفیر عام کا اعلان ہونے سے پہلے تو جہاد کے لیے نکلنا صرف افواج کے لیے ضروری ہوتا ہے، اس وقت تک جہاد فرض کفایہ ہوتا ہے، مگر نفیر عام کا اعلان ہونے کے بعد جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نفیر عام کا اعلان کون کرے گا؟ کیا کوئی بھی شخص نفیر عام کا اعلان کر دے گا یا یہ بھی ریاست ہی کے اختیار میں ہوگا؟ نصوص شرعیہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعلان ریاست یا ریاست کے مقرر کردہ نمائندہ کی طرف سے ہی ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم سے نفیر عام کا مطالبہ کیا جائے تو تم پر لازم ہے کہ نکل کھڑے ہو۔ اس سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ اپنے طور پر جہاد کی فرضیت کا حکم لگا کر نکلنے کی گنجائش نہیں، جب تک ریاست کا حکمران یا بڑے یہ فیصلہ نہیں کرلیتے کہ اب نکلنا ہے، تب تک نکلنے کی گنجائش نہیں۔ عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: (لا ہجرة بعد الفتح ولکن جہاد ونیة، وذا استنفرتم فانفروا) حدیث میں اس مجاہد کے جہاد کو قابل قبول مانا گیا ہے جو اللہ کی رضا کے لیے، امام کی اطاعت کرتے ہوئے اور فساد و فتنہ سے بچتے ہوئے لڑے۔ جو امام یا حکمران کی نافرمانی کرے تو ایسے شخص کے جہاد کو فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے: معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاد دو طرح کے ہیں، ایک جہاد وہ ہے جس میں جہاد کرنے والا اللہ کی رضا و خوشنودی کا طالب ہو، امیر کی اطاعت کرے، اپنی پسندیدہ چیز اللہ کے راستے میں خرچ کرے، اپنے شریک کو سہولت پہنچائے اور فساد سے بچے تو اس کا سونا و جاگنا سب کچھ باعث اجر ہوگا۔ دوسرا جہاد وہ ہے جس میں جہاد کرنے والا ریاکاری اور شہرت کے لیے جہاد کرے، امیر کی نافرمانی کرے اور زمین میں فساد پھیلائے تو وہ برابر سرابر نہیں لوٹے گا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے کہ جہاد امیر کے ساتھ اور معیت میں ہی ہوگا، امیر کے بغیر جہاد نہیں ہوگا۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک حج، جہاد اور اجتماعات امیروں کی سربراہی میں ہی ہوں گے، امیر چاہے نیک ہوں یا بد۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں: جہاد کا فرض امیر و حکمران ہی اس کی ذمہ داری اٹھائیں گے۔ امام ابن قدامہ حنبلی کو فقہ امام احمد بن حنبل میں بہت نمایاں مقام حاصل ہے، وہ بھی کہتے ہیں کہ جہاد کا فیصلہ امام ہی کرے گا، اس کی اطاعت ضروری ہے۔ قال ابن قدام: امر الجہاد موول للامام واجتہادہ ویلزم الرعیہ طاعتہ فیما یراہ من ذل۔ فقہ مالکی میں بھی اسی پر اتفاق ہے کہ جہاد کا اعلان امیر ہی کرے گا۔ حکمران کے اعلان کو ہی مانا جائے گا۔ امام خطاب مالکی نے اس پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ فقہ حنفی میں بھی یہی حکم ہے۔ امام کیا اجازت کے بغیر جہاد نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق کتاب اعلاء السنن میں لکھتے ہیں: ترجمہ: ”جہاد کے لیے امیر متعین کرنے کی شرط اور جب مسلمانوں کا کوئی امیر نہ ہو تو پھر الگ تھلگ ہوجانے کا حکم: اس حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے کہ جہاد کے لیے امیر متعین کرنا شرط ہے اور اس کے بغیر جہاد درست نہیں ہوگا، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہر امیر کے ساتھ مل کر جہاد کرنا تم پر لازم ہے الخ۔ جب مسلمانوں کا کوئی امیر نہ ہو تو پھر جہاد بھی نہیں ہوگا۔ ہاں مسلمانوں پر لازم ہے کہ امیر تلاش کریں، جہاد کے امیر کے بغیر درست نہ ہونے کی دلیل بخاری شریف میں منقول حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث ہے جس میں مسلمانوں کے امیر کی بات ماننے اور ہر حال میں مسلمانوں کی جماعت سے جڑے رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔” یہ ایک بہت واضح بات ہے کہ جہاد کا اعلان ریاست کی طرف سے مقرر کردہ امیر، سلطان، خلیفہ یا آرمی چیف ہی کرے گا، کیونکہ جہاد کے نتیجے میں پوری قوم کو اس کا حصہ بننا پڑے گا، کامیابی یا ناکامی کی صورت میں تمام قوم کو ہی اس کے فوائد یا نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کسی بھی شہری کو یہاں تک کہ کسی عام فوجی یا فوج کے نچلی سطح کے افسر کو بھی اس کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ اپنے طو رپر جنگ چھیڑ دے، دشمن پر حملہ کر دے یا جنگ شروع یا ختم کرنے کا اعلان کردے۔ کسی ریاست کا سربراہ ہی یہ سب فیصلے کرے گا۔ بہرحال افغانستان کی طالبان عبوری حکومت کی طرف سے اس بات کا اعتراف ایک امید کی کرن ہے اور یہ پاکستان اور افغانستان کے بہت سے مسائل کا حل ہے۔ دونوں ملکوں کے اتحاد و اتفاق کی کنجی بھی ہے۔ شریعت کا حکم بھی یہی ہے اور عالمی دساتیر بھی اسی کی تائید کرتے ہیں۔ https://dailyislam.pk/?p=121459

Comments