JUI Updates
JUI Updates
June 10, 2025 at 04:36 AM
*حکومت اور عوام کی غلامی کی کہانی* ✍🏻 *محمد اسامہ پسروری* “غلام ابن غلام” صرف کسی فرد کی بے بسی نہیں، بلکہ ایک پوری نسل کی ذہنی، سیاسی، اور معاشی محکومی کی داستان ہے۔ یہ زنجیریں کسی قید خانے میں نہیں، ہمارے ایوانوں، اداروں اور افکار میں گڑی ہوئی ہیں۔ آج جب ہم اپنے حکمرانوں کو دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خود بھی کسی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں ان کے فیصلے، ان کی پالیسیاں اور ان کی ترجیحات سب کسی بیرونی اشارے کی تابع دکھائی دیتی ہیں۔ یہ وہی حکمران ہیں جو عوام کے خادم کہلاتے ہیں، مگر ان کا جھکاؤ اپنی قوم کی طرف نہیں بلکہ ان قوتوں کی طرف ہوتا ہے جو ہمارے وسائل کو نوچنے، ہماری خودمختاری کو روندنے اور ہمارے فیصلوں کو خریدنے میں مصروف ہیں۔ وہ قوم جسے قیادت کی روشنی دکھائی جانی تھی، اندھیروں کی غلام بن گئی ہے۔ رہنما جب خود غلام ہو، تو قوم آزاد کیسے رہ سکتی ہے؟ یہ غلامی صرف سیاسی نہیں، بلکہ معیشت کی جڑوں سے جُڑی ہے، سماجی ڈھانچے میں پیوست ہے، اور ذہنی افق پر سائے کی طرح چھائی ہوئی ہے۔ ہماری معیشت سودی نظام کی غلام ہے، ہماری سیاست فنڈنگ کے وعدوں میں مقید، اور ہماری معاشرت مغربی سوچ کے زیرِ اثر اپنی شناخت کھو چکی ہے۔ فیصلے کسی دارالحکومت میں نہیں ہوتے، بلکہ اُن میزوں پر ہوتے ہیں جہاں ہماری غیرت اور خودداری بحث کا موضوع ہی نہیں۔ جب ملک کے وسائل مخصوص ٹولوں میں بٹ جائیں، جب قومی پالیسیوں میں غیر ملکی مفادات جھلکنے لگیں، اور جب داخلی سیاست صرف اقتدار کی بندربانٹ تک محدود ہو جائے، تو عوام کی حالت غلامی کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے؟ ان کی آواز دب جاتی ہے، ان کے خواب بے معنی ہو جاتے ہیں، اور ان کا مستقبل چند مہروں کے ہاتھ گروی رکھ دیا جاتا ہے۔ زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ غلامی مسلط نہیں کی گئی یہ ہمارا اپنا انتخاب ہے۔ ہم نے ان حکمرانوں کو خود چُنا، جو وعدوں کے بعد وعدہ خلافی کو معمول سمجھتے ہیں۔ جو اپنی قوم کے بجائے، اُن درباروں کی رضا جوئی میں لگے رہتے ہیں جہاں سے قرض، حمایت اور سیاسی پناہ کی امید ہوتی ہے۔ یہی شعوری غلامی سب سے خطرناک ہے: جو نہ زبردستی ہے، نہ عارضی بلکہ خود ساختہ ہے۔ آج کا “غلام ابن غلام” وہ ہے جو ظلم کو تقدیر مان چکا ہے، جو نظام سے بیزار تو ہے مگر سوال اٹھانے سے ڈرتا ہے، جس کے ذہن میں آزادی کا تصور بھی کسی جرم سے کم نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں قومیں دم توڑتی ہیں اور غلامی دائمی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اگر اس زنجیر کو توڑنا ہے تو آغاز حکومت سے ہوگا۔ اسے اپنی اصل سمت پہچاننی ہوگی، غیر ملکی سہاروں سے دستبردار ہونا ہوگا، اور عوام کے ساتھ مخلص ہونا ہوگا۔ جب حکمران آزاد فیصلے کریں گے، جب پالیسیوں میں ملکی مفاد مقدم ہوگا، تبھی ایک آزاد اور باوقار قوم کی بنیاد پڑے گی۔ *بصورتِ دیگر، "غلام ابن غلام" کا یہ تسلسل چلتا رہے گا نسلیں بدلیں گی، زنجیریں نہیں۔* #teamjuiswat https://www.teamjuiswat.com/2025/06/The-Story-of-the-Govt-and-the-Peoples-Slavery.html
❤️ 👍 😢 😭 13

Comments