
JUI Updates
May 27, 2025 at 05:20 AM
*مولانا فضل الرحمٰن اسلامی اقدار کے نگہبان*
✍🏻 *محمد اسامہ پسروری*
پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں جب ایک بار پھر مغربی ایجنڈا تھامے عناصر نے 18 سال سے کم عمر شادی پر پابندی کا بل پیش کیا تو اہلِ علم، اہلِ دین اور اہلِ غیرت کی نگاہیں ایک بار پھر اس ایوان کی طرف اٹھ گئیں، جو کئی بار پہلے بھی ایسے ہی قوانین کی آڑ میں ہماری تہذیب، شریعت اور خاندانی نظام پر حملے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ مگر اس بار اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو ایک ایسا مردِ درویش عطا کیا جو نہ صرف پارلیمان کے ہر فریب کو جانتا ہے بلکہ دلیل، وقار اور جرات کے ساتھ اس کا سامنا کرنا بھی جانتا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ جب دین کی بات آئے، جب تہذیبی یلغار کا مقابلہ ہو، جب مغرب کے ادارے اپنے قوانین ہمارے اوپر تھوپنے کی کوشش کریں، تو یہ قوم اکیلی نہیں ہے، اس کے پاس ایک ایسا رہنما موجود ہے جو مصلحتوں، دباؤ، لالچ اور تنقید کے سمندر میں بھی ثابت قدمی سے کھڑا رہتا ہے۔
یہ محض ایک بل کا رُک جانا نہیں، یہ آئندہ نسلوں کی تہذیبی بقا کی ایک اہم جیت ہے۔ اس بل کے ذریعے اسلامی تعلیمات، قرآنی احکام اور صدیوں پر محیط فقہی ذخیرے کو عملاً غیر مؤثر بنانے کی سازش تھی۔ نکاح جیسے پاکیزہ بندھن کو عمر کی مصنوعی دیواروں میں قید کرنے والے دراصل مغرب کی اس سوچ کے ترجمان ہیں جو آزادی، انفرادیت اور لامذہبیت کو انسانی حقوق کا نام دیتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے نہ صرف اس فتنہ کو پہچانا بلکہ اسے مؤثر انداز میں بے نقاب کر کے روک بھی دیا۔ انہوں نے دلیل سے بات کی، آئینی و فقہی بنیادیں رکھیں اور وہ آواز بنے جو ایوانوں میں کم کم سنائی دیتی ہے علماء دین کی آواز، شریعت کی آواز، پاکستان کے اسلامی تشخص کی آواز۔
یہ وقت مولانا پر تنقید کے شوقین حلقوں کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ قیادت وہی ہوتی ہے جو وقتی مقبولیت، سیاسی داؤپیچ اور میڈیا کی واہ واہ سے بالاتر ہو کر دین، قوم اور تہذیب کی حفاظت کا بیڑا اٹھاتی ہے۔ مولانا کا یہ کردار ثابت کرتا ہے کہ وہ محض ایک سیاسی رہنما نہیں بلکہ دینی اقدار کے محافظ اور نظریاتی سرحدوں کے نگہبان بھی ہیں۔ انہوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ اگر کوئی قانون اسلام سے متصادم ہو گا، تو وہ اسے کسی صورت پاس نہیں ہونے دیں گے، چاہے مخالفین کتنا ہی شور مچائیں، میڈیا کیسی ہی مہم چلائے، یا لبرل طبقہ کیسی ہی مذمت کرے۔
اہم بات یہ ہے کہ مولانا نے اس مسئلے کو صرف مذہبی نکتہ نظر سے نہیں، سماجی اور قانونی پہلوؤں سے بھی دیکھا اور بتایا کہ اسلامی معاشروں میں نکاح کی اہلیت کا تعین عقل، بلوغت، حالات، اور عرف کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اور اس میں جبراً عمر کی ایک حد لگانا نہ صرف شریعت سے تصادم ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ اور بے راہ روی کو مزید فروغ دینے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ انہوں نے سادہ الفاظ میں بتایا کہ اگر مغربی دنیا میں نکاح سے پہلے لڑکا لڑکی “ریلیشن شپ” میں جا سکتے ہیں تو ان کے لیے کوئی قانون نہیں، لیکن جب وہی دو لوگ پاکیزہ نکاح کرنا چاہیں تو پابندی لگا دی جاتی ہے یہ دہرا معیار قابلِ قبول نہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے صرف ایک بل نہیں روکا، انہوں نے ہمارے خاندانی نظام، نکاح کے تقدس، شریعت کی بالادستی اور اسلامی تہذیب کے دفاع میں ایک نئی علامت قائم کی ہے۔ ان کی قیادت میں یہ قوم اپنے نظریاتی دشمنوں کو پہچان بھی رہی ہے اور ان کا مؤثر جواب بھی دے رہی ہے۔ ہمیں ایسے رہنماؤں پر فخر ہے جو پارلیمان میں بیٹھ کر دین کے سپاہی بنے ہوئے ہیں، جو تنقید کی پروا کیے بغیر حق بات کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اور جو وقت آنے پر اس قوم کے لیے ڈھال بن جاتے ہیں۔
*خراجِ تحسین ہے اس جرات مندی کو، سلام ہے اس دینی وفاداری کو، اور امید ہے کہ یہ آواز ایوان میں دیر تک گونجتی رہے گی... اور جب بھی دین پر حملہ ہو گا، مولانا فضل الرحمٰن جیسے سپاہی صفِ اول میں نظر آئیں گے۔*
#teamjuiswat
https://www.teamjuiswat.com/2025/05/Maulana-Fazlur-Rehman-Guardian-of-Islamic-Values.html
❤️
👍
20