
JUI Updates
June 6, 2025 at 11:05 AM
*سیاست کا اصل جوہر: اصول پر استقامت، تعلقات میں وسعت*
*تحریر: ذکی اللہ سالار بنوی*
جب سیاست کو نظریے کا خادم اور سفارت کو حکمت کا آئینہ بنا دیا جائے، تو ایسے مناظر جنم لیتے ہیں جن میں شورِ بازار کے بجائے تدبّرِ کارواں بولتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی امریکی سفارت خانے کی تقریب میں شرکت بھی کچھ اسی نوعیت کا واقعہ ہے، جس پر بعض نادان دوستوں نے تنقید کا تیر چلایا مگر نشانہ حکمت کی دیوار پر جا لگا۔
جمعیة علماء اسلام، وہ قافلہ ہے جو اپنے نظریاتی خیمے کو اصولوں کے میخ پر باندھ کر بین الاقوامی افق پر خیمہ زن ہے۔ ایک ایسی جماعت جس کی پیشانی پر اسلامی تشخص، سیاسی استقامت، اور عالمی بصیرت کا تاج سجا ہے۔ جس نے نہ صرف قومی سطح پر اپنی مقبولیت کا سکہ جمایا بلکہ بین الاقوامی سفارتی بساط پر بھی اپنی موجودگی کا پرچم لہرایا۔
"امریکہ مخالف بیانیہ اور سفارتی ملاقات؟ تضاد نہیں، تدبر ہے!"
مخالفت اور ملاقات… بظاہر تضاد دکھائی دیتا ہے، مگر اصل میں یہ سیاست کا وہ کمال ہے جو "عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی درایت" اور "علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی فصاحت" کا مجموعہ ہے۔ وہ جو کہتے ہیں:
> "سیاست میں دشمنی بھی حکمت سے کی جاتی ہے، اور دوستی بھی نظریے کی چھاؤں میں پلتی ہے۔"
مولانا فضل الرحمن کا امریکی یومِ آزادی کی تقریب میں جانا، دراصل اس دعوت کا شائستہ جواب تھا جو امریکی ناظم الامور نے پیش کی تھی — اور یہ سفارتی رویہ بین الاقوامی آداب میں شائستگی، اور امت کے مقدمے کو اعلیٰ سطح پر اٹھانے کا ایک باوقار ذریعہ ہے۔
تو کیا مولانا امریکہ کے سامنے سرنگوں ہو گئے؟
نہیں! یہ وہی مولانا ہیں جنہوں نے اسلام آباد کی سرد راتوں میں "فلسطین کے حق" اور "صہیونی ظلم" کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی، جب اوروں کے لبوں پر خاموشی کی مہر تھی۔ یہ وہی قائد ہیں جنہوں نے "امریکی جبر" کو جلسوں، قراردادوں اور عالمی اسٹیج پر بےنقاب کیا — اور آج بھی ان کا مؤقف متزلزل نہیں، بلکہ سفارتی میدان میں مؤثر انداز سے جاری ہے۔
"کفار کی دعوت؟ سیرتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں جواب"
جو افراد تنقید میں نبی کریم ﷺ کی سنت کو فراموش کر بیٹھے، ان کے لیے چند حقائق:
عبداللہ بن ابی کی دعوت، جو منافقوں کا سردار تھا — نبی کریم ﷺ نے اسے قبول فرمایا؛
یہودی عورت نے زہر آلود گوشت پیش کیا، آپ ﷺ نے حکمت سے کھا کر ایک بڑی سازش بےنقاب کی؛
صلح حدیبیہ، کفار کے ساتھ بظاہر جھکاؤ، مگر نتیجہ میں اسلام کا دریا پھوٹ پڑا؛
دارالندوہ کی ملاقاتیں، دشمنوں سے بات چیت، مگر عزیمت پر کوئی آنچ نہیں آئی۔
تو کیا آج کے مولانا نے ان نبوی اصولوں پر چل کر، سفارتی ملاقات کو اصولی موقف کے فروغ کا ذریعہ نہیں بنایا؟
"اعتراض کرنے والوں کے نام…"
اے وہ لوگو جو صرف تصویر دیکھ کر فیصلے کرتے ہو! یاد رکھو:
> "تصویر فریم ہوتی ہے، تاریخ اس کے پیچھے کی روشنی!"
اگر سیاست تمہارے نزدیک صرف نعروں، تحریری جذبات، اور ویڈیوز کی مرہونِ منت ہے تو معذرت — تمہیں ابھی "فہمِ سیاست" کے دَر پر قدم رکھنا باقی ہے۔
مولانا کی شرکت کوئی معذرت نہیں، بلکہ امت مسلمہ کے درد کا بیانیہ دشمن کے ایوانوں تک پہنچانے کی حکمت ہے۔ وہاں موجودگی بذاتِ خود ایک اعلان ہے کہ "ہم آج بھی زندہ ہیں، جاگ رہے ہیں، اور تمہارے ظلم پر خاموش نہیں!"
"جمعیت کا اصولی بیانیہ: نہ بکنے والے، نہ جھکنے والے"
جمعیة علماء اسلام کا امریکہ مخالف مؤقف کوئی موسمی پرچم نہیں، جسے ہوا جدھر چلے ادھر لہرا دیا جائے — یہ وہ مشعل ہے جو امام الہند مولانا محمود الحسنؒ، مفتی محمودؒ، اور اب مولانا فضل الرحمن کی صورت جلتی چلی آئی ہے۔ ان حضرات نے کبھی کلمۂ حق کو مصلحت کی پوشاک نہ پہنائی، بلکہ ظلم کے ایوانوں میں حق کی صدا بلند کی۔
مولانا کی سفارتی حکمت وہی ہے جو امام ابو الحسن علی ندویؒ نے اپنے سفرناموں میں بیان کی:
> "اگر دشمن کی مجلس میں جا کر دین کی بات کہی جائے، تو وہ مجلس دین کی دعوت بن جاتی ہے۔"
---
نتیجہ: سیاست شعور سے ہوتی ہے، جذبات سے نہیں!
سیاست وہ نہیں جو سوشل میڈیا کی چیخ پکار سے متاثر ہو، بلکہ وہی ہے جو قوم کے وقار، نظریۂ اسلام، اور امت کے درد کو عالمی سطح پر لے جائے — بغیر کسی اصولی سمجھوتے کے۔
مولانا فضل الرحمن نے فہم، حکمت اور استقلال کا وہ چراغ جلایا ہے جو نہ صرف امت کو رہ دکھا رہا ہے، بلکہ دشمن کو بھی بتا رہا ہے کہ:
> "ہم اب بھی وہی ہیں — فلسطین کے وفادار، اسلام کے نگہدار، اور امریکہ کے سامنے بےدار!"
#teamjuiswat
https://www.teamjuiswat.com/2025/06/The-Essence-of-Politics-Persistence-in-Principles-Expansion-in-Relationships.html
❤️
👍
❤
❣️
💚
🤲
19