
Sheikh Maqbool Ahmad Salafi Hafizahullah
June 12, 2025 at 03:10 PM
*خواتین کی نماز اور ان کا لباس*
🖋️شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
❪جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ/سعودی عرب❫
عام عورتوں کو نماز پڑھنے کے سلسلے میں لباس سے متعلق مختلف قسم کے ترددکا سامنا رہتا ہے بنابریں اس تحریر میں اختصارکے ساتھ اس مسئلہ کی وضاحت کی جارہی ہے کہ ایک عورت کس قسم کا لباس لگاکر نماز ادا کرے گی ۔
لباس سے متعلق بعض فرق:
اس سے پہلے کہ خواتین کی نماز کے لباس کی وضاحت کی جائے ، لباس سے متعلق بعض اہم فرق کو پہلے بیان کیا جاتا ہے تاکہ بعض متفرق مسائل کااصل موضوع سے فرق واضح رہے۔
پہلا مسئلہ : مردوں اور عورتوں کی نماز کے لباس میں فرق ہے ، نیزمرد ایک ساتر لباس میں بھی نماز پڑھ سکتا ہے ۔
اس بات کی دلیل یہ ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يُصَلِّي أحَدُكُمْ في الثَّوْبِ الواحِدِ ليسَ علَى عاتِقَيْهِ منه شيءٌ(صحيح مسلم:516)
ترجمہ:تم میں سے کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز اس طرح نہ پڑھے کہ اس کے کندھوں پر اس کا کوئی حصہ نہ ہو۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس ایک ہی کپڑا ہو تو اس میں نماز پڑھ سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ اس کپڑے سےنمازی اپنے ستر اور دونوں کندھوں کو ڈھک لے یعنی ستر کے ساتھ مردوں کے لئے کندھا بھی ڈھکنا ضروری ہے۔ نبی ﷺ سے بھی ایک کپڑے میں نماز پڑھنا ثابت ہے اور جب ایک کپڑا چادر کی شکل میں ہو تو اس کے استعمال کی کیفیت نبی ﷺ سے اس طرح منقول ہے۔
حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
رَأَيْتُ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ يُصَلِّي في ثَوْبٍ واحِدٍ مُلْتَحِفًا مُخَالِفًا بيْنَ طَرَفَيْهِ. زَادَ عِيسَى بنُ حَمَّادٍ: في رِوَايَتِهِ قالَ: علَى مَنْكِبَيْهِ.(صحيح مسلم:517)
ترجمہ:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا: آپ نے اس کو لپیٹا ہوا تھا اور اس کے دونوں کناروں کو مخالف سمت میں ڈالا ہوا تھا۔ عیسیٰ بن حماد نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا: اپنے کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے۔
حدیث سے واضح ہے کہ دونوں بغل کے نیچے سے گزار کر دائیں کنارا بائیں کندھے پر اور بائیں کنارا دائیں کندھے پر رکھ لے یا اس میں گردن کے پاس کانٹھ لگالے جیساکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ میں نے ستر اصحاب صفہ کو دیکھا کہ ان میں کوئی ایسا نہ تھا جس کے پاس چادر ہو۔ فقط تہہ بند ہوتا، یا رات کو اوڑھنے کا کپڑا جنھیں یہ لوگ اپنی گردنوں سے باندھ لیتے۔ (صحیح البخاری:442)
اور ایک کپڑا قمیص کی شکل میں سلا ہوا یا بٹن لگا ہو تو نمازی اسے کرتا کی طرح پہن لے جیساکہ سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
قلتُ يا رسولَ اللَّهِ إنِّي رجلٌ أصيدُ أفأصلِّي في القميصِ الواحدِ قالَ نعم وازررهُ ولَو بشوكةٍ(صحيح أبي داود:632)
ترجمہ: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں شکاری ہوں، کیا میں ایک کُرتے (قمیض) میں نماز پڑھ سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور اسے ٹانک لیا کرو (بٹن لگا لیا کرو)، خواہ کسی کانٹے سے ہی سہی۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا:
قَامَ رَجُلٌ إلى النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنِ الصَّلَاةِ في الثَّوْبِ الوَاحِدِ، فَقَالَ: أوَكُلُّكُمْ يَجِدُ ثَوْبَيْنِ ثُمَّ سَأَلَ رَجُلٌ عُمَرَ، فَقَالَ: إذَا وسَّعَ اللَّهُ فأوْسِعُوا، جَمع رَجُلٌ عليه ثِيَابَهُ، صَلَّى رَجُلٌ في إزَارٍ ورِدَاءٍ، في إزَارٍ، وقَمِيصٍ في إزَارٍ وقَبَاءٍ، في سَرَاوِيلَ ورِدَاءٍ، في سَرَاوِيلَ وقَمِيصٍ، في سَرَاوِيلَ وقَبَاءٍ، في تُبَّانٍ وقَبَاءٍ، في تُبَّانٍ وقَمِيصٍ، قَالَ: وأَحْسِبُهُ قَالَ: في تُبَّانٍ ورِدَاءٍ.(صحيح البخاري:365)
ترجمہ: ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے صرف ایک کپڑا پہن کر نماز پڑھنے کے بارے میں سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم سب ہی لوگوں کے پاس دو کپڑے ہو سکتے ہیں؟ پھر (یہی مسئلہ) عمر رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا تو انہوں نے کہا جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں فراغت دی ہے تو تم بھی فراغت کے ساتھ رہو۔ آدمی کو چاہیے کہ نماز میں اپنے کپڑے اکٹھا کر لے، کوئی آدمی تہبند اور چادر میں نماز پڑھے، کوئی تہبند اور قمیص، کوئی تہبند اور قباء میں، کوئی پاجامہ اور چادر میں، کوئی پاجامہ اور قمیص میں، کوئی پاجامہ اور قباء میں، کوئی جانگیا اور قباء میں، کوئی جانگیا اور قمیص میں نماز پڑھے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے یاد آتا ہے کہ آپ نے یہ بھی کہا کہ کوئی جانگیا اور چادر میں نماز پڑھے۔
اس حدیث سے پوری طرح واضح ہے کہ لباس کی تنگی ہو تو ایک لباس میں بھی نماز جائز ہے بشرطیکہ ساتر ہو اور لباس کی تنگی نہ ہو تو کم ازکم دو کپڑوں میں نماز ادا کرے ۔ ایک کپڑا بطور قمیص اور دوسرا بطور تہ بند وازار جیساکہ عمر رضی اللہ عنہ نے جسم کے اوپری اور نچلے حصے کے لئے دو الگ الگ کپڑوں کا ذکر کیا ہے تاکہ نیچے پیرتک اور اوپر کندھا تک ڈھک جائے۔
دوسرا مسئلہ : عورت کی نماز کا لباس اور عام حالات میں پہنے جانے والے لباس میں فرق ہے یعنی جس لباس میں عورت کا گھر میں رہنا جائز ہےوہ الگ لباس ہے اور نماز کا لباس الگ ہے، عورت کے ان دونوں لباس میں فرق ہے ۔مردوں کے سلسلے میں بھی عام لباس اور ان کی نماز کا لباس مختلف ہے جیسے مرد عام حالات میں کندھا کھول سکتا ہے مگر نماز میں اسے ڈھک کرنماز پڑھنا ہے ۔ عورت اپنے گھر میں محارم کے سامنے سر اور بال کھول سکتی ہے مگر نماز میں سراور بال ڈھکنا ضروری ہے ، اسی طرح عورت نماز میں چہرہ کھول سکتی ہے مگریہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ عام حالات میں یا اجنبی مردوں کے پاس بھی چہرہ کھول سکتی ہے۔
تیسرا مسئلہ : عورت اگر گھر میں نماز پڑھتی ہے تو چہرہ کھول کرنماز پڑھ سکتی ہے لیکن جب وہ مسجد جائے گی تو اس کا لباس پھر وہ ہوگا جو گھر سے نکلنے والا لباس عورتوں کو بتایا گیا ہے یعنی اپنے آپ کوچہرہ سمیت مکمل طورپر ڈھک کرگھر سے نکلنا ہے کیونکہ نبی ﷺ نے عورت کو سراپا پردہ کہا ہے۔
عورت اور لباس:
مذکورہ بالا چند فرق کو نظر میں رکھنے کے بعد اب عورتوں کا عمومی لباس دیکھتے ہیں ۔ پتہ لگاتےہیں کہ عہد رسالت میں خواتین کے استعمال کا عام لباس کیا تھا، وہ گھر میں کیا پہنتی تھیں اور گھرسے نکلتے وقت کیا پہنتی تھی تاکہ اس بات سے نماز کے لباس کو سمجھنے میں کچھ تعاون مل جائے۔
گھرکی خواتین گھر میں عام طور سےبیک وقت دوکپڑے استعمال کرتیں ، ایک کپڑاقمیص ہوتاجس سے پورے بدن کو ڈھکا جاتا ہے اور دوسرا کپڑا خمار(دوپٹہ) ہوتا جس سے سرخصوصاسینے کو ڈھکا جاتا ۔ اس سلسلے میں دو احادیث پیش کرتا ہوں ۔
پہلی حدیث: صحیح بخاری میں حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہا کی والدہ کے اسلام لانے کا قصہ مذکور ہے اس قصہ کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے پاس مشرکہ ماں کی شکایت لے کر گئے اور ان کے حق میں آپ سے دعا کی درخواست کی توآپ نے ان کی ماں کے لئےہدایت کی دعا کی پھرابوہریرہ اپنے گھرواپس آتے ہیں تو گھرکا دروازہ بند تھا، والدہ نے بیٹے کے قدموں کی آہٹ سن کرکہا رک جاؤ، ماں غسل کررہی تھی ، ابوہریرہ اپنی والدہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
فَاغْتَسَلَتْ وَلَبِسَتْ دِرْعَهَا، وَعَجِلَتْ عن خِمَارِهَا، فَفَتَحَتِ البَابَ، ثُمَّ قالَتْ: يا أَبَا هُرَيْرَةَ ، أَشْهَدُ أَنْ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ(صحيح مسلم:2491)
ترجمہ:میری ماں نے غسل کیا اور اپنا کرتہ پہن کر جلدی سے اوڑھنی اوڑھی، پھر دروازہ کھولا اور بولی کہ اے ابوہریرہ! ”میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
اس حدیث میں درع اور خمار کا ذکر ہے یعنی درع قمیص کو کہتے ہیں اور خمار دوپٹے کو ، عورتوں میں یہ عام رواج کا کپڑا تھا۔
دوسری حدیث: عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قالَتْ: يَرْحَمُ اللَّهُ نِسَاءَ المُهَاجِرَاتِ الأُوَلَ؛ لَمَّا أنْزَلَ اللَّهُ: {وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ} [النور: 31]، شَقَّقْنَ مُرُوطَهُنَّ فَاخْتَمَرْنَ بهَا.( صحيح البخاري:4758)
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ اللہ ان عورتوں پر رحم کرے جنہوں نے پہلی ہجرت کی تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے آیت «وليضربن بخمرهن على جيوبهن» ”اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں۔“ (تاکہ سینہ اور گلا وغیرہ نہ نظر آئے) نازل کی، تو انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر ان کے دوپٹے بنا لئے۔
حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے عورتوں میں ایک لباس ہوا کرتا مگر جب پردہ کا حکم نازل ہوا تو عورتوں نے اس ایک کپڑے کو پھاڑ کر دوپٹہ بنا لیا تاکہ سر، گردن، سینہ اور گرینان وغیرہ ڈھک سکے ۔
جب عورتیں گھر سے باہر نکلتیں تو عام طور سے جلباب کا استعمال کرتیں ، جلباب ایک بڑی چادر کو کہتے ہیں جو سرتا پیرڈھک دیتا ہے۔ عید کی نماز سے متعلق ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺنے انہیں عورتوں کو عیدگاہ لے کا نکلنے کا حکم دیا تھا، اس حدیث میں ہے۔
قالتِ امْرَأَةٌ: يا رَسولَ اللَّهِ إحْدَانَا ليسَ لَهَا جِلْبَابٌ؟ قالَ: لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِن جِلْبَابِهَا(صحيح البخاري:351)
ترجمہ: ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ! ہم میں بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے پاس (پردہ کرنے کے لیے) چادر(جلباب) نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی ساتھی عورت اپنی چادر (جلباب)کا ایک حصہ اسے اڑھا دے۔
گویا یہ گھر نے نکلنے کا عام رواج تھا کہ عورتیں بڑی چادر لگاکر اپنے گھروں سے باہر نکلتی تھی بلکہ بعض دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے گھر سے نکلتے وقت عورتیں برقع یا نقاب اور دستانہ بھی لگاتی تھیں اسی لئے نبی ﷺ نے عورتوں کو احرام میں نقاب اور دستانہ لگانے سے منع فرمایا ہے۔
ولَا تَنْتَقِبِ المَرْأَةُ المُحْرِمَةُ، ولَا تَلْبَسِ القُفَّازَيْنِ.(صحيح البخاري:1838)
ترجمہ: اوراحرام کی حالت میں عورتیں منہ پر نقاب نہ ڈالیں اور دستانے بھی نہ پہنیں۔
گھرسے نکلتے وقت عورتیں جہاں چہرہ اور ہاتھ سمیت پورا جسم ڈھک کر نکلتی تھیں، وہیں ان کے لباس کا دامن اس قدر طویل ہوتا ہے کہ پیر بھی چھپ جاتا بلکہ کپڑا زمین سے گھسٹا ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں :
رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ فِي الذَّيْلِ شِبْرًا ثُمَّ اسْتَزَدْنَهُ فَزَادَهُنَّ شِبْرًا فَكُنَّ يُرْسِلْنَ إِلَيْنَا فَنَذْرَعُ لَهُنَّ ذِرَاعًا(ابوداؤد:4119، صححہ البانی)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امہات المؤمنین (رضی اللہ عنہن) کو ایک بالشت دامن لٹکانے کی رخصت دی، تو انہوں نے اس سے زیادہ کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے انہیں مزید ایک بالشت کی رخصت دے دی چنانچہ امہات المؤمنین ہمارے پاس کپڑے بھیجتیں تو ہم انہیں ایک ہاتھ ناپ دیا کرتے تھے۔
عورت اور دوپٹہ :
چونکہ عورت سراپا پردہ ہے ، اسے ہمیشہ کپڑے کا دھیان رکھنا چاہئے اور گھر میں ہوتے ہوئے بھی صحیح طورپر پردہ کرنا چاہئے اور گھر سے نکلتے وقت عہدرسالت کی خواتین کی طرح باپردہ نکلنا چاہئے ۔ آج کل دیکھنے کو ملتا ہے کہ عورتیں گھرمیں باریک یا چھوٹا لباس لگاتی ہیں جس سے پردہ نہیں ہوتا اور گھر میں دوپٹہ نہیں لگاتیں ۔ سوچتی ہیں کہ گھر میں بیٹا /باپ/بھائی ہی تو ہے ۔آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ عورت محارم کے سامنے سر، بال گردن اور ہاتھ وپیرکھلا رکھ سکتی ہے تاہم گھر میں بھی اپنے محارم کے سامنے دوپٹے کا استعمال ضروری ہے تاکہ سینہ اور گریبان کو صحیح سے چھپاسکے ۔ اور اسی طرح محارم کے سامنے ایسے باریک یا چست یا چھوٹے کپڑے بھی نہیں لگاسکتی ہے جو محارم سے چھپانے والے ستر نہ چھپ سکےاور غیرمحرم وہاں ہو تب چہرہ بھی ڈھک کر رکھنا ہے۔
المہم عورت گھر میں بھی دوپٹہ کا استعمال کرے گی اور اپنے سینہ وگریبان ڈھک کررکھے گی ۔ اگرگھر میں صرف شوہریا عورت اکیلی ہوتو بغیر دوپٹہ کے بھی رہ سکتی ہے کیونکہ عورت کا اپنے شوہر سے کوئی پردہ نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ دوپٹہ مومن عورت کی شان ہے یہی وجہ ہے کہ ہےکہ جنتی عورت بھی دوپٹہ استعمال کرے گی ، سبحان اللہ ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ولو أنَّ امْرَأَةً مِن نِسَاءِ أهْلِ الجَنَّةِ اطَّلَعَتْ إلى الأرْضِ لَأَضَاءَتْ ما بيْنَهُمَا، ولَمَلَأَتْ ما بيْنَهُما رِيحًا، ولَنَصِيفُهَا -يَعْنِي الخِمَارَ- خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وما فِيهَا(صحيح البخاري:6567)
ترجمہ:اور اگر جنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت روئے زمین کی طرف جھانک کر دیکھ لے تو آسمان سے لے کر زمین تک منور کر دے اور ان تمام کو خوشبو سے بھر دے اور اس کا دوپٹہ «دنيا وما فيها).» سے بڑھ کر ہے۔
اس لئے مسلم بہنوں دوپٹہ ہرحال میں ساتھ رکھو بھلے گھر میں ہی رہواور جب گھر سے باہر نکلو تو جس طرح صحابیات پورے پردہ میں گھر سے نکلتیں اسی طرح گھر سے نکلا کروخواہ نماز کے لئے کیوں نہ نکلو۔
بالغہ عورت کی نماز اور دوپٹہ:
عورت کے لئے دوپٹہ شان بھی ہے اور نماز کے لئے ضروری حصہ بھی ہے ۔ جب عورت گھر میں نماز پڑھے گی تو قمیص کے ساتھ ہرحال میں دوپٹہ کا استعمال کرے گی اور دوپٹہ بھی چھوٹا یا باریک نہ ہوبلکہ سر کے پورے حصہ کو چھپاتا ہوں یعنی نماز پڑھنے والی عورت دوپٹہ کے ساتھ سر، اس کے بال، کان، گردن ، سینہ اور گریبان ڈھکے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : لا يقبَلُ اللَّهُ صَلاةَ حائضٍ إلَّا بخِمارٍ(صحيح أبي داود:641)
اللہ تعالی حائضہ یعنی (بالغ عورت) کی نماز دوپٹہ کے بغیر قبول نہیں فرماتا۔
عورت کی نماز ایک لباس میں:
اسلام میں مجبوری کی گنجائش ہے اس کا لحاظ کرتے ہوئے کسی عورت کے پاس صرف ایک کپڑا ہو جو سر سے پیر تک ڈھک دیتا ہوں تومجبوری میں عورت ایک کپڑا میں بھی نماز ادا کرسکتی ہے جیسے اوپر مردوں کے تعلق سے آپ نے پڑھا ہے کہ مردبھی مجبوری میں ایک کپڑا میں نماز ادا کرسکتا ہے تاہم ضروری ہے کہ کندھا ڈھکا ہواہو۔
عورتوں کے ایک لباس میں نماز ہوجانے سے متعلق صحیح بخاری میں کتاب الصلاۃ کے تحت امام بخاری نے ایک باب باندھا ہے۔ "بَابٌ في كَمْ تُصَلِّي الْمَرْأَةُ فِي الثِّيَابِ" یعنی باب: عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھے؟ اس باب کے تحت پہلے امام بخاری ؒ نے عکرمہ کا قول ذکر ہے۔
وقال عكرمة: لو وارت جسدها في ثوب لاجزته.(اور عکرمہ نے کہا کہ اگر عورت اپنا سارا جسم ایک ہی کپڑے سے ڈھانپ لے تو بھی نماز درست ہے)۔
امام بخاری یہ قول ذکر کرکے بتانا چاہتے ہیں کہ عورت ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھ سکتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے جسم کو پوری طرح ڈھک لے ۔ اس کے بعد حدیث ذکر کرتے ہیں ۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں:
لقَدْ كانَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يُصَلِّي الفَجْرَ، فَيَشْهَدُ معهُ نِسَاءٌ مِنَ المُؤْمِنَاتِ مُتَلَفِّعَاتٍ في مُرُوطِهِنَّ، ثُمَّ يَرْجِعْنَ إلى بُيُوتِهِنَّ ما يَعْرِفُهُنَّ أحَدٌ.(صحيح البخاري:372)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں کئی مسلمان عورتیں اپنی چادریں اوڑھے ہوئے شریک نماز ہوتیں، پھر اپنے گھروں کو واپس چلی جاتی تھیں، اس وقت انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔
اس حدیث اور باب میں مناسبت یہ ہے کہ اس میں عورت کے ایک چادر(مروط) کا ذکر ہے ۔ مروط ، مرط کی جمع ہے، اونی اور ریشم وغیرہ سے بناہوا ایسا کپڑا جسے خاص طور پر عورتیں بطور تہ بند استعمال کرتی ہیں۔ اور یہاں پر عورتوں کے لئے بظاہر ایک ہی چادر کا ذکر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں ایک کپڑے میں نماز ادا کرتی تھیں ، یہی باب سے مناسبت ہے۔ تھوڑا غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ نزول آیت حجاب کے سلسلے میں اوپر جو حدیث گزری ہے وہاں بھی مروط کا ذکر ہے ، جب پردہ کا حکم ہوا تو اسی مروط کو عورتوں نے چاک کرکے اوڑھنی بنالیں۔ کوئی یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ مروط کے ذکر سے لازم نہیں آتا کہ عورتیں ایک ہی کپڑے میں نماز کے لئے جاتی تھیں یعنی زائد کپڑے کا ذکر نہ ہونا ایک ہی کپڑے ہونے کی دلیل نہیں ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس زمانے میں کپڑے کی تنگی تو تھی اور اس میں مروط کا ذکر ہے جو لحاف و بسترجیسا بڑا پردہ ہوتا ہے ، اس میں عورت اچھی طرح پردہ کرسکتی ہے لہذا ظاہری طور پر ایک ہی لباس معلوم ہوتا ہے پھر جب آیت حجاب نازل ہوئی تو مروط کو پھاڑ کر عورتوں نے سب سے پہلے دوپٹہ بنایا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر عورت اچھی طرح بدن ڈھک لیتی ہے تو ایک کپڑے میں بھی وہ نماز ادا کرسکتی ہے، یہ انتہائی مجبوری کی بات ہے۔
عورت کی نماز دو لباس میں :
ابھی میں نے بتایا کہ عورت ایک بڑے کپڑے میں مکمل جسم ڈھک کر نماز ادا کرسکتی ہے ، یہ انتہائی مجبوری کا معاملہ ہے اور بظاہر مروط کے لفظ سے ایک کپڑے والی غیرصریح حدیث آیت حجاب کے نزول سے پہلے کی معلوم ہوتی ہے اور جب حجاب کا حکم ہوا تو سبھی عورتوں نے دوپٹہ بنالئے ، یہی وجہ ہے کہ بالغہ عورت کو نماز کے لئے دوپٹہ لازم قرار دیا گیا ہے یعنی عورت نماز پڑھنے کے لئے کم ازکم دو لباس استعمال کرے گی۔ ایک قمیص جو کندھے سے لے کر پیر تک پورے بدن کو ڈھک دے اور ایک دوپٹہ جس سے سر، بال، کان، گردن ، سینہ اور گریبان اچھی طرح ڈھکے۔
نبی ﷺ فرمان ہے: لا يقبَلُ اللَّهُ صَلاةَ حائضٍ إلَّا بخِمارٍ(صحيح أبي داود:641)
ترجمہ:اللہ تعالی حائضہ یعنی (بالغ عورت) کی نماز دوپٹہ کے بغیر قبول نہیں فرماتا۔
معلوا ہوا کہ عورت کی نماز کے لئے کم از کم دو کپڑے ایک قمیص اور دوسرا دوپٹہ ضروری ہے اور عہد رسالت میں عام عورتوں کا گھریلو لباس خصوصا آیت حجاب کے نزول کے بعد دو کپڑوں والا ہی ہوتا تھا جیساکہ اس بارے میں اوپر حدیث گزر چکی ہے۔
دوکپڑوں میں عورتوں کی نماز سے متعلق اثر بھی ملتا ہے ۔
عن عُبَيْدِ اللهِ الخولانيِّ - وَكانَ يتيمًا في حِجرِ مَيمونةَ - أنَّ مَيمونةَ كانت تصلِّي في الدِّرعِ والخمارِ ليسَ عليها إزارٌ۔
ترجمہ: عبیداللہ خولانی بیان کرتے ہیں جو میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر یتیم تھے کہ میمونہ ایک قمیص(درع) اور دوپٹہ(خمار) میں نماز ادا کرتیں اور آپ کے پاس تہ بند(ازار) نہیں ہوتا۔ (اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے، تمام المنة:162)
عورت کی نماز اور کپڑے کی افضل صورت:
٭ پہلے میں نے آپ کو بتایا کہ حالت مجبوری میں عورت ایک لباس میں بھی نماز ادا کرسکتی ہے بشرطیکہ مکمل جسم ڈھک لے کیونکہ نماز کے لئے اصل کپڑوں کی تعداد نہیں ہےبلکہ اصل یہ ہے کہ عورت اپنے جسم کو اچھی طرح ڈھک کر نماز ادا کرے ۔
٭ پھر میں نے بتایا کہ عورت کی نماز کے لئے کم ازکم دوکپڑے(قمیص ودوپٹہ) کا ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی۔
٭ اب یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت عام طور پر کپڑوں کی تنگی نہیں ہے اس لئے کوئی عورت صرف قمیص ودوپٹہ استعمال نہیں کرتی بلکہ شلوار (تہ بند) بھی استعمال کرتی ہےگویا عموماعورتیں تین کپڑے استعمال کرتی ہیں ، انہی تین کپڑوں میں وہ نماز ادا کرسکتی ہیں ۔نماز میں قدم ڈھکنے سے متعلق اہم معاملہ ہے جس کا بیان آگے آرہا ہے۔
تین کپڑوں میں عورتوں کی نماز سے متعلق بعض آثار ملتے ہیں ، وہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
پہلا اثر:عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے:
قالت عائشَةُ لا بُدَّ للمرأةِ من ثَلاثَةِ أثوابٍ تُصلِّي فيهِنَّ : دِرعٌ وجلبابٌ وخِمارٌ ، وكانت عائشَةُ تحُلُّ إزارَها ، فتَجلبَبُ بِهِ۔
ترجمہ:سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ عورت کے لئے تین کپڑے ضروری ہیں، ان کپڑوں میں عورت نماز اداکرے، وہ کپڑے قمیص(درع)، بڑی چادر(جلباب) اور دوپٹہ(خمار) ہیں۔اور عائشہ اپنے ازار (تہ بند)اتارکر اسے بطورجلباب(پردہ) اوڑھ لیا کرتیں۔
(شیخ البانی نے کہا کہ اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ جلباب المرأة: 134)
دوسرا اثر:عن عمرَ بنِ الخطابِ قال تصلي المرأةُ في ثلاثةِ أثوابٍ : درعٍ وخمارٍ وإزارٍ۔
ترجمہ: عمربن خطاب سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ عورت تین کپڑوں میں نماز ادا کرے، وہ تین کپڑے قمیص، دوپٹہ اور تہ بند ہیں ۔
(شیخ البانی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے، تمام المنة:162)
تیسرا اثر:قالَ ابنُ عمرَ،: إذا صلَّتِ المرأةُ، فلتُصلِّ في ثيابِها كلِّها؛ الدِّرعُ ، والخمارُ، والمِلحفةُ.
ترجمہ: ابن عمر نے کہا کہ جب عورت نماز پڑھنے لگے تو ان تمام کپڑوں میں یعنی قمیص، دوپٹہ اور چادر میں نماز ادا کرے۔
(شیخ البانی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے، جلباب المرأة:135)
ان بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے تین کپڑوں میں نماز بہتر و افضل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تین کپڑوں سے عورت کا جسم اچھی طرح ڈھک جاتا ہے حتی کہ پیر بھی ڈھک جاتا ہے۔
اب تین کپڑوں کی تفصیل کیا ہوسکتی ہے، ہمارے یہاں تو قمیص وشلوار اور دوپٹہ ہے مگر ان تین کپڑوں سے پیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے، شلوار پہننے سے پیر نہیں ڈھکتا ہے۔ ایسی صورت میں مذکورہ بالا آثار میں جس قسم کے کپڑے بیان کئے گئے ہیں عورتیں ان جیسے کپڑوں کا استعمال کرکے نماز ادا کریں تاکہ نماز کے لئے ڈھکنے والے تمام حصے پوری طرح ڈھک جائیں ۔ قمیص اور شلوار تو رہیں گے ہی کیونکہ یہ عام رواج کا کپڑا ہے، یہ دوکپڑے ہوگئے تیسرے کپڑے کے طور پر جلباب کی خصوصیت والا کوئی مخصوص لباس استعمال کریں جو سر تا قدم ڈھک دے ۔ عرب کی خواتین نماز کے لئےقمیص وازار کے علاوہ ایک مخصوص لباس بھی استعمال کرتی ہیں جس کو "ملابس الصلاۃ" کا نام دیا جاتا ہے، یہ ایسا لباس ہے جس کا اوپری حصہ دوپٹہ کی طرح استعمال ہوتا ہے، اسے عورت سر سے اچھی طرح لپیٹ لیتی ہے اور نیچے زمین تک پہنچتا ہے جس سے دونوں قدم ظاہری و باطنی دونوں ڈھک جاتے ہیں۔ یہ واضح رہے کہ نماز کے لئے عورت کے واسطے کوئی کپڑا مخصوص نہیں کیا گیا ہے، یہ محض اپنی پسند کا لباس ہے جو خوب پردہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ آپ چاہیں تو یہ مخصوص کپڑا نماز کے لئے سلاسکتے ہیں اور ممکن ہے دوسرے ممالک میں اس کا رواج بھی ہو۔ عورتوں کی نماز میں لباس کا مقصد یہ ہے کہ آپ قمیص وشلوار کے ساتھ تیسرا کپڑا ایسا استعمال کریں جس سے سراوراس کے بالوں سمیت دونوں پیروں کو بھی ڈھک دے ۔ نماز کے لئے اس قسم کے تین لباس کا استعمال عورتوں کے لئے افضل ہے تاہم یہ بھی جائز ہے کہ عورت قمیص، شلواراور اوڑھنی کے ساتھ نماز ادا کرے مگر افضل نہیں ہے کیونکہ دوپٹہ سے صرف اوپری حصہ ڈھکے گا اور شلوار میں دونوں قدم ظاہرہوں گے جبکہ نماز میں دونوں قدموں کو ڈھکنا واجب تونہیں ہے مگر بطور احتیاط افضل ضرور ہےاور اس بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کو ضرور مدنظر رکھیں ۔ قمیص وشلوار اور اوڑھنی والی عورت نماز کے لئے جراب پہن سکتی ہے مگر اس میں تکلف ومشقت ہے ۔
عورت کا لباس اور چہرہ :
نماز میں عورت کے لباس کا مسئلہ مذکور ہوچکا ہے اب یہ جاننا ہے کہ کیا عورت کو نماز پڑھتے ہوئے اپنا چہرہ بھی ڈھکنا ضروری ہے اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ ابن عبدالبر نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ عورت نماز میں اپنا چہرہ کھلا رکھے گی ۔ اور نبی ﷺ نے نماز کی حالت کی چہرہ میں چہرہ ڈھکنے سے منع بھی فرمایا ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ نَهى عنِ السَّدلِ في الصَّلاةِ وأن يغطِّيَ الرَّجلُ فاهُ(صحيح أبي داود:643)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سدل کرنے اور آدمی کو منہ ڈھانپنے سے منع فرمایا ہے۔
اس حکم میں مرد بھی داخل ہے اور عورت بھی داخل ہے تاہم ضرورت کے وقت مرد ہو یا عورت اپنے چہرے کو ڈھک سکتے ہیں جیسے کورونا کے وقت لوگ ماسک لگاکر نماز پڑھتے تھے ، اسی طرح جب عورت ایسی جگہ نماز پڑھے جہاں غیرمحرم مرد بھی ہوتو اس جگہ عورت کو اپنا چہرہ ڈھک کر نمازادا کرنا ہےخواہ اپنے گھر میں نماز ادا کرے یا گھر سے باہر کہیں نماز ادا کرے ۔
عورت کا لباس اور ہتھیلی:
نماز میں عورتوں کے دونوں ہاتھوں کو چھپانے سے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ، بعض کہتے ہیں کہ عورت سراپا پردہ ہے اس لئے چہرے کے ماسوا تمام حصوں کو چھپاکر نماز ادا کرے لیکن اس سلسلے میں مناسب قول یہ ہے کہ عورت نماز پڑھتے ہوئے دونوں ہتھیلی کو کھول سکتی ہے تاہم اگر انہیں بھی چھپاکر نماز ادا کرتی ہے تو بہتر ہےمگر اسے ضروری قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔
عورتوں کا لباس اور قدم :
نماز کی حالت میں عورت اپنے قدموں کو چھپائے گی یا نہیں چھپائے گی اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ عورت کو نماز میں اپنے دونوں پیروں کا ڈھکنا واجب ہے جبکہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ پیروں کا ڈھکنا واجب نہیں ہے ۔
اس سلسلے میں صحیح بات یہ ہے کہ نماز میں عورت کے لئے اپنے پیروں کا ڈھکنا واجب نہیں ہے کیونکہ وجوب پر دلالت کرنے والی کوئی صریح مرفوع حدیث نہیں ہے ۔ ابوداؤد میں ایک حدیث اس طرح مروی ہے۔
ام حرام والدہ محمد بن زید سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
سألت أمَّ سلمةَ ماذا تصلِّي فيهِ المرأةُ منَ الثِّيابِ فقالت تصلِّي في الخمارِ والدِّرعِ السَّابغِ الَّذي يغيِّبُ ظُهورَ قدميها۔
ترجمہ:عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھے؟ تو انہوں نے کہا: وہ اوڑھنی اور ایک ایسے لمبے کرتے میں نماز پڑھے جو اس کے دونوں قدموں کے اوپری حصہ کو چھپا لے۔
یہ موقوف روایت ہے اور شیخ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے، (دیکھیں :ضعيف أبي داود:639)
ابوداؤ کی اگلی حدیث مرفوع ہے ، ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
أنَّها سألتِ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أتصلِّي المرأةُ في درعٍ وخمارٍ ليسَ عليها إزارٌ قالَ إذا كانَ الدِّرعُ سابغًا يغطِّي ظُهورَ قدميها۔
ترجمہ:انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا عورت کرتہ اور اوڑھنی میں جب کہ وہ ازار (تہبند) نہ پہنے ہو، نماز پڑھ سکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(پڑھ سکتی ہے) جب کرتہ اتنا لمبا ہو کہ اس کے دونوں قدموں کے اوپری حصہ کو ڈھانپ لے۔
اس حدیث کو بھی شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے۔ (ضعيف أبي داود:640)
چونکہ یہ دونوں احادیث ضعیف ہیں اس لئے ان سے استدلال نہیں کریں گے ، اسی طرح ایک اور حدیث کو یہاں ذکر کرنا مفید ہوگا۔
قبیلہ بنو عبدالاشھل کی ایک عورت کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا:
قلتُ: يا رسولَ اللَّهِ إنَّ لَنا طريقًا إلى المسجد مُنْتِنَةً، فَكَيفَ نفعَلُ إذا مُطِرْنا؟ قالَ: أليسَ بعدَها طريقٌ هيَ أطيَبُ منها؟ قالت: قلتُ بلَى. قالَ: فَهَذِهِ بِهَذِهِ.(صحيح أبي داود:384)
ترجمہ: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارا مسجد تک جانے کا راستہ غلیظ اور گندگیوں والا ہے تو جب بارش ہو جائے تو ہم کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس کے آگے پھر کوئی اس سے بہتر اور پاک راستہ نہیں ہے؟ میں نے کہا: ہاں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو یہ اس کا جواب ہے۔
یہ صحیح حدیث ہے، اس میں یہ مذکور ہے کہ عہدرسالت میں عورت جب نماز پڑھنے کے لئے جاتی تواس قدم ڈھکا ہوتا کہ کپڑے زمین سے گھسٹتے تھے ۔ اور میں پہلے یہ بات بتاچکا ہوں کہ عورت جب گھر سے مسجد کے لئے نکلے گی تو وہ پردہ لگائے گی جو باہر نکلنے والا پردہ ہوگا یعنی عورت کے گھر کا لباس الگ ہے مگر باہر نکلنے کا لباس الگ ہے جیسے عورتوں کے عیدگاہ نکلنے سے متعلق ام عطیہ رضی اللہ عنہا والی حدیث سے بھی آپ نے جانا ہے لہذا یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل نہیں بن سکتی کہ نماز میں عورت کے لئے اپنا پیر ڈھکنا واجب ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ عورت کےلئے نماز میں اپنے قدم ڈھکنا واجب نہیں ہے لیکن احتیاطا قدموں کو ڈھکنا افضل ضرور ہے کیونکہ عورتوں کے لئے نماز میں اوپر کپڑوں کی جو تعداد بیان کی گئی ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ قرون مفضلہ کی خواتین اس طرح کے کپڑوں میں نماز پڑھتی تھیں جن سے پورا جسم حتی کہ پیر بھی ڈھک جاتے ہوں گے تاہم جو خواتین اپنے گھروں میں قمیص وشلواراور دوپٹے میں نماز ادا کرتی ہیں جن سے ان کے قدم ظاہرہوجاتے ہیں ان کی نماز اپنی جگہ درست ہے ، پیرچھپانا افضلیت کا مسئلہ ہےیعنی چھپانا افضل ہے اور نہ چھپائے تب بھی نماز ہوجائے گی ۔
عورتوں کے لباس سے متعلق بعض مسائل :
(1)عورت ایسے کپڑوں میں نماز نہ ادا کرے جس میں نقش ونگار ، بیل بوٹے یا تصاویر ہوں ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، وہ بیان فرماتی ہیں:
أنَّ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ صَلَّى في خَمِيصَةٍ لَهَا أَعْلَامٌ، فَقالَ: شَغَلَتْنِي أَعْلَامُ هذِه، اذْهَبُوا بهَا إلى أَبِي جَهْمٍ وأْتُونِي بأَنْبِجَانِيَّةٍ(صحيح البخاري:752)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دھاری دار چادر میں نماز پڑھی۔ پھر فرمایا کہ اس کے نقش و نگار نے مجھے غافل کر دیا۔ اسے لے جا کر ابوجہم کو واپس کر دو اور ان سے (بجائے اس کے) سادی چادر مانگ لاؤ۔
حتی کہ نماز والی جگہ پر ایسے تصاویر ونقش ونگار بھی نہ ہوں جس سے دھیان بھٹک جائے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک رنگین باریک پردہ تھا جسے انہوں نے اپنے گھر کے ایک طرف پردہ کے لیے لٹکا دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے سامنے سے اپنا یہ پردہ ہٹا دو۔ کیونکہ اس پر نقش شدہ تصاویر برابر میری نماز میں خلل انداز ہوتی رہی ہیں۔(صحیح البخاری:374)
اس جگہ یہ مسئلہ بھی جان لیں کہ اگر کسی نے جاندار کی تصویر والے کپڑے میں یا بیل بوٹے والے کپڑےاور جائے نماز میں نماز ادا کرلی تو اس کی نماز اپنی جگہ درست ہے اسے نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے تاہم ایسے کپڑے پہن کر نماز ادا نہ کرے بلکہ اصلا ایسے کپڑے پہننا ہی نہیں چاہئے۔
(2) بہت ساری خواتین ایسی جائے نماز پر نماز ادا کرتی ہیں جس پر نقش ونگار، بیل بوٹے اور خانہ کعبہ وغیرہ کی تصویر بنی ہوتی ہےجبکہ اس قسم کی جائے نماز پر نماز نہیں ادا کرنا چاہئے کیونکہ یہ چیزیں نماز سے دھیان ہٹانے والی ہیں ، نبی ﷺ نے نقش ونگار والی چادر کو گھر سے ہی نکال دینے کا حکم دیاتھاجوحدیث اوپر گذری ہے بلکہ اس سلسلے میں بخاری کی یہ حدیث بھی دیکھیں ۔عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک رنگین باریک پردہ تھا جسے انہوں نے اپنے گھر کے ایک طرف پردہ کے لیے لٹکا دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے سامنے سے اپنا یہ پردہ ہٹا دوکیونکہ اس پر نقش شدہ تصاویر برابر میری نماز میں خلل انداز ہوتی رہی ہیں۔(صحیح بخاری:374) اور سنن ابن ماجہ میں اس طرح سے مروی ہے ۔ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنے روشن دان پر پردہ ڈالا یعنی اندر سے، پردے میں تصویریں تھیں، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، تو آپ نے اسے پھاڑ ڈالا، میں نے اس سے دو تکیے بنا لیے پھر میں نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے ایک تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔(سنن ابن ماجہ:3653، قال الشيخ الألباني: حسن صحيح)
ان ساری احادیث کا مطلب یہ ہے کہ عورت نماز پڑھتے وقت بیل بوٹے والی جائے نماز پر نماز نہ پڑھےحتی کہ نماز سے دھیان بھٹکانے والی کوئی تصویر وعلامت جائے نماز میں یا لباس میں یا سامنے نہ ہو۔نماز پڑھنے کے لئے عام اور سادہ جائے نماز منتخب کرے کیونکہ خشوع وخضوع کے ساتھ اللہ کی بندگی کرنا مقصدہے ۔
(3) بعض عورتیں نماز کے لباس کو ہلکے میں لیتی ہیں اور بغیر دوپٹہ کے نماز پڑھ لیتی ہیں یا دوپٹہ تو ہوتا ہے مگر باریک ہوتا ہے جس سے بال اور سر اچھی طرح نہیں ڈھکتےیا جھلکتے ہیں ، یاد رہے ایسے میں نماز نہیں ہوگی ۔ دوپٹہ موٹا ہو جس سے پورا سر، بالوں سمیت اچھی طرح ڈھکنا ہے ، صرف چہرہ کھلا رکھنا ہے ۔
(4)ضعیف وبیمار عورت نماز میں سروں کو ایسے دوپٹے سے چھپائے گی جس سے بال نہ ظاہر ہوں ، یہی حکم نوجوان عورت، عام عورت، مریضہ ، ضعیفہ اور بوڑھی کا بھی ہے ۔اگر مرض یا ضعف اس قدر شدید ہو کہ نماز میں حجاب کی مکمل پابندی کرنا ناممکن ہو اور کوئی مدد کرنے والا بھی نہ ہو تو جس قدر ہوسکے پابندی کرے ، اللہ تعالی کسی کو طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا۔
(5) دوپٹہ کے علاوہ قمیص وتہ بند بھی باریک نہ ہومطلب ایسا نہ ہو جس سے خدوخال نمایاں ہوں اور نہ ہی کپڑے چھوٹے اور چست ہوں ، لباس ساتر اور ڈھیلے ہوں تاکہ آرام سے نماز ادا کی جاسکے ۔
(6) گرمی کے موسم میں بہت سی خواتین مجبوری یا سستی کی وجہ سے جھلکتے دوپٹے یا باریک لباس میں نماز ادا کرتی ہیں ، ایسے میں نماز نہیں ہوگی کیونکہ نماز درست ہونے کے لئے مشروط لباس کا ہونا بھی ضروری ہے ۔ ممکن ہے کہ بہت ساری خواتین کو گرمی سے حفاظت کی سہولت میسر نہ ہو پھر بھی نماز کے لئے مناسب لباس کا ہونا ضروری ہے اور اس میں عورت کو جو تکلیف لاحق ہوگی اس پر اللہ کے یہاں زیادہ اجر ہے ۔
(7) آج کل عورتوں میں چست لباس خصوصا چست پاجامہ کا رواج عام ہے بلکہ کتنی عورتوں کے شلوار ٹخنے سے اوپر ہوتے ہیں ، نماز کے لئے اس قسم کا لباس نہیں چلے گا بلکہ عورت کو کبھی بھی چست یا چھوٹے کپڑے نہیں پہننا چاہئے، اکیلے میں یا شوہر کے سامنے کا مسئلہ الگ ہے۔
(8) بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عورت نماز میں اپنا چہرہ کھلا رکھتی ہے اس لئے اسلام میں عورت کے چہرے کا پردہ نہیں ہے ۔ یہ استدلال باطل ہے کیونکہ میں نے پہلے ہی اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ عورت کی نماز کا پردہ الگ ہے اور جسم کا پردہ الگ ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عورت اپنے محرم کے سامنے سر کھول سکتی ہے مگر نماز میں عورت کے لئے سرڈھکنا واجب ہے ، ٹھیک یہی معاملہ چہرے کے پردہ کا ہے یعنی عورت نماز میں اپنے چہرے کو کھلا رکھے گی لیکن جب گھر سے باہر نکلے گی یا اس کے پاس اجنبی مرد ہو تو اپنے چہرے کو چھپائےگی حتی کہ نماز کے وقت وہاں کوئی اجنبی مردہو تو پھر نماز میں بھی اپنے چہرے کو چھپائے گی ۔
(9) عورتوں میں ایک غلط فہمی یہ ہے کہ اگراس نے نماز میں انڈرگارمنٹ نہ پہنی ہومثلا چڈی یا شلوار وپاجامہ نہ پہنی ہو تو اس کی نماز نہیں ہوگی کیونکہ شرمگاہ کا زمین سے بھی پردہ کرنا ہے لہذا عورت کا ساڑی وپیٹی کوٹ یا بغیرانڈرگارمنٹ کے نائٹی اور دوپٹہ میں نماز نہیں ہوتی حتی کہ عام حالت میں بھی عورتوں کو انڈرگارمنٹ کے بغیر رہنے سے منع کیا جاتا ہے ۔ یہی بات مردوں میں بھی مشہورہے، وہ بھی لنگی میں نماز کو صحیح نہیں مانتے ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بات سراسر غلط ہے اور لوگوں کا پھیلایا ہوا جھوٹ ہے ، قرآن وحدیث میں کہیں بھی شرمگاہ کو زمین سے پردہ کرانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے ، فقط سترچھپانے کا حکم ہوا ہے ۔اب کوئی عورت ساڑی سے سترچھپائے یا نائٹی پہنے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ ایک عورت چہرہ وہاتھ وپیر کے علاوہ سارے اعضاء کو ڈھک کر نماز پڑھتی ہے تو اس کی نماز درست ہے خواہ وہ جس طرح کے لباس سے بھی سترپوشی کرے۔ سطور بالا میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ عہدرسالت کی خواتین تہ بند کے بغیر بھی رہتی تھیں ، صرف ایک قمیص اور دوپٹہ ہوتا تھااور اسی میں نماز ادا کرتی تھیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ نماز میں عورت کو اپنا جسم چھپانا ہے خواہ جس لباس سے بھی ہو، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو نماز کے وقت تہ بند اتارلیاکرتیں اور اسے جلباب بناکراوڑھ لیتیں۔ اسی طرح مرد حضرات بھی بغیرانڈرگارمنٹ کے رہ سکتے ہیں اور نماز پڑھ سکتے ہیں ، انہیں نماز میں کندھے سے لے کر گھٹنے سے نیچے تک اپنا جسم چھپانا ہے خواہ کسی بھی لباس سے چھپائے ۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث سے مسجد نبوی میں رہنے والے صحابہ کے لباس کا اندازہ لگائیں ۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے ستر اصحاب صفہ کو دیکھا کہ ان میں کوئی ایسا نہ تھا جس کے پاس چادر ہو۔ فقط تہہ بند ہوتا، یا رات کو اوڑھنے کا کپڑا جنھیں یہ لوگ اپنی گردنوں سے باندھ لیتے۔ یہ کپڑے کسی کے آدھی پنڈلی تک آتے اور کسی کے ٹخنوں تک۔ یہ حضرات ان کپڑوں کو اس خیال سے کہ کہیں شرمگاہ نہ کھل جائے اپنے ہاتھوں سے سمیٹے رہتے تھے۔(بخاری:442)
اس حدیث میں اصحاب صفہ کا بیان ہے جن کے پاس محض ایک ہی کپڑا تھا، اسی کو عام حالت میں پہنتے ، اسی کو اوڑھتے اور اسی ایک کپڑا کو لپیٹ کر نماز ادا کرتے تھے اور بھی کتنی احادیث مذکور ہیں جن میں نبی اور صحابہ کے صرف ایک لباس پہننے اور ایک ہی لباس میں نماز پڑھنے کا بیان ہے اس لئے یہ بات غلط اور جھوٹ ہے کہ مردیا عورت کو اپنی شرمگاہ زمین سے بھی چھپانا چاہئے ۔
(10)امام بخاری نے 351 نمبر کی حدیث سے قبل معلقا ایک اثرذکر کیا ہے ، امام بخاری ؒ بیان کرتے ہیں کہ اور "وہ شخص جو اسی کپڑے سے نماز پڑھتا ہے جسے پہن کر وہ جماع کرتا ہے (تو نماز درست ہے) جب تک وہ اس میں کوئی گندگی نہ دیکھے"۔ اس سے ایک مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ جس کپڑے کو پہن کر میاں بیوی نے جماع کیا ہے اس کپڑے میں نماز درست ہے، اسے دھونے کی ضرورت نہیں ہے ، ہاں اگر اس میں منی لگ جائے تو فقط اس جگہ کو دھل لے، کافی ہے۔اسی طرح آپ ﷺ کے بارے میں بھی آتا ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے جنابت کو دھوتی تھی۔ پھر (اس کو پہن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے جاتے اور پانی کے دھبے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے میں ہوتے تھے۔(بخاری:229)
(11) حیض کی حالت میں پہنے گئے کپڑوں کے بارے میں عورتوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ان کے کپڑے ناپاک ہوتے ہیں بلکہ یہاں تک مانا جاتا ہے کہ حیض والی عورت کے جسم سے کپڑا مس ہوجانے اور پسینہ وغیرہ بھی لگ جانے سے ناپاک ہوجاتا ہےلہذا اس میں نماز نہیں ادا کرسکتے ہیں ، حیض کا کپڑا الگ اور خاص ہوتا ہے ، استعمال کرکے اسے پھینک دینا چاہئے ۔ عورتوں کے یہ خیالات غلط ہیں ۔ آئیے آپ کو حدیث رسول کی روشنی میں صحیح بات بتاتے ہیں ۔ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما روایت کرتی ہیں:
جَاءَتِ امْرَأَةٌ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فَقالَتْ: أرَأَيْتَ إحْدَانَا تَحِيضُ في الثَّوْبِ، كيفَ تَصْنَعُ؟ قالَ: تَحُتُّهُ، ثُمَّ تَقْرُصُهُ بالمَاءِ، وتَنْضَحُهُ، وتُصَلِّي فِيهِ(صحيح البخاري:227)
ترجمہ: ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا رسول اللہ! فرمائیے ہم میں سے کسی عورت کو کپڑے میں حیض آ جائے (تو) وہ کیا کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (کہ پہلے) اسے کھرچے، پھر پانی سے رگڑے اور پانی سے دھو ڈالے اور اسی کپڑے میں نماز پڑھ لے۔
صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت پیش کرتا ہوں، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:
كَانَتْ إحْدَانَا تَحِيضُ، ثُمَّ تَقْتَرِصُ الدَّمَ مِن ثَوْبِهَا عِنْدَ طُهْرِهَا، فَتَغْسِلُهُ وتَنْضَحُ علَى سَائِرِهِ، ثُمَّ تُصَلِّي فِيهِ(صحیح البخاری:308)
ترجمہ:ہ ہمیں حیض آتا تو کپڑے کو پاک کرتے وقت ہم خون کو مل دیتے، پھر اس جگہ کو دھو لیتے اور تمام کپڑے پر پانی بہا دیتے اور اسے پہن کر نماز پڑھتے۔
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ حیض والی عورت جس کپڑے کو حیض کی حالت میں استعمال کی ہے اس کپڑے میں جہاں حیض کا خون لگاہو اس کو مل کر پانی سے دھولے، کپڑا پاک ہوجائے گا ، اب اسی کپڑے میں وہ نماز پڑھ سکتی ہے۔ اور جو کپڑا خشک ہو، اس میں حیض کا خون نہ لگا ہو وہ پہلے سے پاک ہے اس کو دھونے کی بھی ضرورت نہیں ہے جیسے قمیص اور دوپٹہ ، عموما ان میں خون نہیں لگتا ہے صرف شلوار میں خون لگتا ہے۔ اگر خدانخواستہ قمیص میں بھی خون لگ جائے تو اس کو بھی دھل لے اور دھل جانے کے بعد تو کپڑا بالکل پاک ہے اب اس میں نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
ہاں یہ ممکن ہے کہ دھلنے سے کپڑے کی نجاست دور ہوجائے مگر کپڑے پر خون کے نشانات لگے رہ جائیں تو ان نشانات کی وجہ سے بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ کپڑا پاک ہوگیا ہے چاہے اس پر نشان کیوں نہ معلوم ہوتا ہو۔
(12) بہت ساری عورتیں شیرخوار بچوں کے پیشاب وپاخانہ کی وجہ سے نماز ہی نہیں ادا کرتیں جبکہ نمازایک اہم فریضہ ہے اسے کسی بھی حال میں نہیں چھوڑنا ہے ۔ اگر بچہ کپڑے پر پیشاب کردے، یا کپڑے میں پاخانہ لگ جائے یا کپڑے پر الٹی کردے تو صرف اس جگہ کو دھلنا کافی ہے جہاں پرنجاست لگی ہے، پورا کپڑا دھونے کی ضرورت نہیں ہے ۔نیز اگر کوئی عورت ایسے کپڑے میں نماز پڑھ لے جس میں نجاست لگی تھی ، نماز کے بعد نجاست کا علم ہوا تو اس کی نماز درست ہے، نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن دوران نماز کپڑے میں نجاست لگنے کا علم ہواور بحالت نماز نجاست زائل کرنا ممکن نہ ہو تو نماز توڑکر پہلے نجاست کی صفائی کرلے اور پھر سے نماز ادا کرے ۔
(13) مردوں کے لبا س سے متعلق ذکر کردہ تمام احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نماز میں مردوں کاسر ڈھکنا ضروری نہیں ہے یا ٹوپی پہننا ضروری نہیں ہے تاہم نماز کے لئے زنیت (کپڑے) کا اہتمام کرنے کا حکم ہے اس لئے ٹوپی لگاتے ہیں تو اچھی بات ہے۔ورنہ نماز کے لباس میں ٹوپی کا ذکر نہیں ہے اورجولوگ کہتے ہیں کہ ٹوپی کے بغیر نماز نہیں ہوتی یا بغیرٹوپی کے نماز مکروہ ہوتی ہے ان کی بات غلط ہے ۔نماز میں سرڈھکنےکا حکم عورتوں کو ہوا ہے، نہ کہ مردوں کو۔
👍
1