
JUI Updates
June 5, 2025 at 02:13 PM
*بین الاقوامی تعلقات، جمعیۃ علماء کی پالیسی اور امریکی سفارتخانے کی تقریب کا قضیہ*
*حافظ غضنفر عزیز*
ترجمان جمعیۃ علماء اسلام صوبہ پنجاب
سیاسی عمل میں مزاحمت، سامراج کی مخالفت، سیاسی حکمت عملی، تدبر و بصیرت، سفارتکاری، بین الاقوامی تعلقات اور قومی مسائل کا حقیقی ادراک اور ان کے حل کی کاوشیں ان تمام پہلوؤں کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔
ہمارے اکابر نے روز اول سے ہی ان تمام پہلوؤں پر توجہ دی ہے اور کسی پہلو کو بھی نظر انداز نہیں ہونے دیا، تحریک ریشمی رومال میں ہمارے اکابر نے اشتراک عمل کے لئے جرمنی اور روس تک اپنے وفود بھیجے اور ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے ساتھ بھی روابط قائم کئے اور ان سے داخلی مسائل میں تعاون طلب کیا۔
امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی کی تحریکی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انہوں نے بین الاقوامی تعلقات کار کی اہمیت کو سامنے رکھ کر حکمت عملی مرتب کی اور تحریک کو بھی اسی منہج پر آگے بڑھایا۔
جمعیۃ علماء اسلام نے بھی اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے خطے کے اندر موجود طاقتوں اور عالمی قوتوں کے ساتھ بامعنی روابط برقرار رکھے جس کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آئے۔ 2003ء میں پاکستان اور ہندوستان کے مابین شدید تلخی کے ماحول میں قائد جمعیۃ کا دورۂ ہندوستان امن کی نوید ثابت ہوا جسے قومی سطح پر سراہا گیا اور قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن کا بین الاقوامی کردار بھی سامنے آیا اور عالمی سطح پر ان کے قد کاٹھ میں بھی اضافہ ہوا۔
2002ء کے انتخابات کے بعد ایک بار ایسا ماحول بھی پیدا ہوا کہ انتخابات میں کامیابی کے باوجود ہمیں صوبائی حکومت سے محروم رکھنے کی باتیں ہونے لگیں قبل اس کے کہ یہ سازش روبہ عمل آتی ایم ایم اے پلیٹ فارم سے یورپی ممالک کے سفراء کی دعوت کی گئی جس میں ایم ایم اے کے تمام قائدین شریک ہوئے اور قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن نے ہی متکلم بن کر یورپی ممالک کو بریفنگ دی اور انہیں ایم ایم اے کے حق حکمرانی کے لئے قائل کیا جس کے بعد راستے ہموار ہوئے اور ہمیں حکومت قائم کرنے کا موقع ملا۔
ہماری قیادت کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ ہم مذاکرات اور ڈائیلاگ کے حامی ہیں اور اگر ہمیں موقع ملے تو ہم عالمی دنیا سے بھی اپنا موقف منوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں ایسے میں کارکنوں اور جماعتی احباب کو اپنی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے میدان عمل میں اپنا کردار بڑھانا ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اکثر بڑے ممالک میں جن لوگوں کا بطور پاکستانی سفیر تقرر کیا جاتا ہے وہ رہنمائی کے لئے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن کی خدمت میں حاضر بھی ہوتے ہیں اور حکمت و بصیرت اور سیاست و تدبر کے وہ بیش قیمت موتی لے کر جاتے ہیں جن سے ہماری ملکی سیاسی قیادت میں کم ہی لوگ مالامال ہیں۔
امریکا بین الاقوامی سطح پر ایک بڑی قوت تسلیم کیا جاتا ہے اس نے دنیا بھر میں مسلمانوں پر مظالم بھی روا رکھے جمعیۃ علماء اسلام نے ہمیشہ اس کے مظالم کی مذمت کی اس کے خلاف تحریکات چلائیں اور پاکستان کے عوام میں اس کے خلاف نفرت کے جذبات کا تلاطم برپا کیا یہی وجہ ہے کہ امریکا نے نوے کی دہائی کے بعد سے جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت کو کسی سیاسی یا سماجی عمل میں شرکت کے لئے امریکا کا ویزا تک جاری کرنے سے انکار کیا ہے۔ حتی کہ اپنی داڑھی اور پکڑے کا شملہ بلند رکھنے کے لئے جب ویزے کے اجراء کے لئے پگڑی اتارنے کا تقاضا کیا تو اپنی پگڑی اور داڑھی کا وقار بلند رکھا اور ان شرائط کو تسلیم کرنے سے انکار ہی کیا ہے۔
لیکن آج اگر امریکا اس تمام تر رویے سے باز آتا ہے بین الاقوامی امور اور خطے میں معاملات طے کرنے کے لئے جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت کو اعتماد میں لینا چاہتا ہے جس کے لئے پیش قدمی بھی اسی کی طرف سے کی گئی ہے اور پاکستان میں امریکی سفارتخانے کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی ہے تو جمعیۃ علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن کا ردعمل اس موقع پر بھی بالغ نظری پر مبنی ہے اور انہوں نے ثابت کیا ہے کہ جمعیۃ علماء اسلام وقت کے تقاضوں، قومی مصالح، دینی اور قومی ضرورتوں کا ادراک کرکے اپنے طرز عمل کا تعین کرتی ہے جو ہماری قیادت کا ہمیشہ سے طرہ امتیاز رہا ہے۔
ویسے بھی قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن کی بین الاقوامی امور میں مہارت کا اعتراف ان کے سیاسی مخالفین بھی کرتے ہیں اور سیاست کے ساتھ ساتھ سفارتی میدان میں بھی ان کی اہمیت مسلم ہے اس لئے آج اگر امریکی سفارتخانے کی تقریب میں انہیں دعوت دی جاتی ہے تو یہ ان کی سفارتی مہارت کا اعتراف اور سیاسی اہمیت کا عملی اقرار ہے جس سے جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت قومی اور سیاسی محاذ پر اپنے لئے اور دینی قوتوں کے لئے مزید جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی۔
علاوہ ازیں جب بھی کوئی طبقہ سیاسی عمل میں شریک ہوتا ہے اس کا مقصد اقتدار تک رسائی اور اپنے نظریے اور مشن کے مطابق معاشرے اور نظام حکومت کی تشکیل ہوتا ہے جس کے لئے میدان میں موجود تمام شریک کار داخلی طاقتوں کے ساتھ ساتھ خارجی طاقتوں کے ساتھ تعامل کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس کے ذریعے مشن و مقصد کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام نے بھی اس عمل کو آگے بڑھایا ہے جہاں ضرورت پڑی مظلوموں کی حمایت کے لئے آگے بڑھے اور جہاں ضرورت ہوئی اپنے سیاسی اور دینی ایجنڈے کو آگے بڑھایا اور یہ مشن اسی انداز سے آگے بڑھتا رہے گا۔ ان شاءاللہ
#teamjuiswat
https://www.teamjuiswat.com/2025/06/International-Relations-Jamiat-Ulema-Policy.html
❤️
👍
🙏
20