
JUI Updates
May 26, 2025 at 03:51 PM
*پارلیمنٹ میں شادی کے لیے 18 سال عمر کی تحدید کیوں کی گئی؟ اس کے پس پردہ مکروہ عزائم اور ہمارے معاشرے پر اس کے منفی اثرات*
تحریر: مولانا امان اللہ حقانی (سابق صوبائی وزیر)
قسط چہارم
قابل غور بات یہ ہے کہ ان کانفرنسوں میں کچھ الفاظ بار بار استعمال ہوتے رہے ہیں جیسے، جنسی صحت، جنسی کارکردگی، جنس پرستی، عمل تولید، عقد نکاح کے بغیر جنسی تعلق اور شخصی آزادی وغیرہ وغیرہ، یہ الفاظ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ قاہرہ کانفرنس آبادی کے موضوع پر نہیں بلکہ جنسی امور کے موضوع پر منعقد ہوئی تھی، جس میں اس گناہ عظیم کو فروغ دینے کےلئے نت نئے طریقے پیش کیے گئے تھے، اور مسلمان خواتین و حضرات ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ ایک امریکی تنظیم نے ان قراردادوں کی وجہ سے لاحق خطرات سے اس وقت خبردار کیا تھا، ایک فرانسیسی مسلم مفکر رجاء الجارودی نے مصری اخبار “الشعب” میں (۱۹۹۶/۹/۱۶ء) لکھا ہے کہ:
حیرت کی بات یہ ہے کہ “امریکن نو عمر ماؤں“ کی تنظیم کی صدر نے “قاہرہ کانفرنس” میں مسلمانوں کو امریکنائزیشن کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ ان لوگوں نے امریکی معاشرے کو تباہ کر دیا اور اب یہ اپنے افکار و خیالات لے کر اسلامی معاشروں کی طرف بڑھ رہے ہیں، تاکہ ان کو بھی تباہ و برباد کر ڈالیں اور ان کے ساتھ ساتھ مسلمان عورت اور معاشرے میں اس کے کردار کو بھی تار تار کر دیں۔
۲۰۰۰ء میں “اکیسویں صدی میں مساوات، ترقی اور امن” کے موضوع پر نیو یارک میں اقوام متحدہ کی زیر سر پرستی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں کیا چیزیں پاس ہوئیں؟ پاس کردہ دستور کی چند شقیں بغور ملاحظہ فرمائیں۔
(۱) نو عمر لڑکے اور لڑکیوں کے لیے، اباحیت اور جنسی آزادی کی اپیل کی جائے اور ان کو ترغیب دی جائے کہ وہ نو عمری میں ہی جنسی عمل انجام دیں، جب کہ شادی تاخیر سے کریں۔
(۲) خاندانی دائرے سے باہر، مرد و عورت کے درمیان ہر قسم کے جنسی تعلقات کی حوصلہ افزائی کی جائے اور خاندان کی تعمیر میں شادی کے کردار کو ختم کر دیا جائے۔
(۳) اسقاط حمل کو قانونی بنایا جائے۔
(۴) خاندان کا مغربی مفہوم رائج کیا جائے: کہ ایک فیملی دو انسانوں سے مل کر بنتی ہے، خواہ وہ ایک ہی جنس کے کیوں نہ ہوں (یعنی مرد مرد کے ساتھ اور عورت عورت کے ساتھ)
(۵) گھریلو کام کاج نہ کرنے پر عورت کی حوصلہ افزائی کی جائے، کیوں کہ گھر کے کاموں پر اجرت نہیں ملتی۔
(۶) ایسی خاندانی عدالتیں قائم کی جائیں، جہاں شوہر پر اپنی بیوی کے حقوق غصب کرنے کا مقدمہ چل سکے اور اس کو مناسب سزادی جاسکے۔
(۷) لواطت کو مباح قرار دیا جائے، بل کہ ایسے قوانین توڑنے پر ابھارا جائے، جن کی رو سے جنسی عمل جرم قرار پاتا ہو۔
(۸) مطلق مساوات کے مغربی مفہوم کو نافذ کیا جائے اور مرد و زن کے درمیان مکمل مماثلت قائم کی جائے، دونوں کو کام کاج، بچوں کی دیکھ بھال، گھریلو کام اور وراثت وغیرہ میں برابر کا شریک مانا جائے۔
(۹) بکین کانفرنس کے دستور پر بعض مسلم ممالک کی جانب سے کی گئی احتیاط کی اپیل کو بالکلیہ مسترد کردیا جائے۔
اس کانفرنس کا اصل مقصد در اصل ان ممالک کو آخری مرتبہ وارننگ دینا تھا جنہوں نے ابھی تک سابقہ کانفرنسوں کی قراردادوں اور ایجنڈوں پر عمل نہیں کیا تھا، اس لیے اس کانفرنس میں ایسے ممالک کے باشندوں سے اپنے ملکوں کے قوانین توڑنے کی اپیل کی گئی اور ان ممالک کے لیے ڈیڈ لائن بھی مقرر کی گئی، اس اجتماع کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے انعقاد سے پہلے بہت سی تمہیدی کانفرنسیں بھی مختلف ممالک میں منعقد ہوئیں تاکہ وہاں سے پاس ہونے والی قراردادوں کو اس کانفرنس کے دستور کا جزوء بنایا جا سکے۔
چنانچہ ۲۰۰۰ء میں بکین کانفرنس کے شعار (بکین پلس ۵) کے تحت نیو یارک میں ایک اجتماع ہوا، اس شعار کے ذریعے بکین کانفرنس کی پانچویں سالگرہ کی جانب اشارہ کیا گیا، اس اجتماع میں بکین کانفرنس کے دستور میں کچھ ترمیم کرنے کی کوشش کی گئی۔
مارچ کے مہینے میں “مواقع ، رکاوٹیں اور مطلوبہ کردار“ کے موضوع پر بحرین میں خلیجی خواتین کی کانفرنس منعقد ہوئی، اس کانفرنس کا انعقاد ، بحرین کی گرلز ایسوسی ایشن نے کیا، اس میں تقریباً سب خلیجی ملکوں سے خواتین اور مردوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی، اس سے قبل بھی افریقی خواتین کے لئے عدیس ابابا اور خلیجی ممالک کی خواتین کے لئے عمان اور بیروت مختلف کانفرنسیں ہوئیں، تاکہ اس میں عالمگیریت کے پالیسی ساز مغربی غلاظت سے بھر پور ناپاک اقدار کو پوری دنیا پر تھوپ دیں، اوپر آپ نے امریکن نو عمر ماؤں کی تنظیم کی صدر کی فریاد مسلمان ماؤں کے نام آپ نے ملاحظہ کی، ان کی فریاد کو تو دنیا نے در خور اعتناء نہیں سمجھا تاہم وہاں اس کے بعد جو معاشرتی اور اخلاقی بربادی چھائی رہی اسکی ایک جھلک ذرا ملاحظہ کریں، عالمگیریوں نے معاشرے میں جو گند پھیلایا ہے، معاشرے ناجائز بچوں سے بھر گئے، آنکھیں کھول کر دیکھیں۔
دنیا بھر میں غیر شادی شدہ جوڑوں سے پیدا ہونے والے ناجائز بچوں کی شرح مختلف ممالک میں مختلف ہے، ذیل میں مختلف خطوں کے اعداد و شمار ملاحظہ کریں
*🇱🇦 لاطینی امریکہ*
لاطینی امریکہ میں ناجائز بچوں کی پیدائش کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے:
• کولمبیا: 84%
• چلی: 75.1%
• کوسٹا ریکا: 72.5%
• میکسیکو: 70.4%
• پیرو: 69%
• ارجنٹینا: 58%
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اس خطے میں شادی کے بغیر ناجائز بچوں کی پیدائش ایک عام رجحان بن چکی ہے۔
*🇪🇺 یورپ*
یورپ میں بھی کئی ممالک میں ناجائز بچوں کی پیدائش کی شرح بلند ہے:
• آئس لینڈ: 69.4%
• فرانس: 62.2%
• بلغاریہ: 59.6%
• ناروے: 58.5%
• سویڈن: 55.2%
• پرتگال: 57.9%
• سلووینیا: 56.5%
یہ فرق معاشرتی اقدار اور خاندانی ڈھانچے میں مختلف رویوں کی عکاسی کرتا ہے۔
*🇺🇸 امریکہ*
امریکہ میں 2009 میں ناجائز بچوں کی پیدائش کی شرح 41% تھی:
• افریقی-امریکی: 73%
• ہسپانوی نژاد: 53%
• سفید فام: 29%
جبکہ اب تو شرح بہت حد تک بڑھ گئی ہے۔
*🌏 ایشیا*
ایشیا میں غیر شادی شدہ والدین سے بچوں کی پیدائش کی شرح عموماً کم ہے، لیکن کچھ ممالک میں یہ شرح بڑھ رہی ہے:
• جنوبی کوریا: 4.7% (2023 میں ریکارڈ بلند سطح)
• جاپان: 2%
• فلپائن: 57.1% (2021 میں)
فلپائن میں یہ اضافہ خاص طور پر نمایاں ہے، جہاں 1993 میں یہ شرح 37% تھی اور 2015 تک 52.1% تک پہنچ گئی۔
*🌍 افریقہ*
افریقہ میں بھی مختلف ممالک میں یہ شرح مختلف ہے:
• جنوبی افریقہ: 65%
• نائجیریا: 17%
• کینیا: 24%
بطور مختصر خلاصہ کے
کولمبیا 84%
چلی 75.1%
میکسیکو 70.4%
آئس لینڈ 69.4%
فرانس 62.2%
بلغاریہ 59.6%
فلپائن 57.1%
امریکہ 41%
جنوبی کوریا 4.7%
جاپان 2%
یونان 10.3%
اٹلی 5%
عالمگیریوں نے جو معاشرتی تباہی مچائی ہے قسط پنجم میں اس کی ایک ہوشرباء جھلک کا نظارہ کریں۔
#teamjuiswat
https://www.teamjuiswat.com/2025/05/Why-was-the-age-limit-for-marriage-set-at-18-in-Parliament-04.html
❤️
👍
😢
10