JUI Updates
JUI Updates
June 14, 2025 at 02:14 AM
*جمعیۃ علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کراچی میں وفاقی وزیر سمندری امور قیصر شیخ کی رہائش گاہ پر استقبالیہ تقریب میں تاجروں اور صنعتکاروں سے خطاب* 13 جون 2025 میں شکر گزار ہوں شیخ قیصر صاحب کا، جنہوں نے میرے ساتھ جس محبت کا معاملہ کیا، جس احترام کا معاملہ کیا اللہ تعالی اس کا بدلہ ان کو دنیا اور آخرت میں عطاء فرمائے۔ ایک تو یہ ایک سیاسی جلسہ نہیں ہے،میرے اس کمیونٹی کے دوستوں کو انہوں نے دعوت ہے، مجھے بھی دعوت ہے، آپ سے ملاقات کا وہ ذریعہ بنے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ ہمارا اپنا ایک میدان ہے ہم اسی میدان میں محو رہتے ہیں ہمہ وقت اور بزنس کمیونٹی میں جب میں بات کرتا ہوں تو مجھے اندازہ نہیں ہوتا کہ میں ان کے ساتھ بات کیا کروں، کیسے کروں، لیکن بہرحال ایک طالب علم کی حیثیت سے میں نے جتنا دین اسلام کو سمجھا ایک ہے انسان کی ایک انفرادی زندگی، اس میں اس کا عقیدہ کیا ہے، اس کے اعمال کیا ہیں، اس کی عبادات کیا ہیں، وہ سب اپنی جگہ پہ لیکن مملکتی زندگی قومی اور ملی زندگی میں اسلام کی ترجیح دو باتیں، ایک امن اور ایک خوشحال معشیت، امن سے مراد انسانی حقوق کا تحفظ اور انسانی حقوق تین چیزوں کے گرد گھومتے ہیں انسان کی جان، انسان کا مال، انسان کی عزت و آبرو اور پوری دنیا میں جب قوانین بنتے ہیں تو ان تین پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے انسان کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازیاں ہوتی ہیں۔ دوسری چیز یہ کہ اس ملک کا اقتصاد بہتر ہونا چاہیے، اب ملکی اقتصاد کے حوالے سے ظاہر ہے میری گفتگو سند نہیں ہے وہاں آپ کی رائے اور آپ کی گفتگو سند ہوگی۔ کسی زمانے میں ہم بجٹ پاس کرتے تھے تو فری ٹیکس بجٹ بڑا قابل تحسین ہوتا تھا، اور آج وہ دن بھی دیکھا کہ جب ٹیکس پہ ٹیکس لگا کر اس بجٹ کو بھی قابل تحسین بنوایا جا رہا ہے، اب یہ فرق آپ نے طے کرنا ہے کہ جب ٹیکس فری بجٹ آتا تھا تو وہ قابل تحسین کیوں ہوا کرتا تھا اور آج ہر شعبے میں ہر سطح پر ٹیکسز کا بھرمار وہ کیوں قابل تحسین ہے، وہ دعویٰ صحیح تھا یا یہ دعویٰ صحیح ہے، شائد میری بات اس بارے میں کوئی اتھنٹک نہ ہو لیکن آپ کی بات بہرحال اس کو ایک سند کی حیثیت حاصل ہوگی۔ مہنگائی کے شرح بیس سال پہلے کیا تھی اور آج کیا ہے، افراط زر کی شرح تیس سال پہلے کیا تھی اور آج کیا ہے، جی ڈی پی گروتھ تیس سال پہلے کیا تھا آج کیا ہے۔ ہم نے خطے کو بھی سامنے رکھ کے دیکھنا ہے چائنہ کی جی ڈی پی کو بھی دیکھنا ہے، انڈیا کے جی ڈی پی کو بھی دیکھنا ہے، بنگلہ دیش کی جی ڈی پی کو بھی دیکھنا ہے، ایران کے جی ڈی پی کو بھی دیکھنا ہے، اور اس پورے خطے کے درمیان میں ایک پاکستان الگ ملک ہوگا کہ جہاں پوری دنیا اوپر جاتی ہے تو ہم نیچے جا رہے ہوتے ہیں ہم نے اس ملک میں منفی جی ڈی پی گروتھ بھی دیکھیں، کون ذمہ دار ہے اس کا، کیا ہم نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ اگر میں نے حکومت کرنی ہے تو میں نے عام غریب آدمی کی حالت کو دیکھ کر اپنی پالیسیاں بنانی ہوگی، اپنی ذات اور اپنے مفاد کی نفی کرنی ہوگی اور جب تک حکمران طبقہ اپنی ذات اور اپنے مفاد کی نفی نہیں کرے گا ملک کی معیشت کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ سکے گے، اگر ہم عام آدمی کو خوشحال نہیں کر سکتے تو ایک بزنس کمیونٹی ضرور وجود میں آ جائے گی وہ کارخانہ دار بھی ہوں گی وہ بہت بڑا، اب بزنس کمیونٹی اس کی اپنی ایک اہمیت ہے یعنی وہ ایک ملک کی معیشت کے لیے ریڑ کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس بزنس کمیونٹی کی ذمہ داری ہے کہ جتنا وہ کما رہے ہیں عام آدمی تک اس کی کمائی کے ثمرات کیا پہنچتے ہیں۔ اس کے نگرانی حکومت کو کرنی پڑتی ہے ہمارے ہاں کوئی نگرانی نہیں ہے، ہمارے ہاں بس صرف احتساب ہے اور احتساب اور صرف احتساب، بابا احتساب بعد میں ہوتا ہے اکتساب پہلے ہوتا ہے، پہلے اکتساب تو کرو، کچھ کماؤ تو سہی، اور جب ہمارے ملک کے لوگ کمانے پہ آجاتے ہیں تو ہم احتساب کے ادارے قائم کرتے ہیں اور جو کوئی تھوڑا سا ہمیں کمانے والا نظر اتا ہے جا کر اس پہ جھپٹتے ہے وہ ادارہ، اس کے فائلیں بناتے ہیں، ان کے کیس بناتے ہیں، ان کو بلیک میل کرتے ہیں، ان کو اپنے دفتر میں پیش کرتے ہیں اور نیب کا قانون آنے کے بعد آپ اس کا مطالعہ کریں جو اوریجنل اس کا قانون کا متن ہے اس کو پڑھنے کے بعد پاکستان کا ہر شہری پیدائشی مجرم ہے جب چاہے جس وقت چاہے ادارہ اس کو گرفتار کر لے اور بعد میں پھر اس نے صفائی دینی ہے کہ میں گنہگار ہوں یا نہیں، نتیجہ کیا نکلے گا کہ آخر ہماری بزنس کمیونٹی اپنا پیسہ باہر لے جائے گی جب اپنے ملک میں وہ اپنے آپ کو کاروبار میں محفوظ تصور نہیں کرے گا اس پر اپنے بچوں کا بھی بوجھ ہوگا، ملازمین کا بھی بوجھ ہوگا تو پیسہ باہر منتقل ہوگا اور میں ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے دعویٰ کر سکتا ہوں چاہے آپ مجھے انپڑھ سمجھیں اس کو کیا پتہ مولوی صاحب کو لیکن میں یہ سوچتا ہوں کہ مغربی دنیا اس کا نیٹ ورک پاکستان کی اور ترقی پذیر ممالک کی معیشت پر ان کی نظر، ترقی پذیر دنیا کی معیشت پر ان کی گرفت وہ صرف اس لیے ہے کہ ملک کے اندر کی کمیونٹی کو اتنا دباؤ میں رکھا جائے کہ پھر یہ اپنا پیسہ ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے ان کے ملکوں میں لے جا کر وہاں سرمایہ کاری کرے، پیسہ میرا، بزنس میرا، کمائی میری اور میرا پیسہ ان ملکوں میں جا کر وہاں پر گردش کرتا ہے وہاں سرمایہ کاری کر رہا ہے، وہ اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور میرا ملک غربت کے تہہ میں جا رہا ہے۔ تو ہم سمجھے کہ ہم آزاد نہیں ہیں، معاشی طور پر ہمیں غلام بنایا جا رہا ہے اور نو آبادیاتی نظام کہتے تو ہیں کہ ختم ہو گیا، جنگ عظیم دوئم کے بعد نو آبادیاتی نظام کا رواج نہیں رہا کہتے ہیں، یہاں انگریز کا نو آبادیاتی نظام تھا، کہیں فرانس کا نظام تھا، کہیں ڈچ قوم کا نو آبادیاتی نظام تھا، پوری دنیا غلام تھی اب وہ سمٹ گئے ہیں رواج ختم ہو گیا ہے لیکن اس کی جگہ لے لی ہے بین الاقوامی اداروں نے اور بین الاقوامی معاہدات نے، سو تین شعبے ہیں جو ان کے قبضے میں ہیں ہماری معیشت، اقتصاد اس پر بین الاقوامی اداروں کا ہولڈ ہے، ورلڈ بینک ہے ایشین بینک ہے قرضہ دینے والے بین الاقوامی گروپس ہیں، پیرس گروپ ہے لندن گروپ ہے، ائی ایم ایف ہے، ایف اے ٹی ایف ہے اور ان بین الاقوامی اداروں نے ہمیں کنٹرول کرنا ہے اور میں نے خود پارلیمنٹ کے اندر وہ دن دیکھے ہیں جب قانون سازی قانون کے ڈرافٹ کے پیچھے لکھا ہوتا تھا کہ یہ قانون سازی ہم ایف اے ٹی ایف کے کہنے پر کر رہے ہیں، اس قانون سازی کی وجہ کیا ہے اس لیے کہ ائی ایم ایف ہم سے یہ تقاضا کر رہا ہے۔ تو ہمارا اقتصاد بھی ان کے قبضے میں، انہوں نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ دوسرا شعبہ ہمارا سیاسی آئینی اور قانونی ہے اس کے لیے اقوام متحدہ ہے تو اس کے لیے سلامتی کونسل ہے تو اس کے لیے جنیوا انسانی حقوق کنونشن ہے اس قسم کے ادارے بن کے انسانی حقوق کے نام پر ایسے ایسے قوانین بین الاقوامی ادارے نافذ کرتے ہیں کہ میرے ملک کے اندر کا اپنا قانون اور میرے ملک کے اندر کا اپنا ائین یہاں غیر مؤثر اور ان کے قانون کے مطابق ہمیں زندگی گزارنی ہوتی ہے ورنہ ہم پر امداد بند کر دیا جاتا ہے۔ تو سیاسی لحاظ سے بھی ہم ان کے گرفت میں رہتے ہیں اور بین الاقوامی ادارے ہمیں کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں۔ دفاعی لحاظ سے بین الاقوامی معاہدات ہیں کبھی سی ٹی بی ٹی ہے، کبھی این پی ٹی ہے، کبھی کیا ہے اور کبھی کیا ہے، اور خود آج تک ان پر دستخط نہیں کر رہے لیکن ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ آپ اس پر دستخط کریں۔ فوج میری، اسلحہ میرا، میزائل میرے، ایٹم میرا، لیکن اس کے اختیار کا ان کے پاس ہوگا ہمارے پاس تو کوئی اختیار نہیں، ہمیں ان کے اختیار کے تحت چلنا ہوگا۔ تو دفاعی لحاظ سے ہو سیاسی لحاظ سے ہو اقتصادی لحاظ سے ہو آج بھی بین الاقوامی اداروں اور بین الاقوامی معاہدات کی رو سے ہم ان کی نو آبادیات ہیں، آج بھی ہم ان کے نو آبادیات سے باہر نہیں نکل سکتے۔ تو اس پہلو کو بھی ہم نے مد نظر رکھنا ہے کہ کیا آزادی کی جنگ مکمل ہو چکی ہے اور واقعی ہم آزاد ہے یا ہم نے ابھی بھی آزادی کی جدوجہد کو برقرار رکھنا ہے۔ اس کے لیے انقلابی سوچ کے لوگوں ہونے چاہیے۔ قوم پرست، وطن پرست لوگ ہونے چاہیے، پاکستان پرست لوگ ہونے چاہیے، مذہب کی رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے لیکن صرف مذہب کا نام لینا شاید ان معاملات کو طے کرنے کے لیے کافی نہ ہو، پوری دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ ہمیں کدھر جانا ہے۔ آپ نے مجھ جیسے ایک طالب علم کو بڑے اچھے خطابات سے نوازا میں اس کے لیے شکر گزار ہوں لیکن آپ کے حضور ایک بات کرنا چاہتا ہوں ایک شکایت کر لینا چاہتا ہوں۔جب سے پاکستان بنا ہے آپ لوگوں نے ایک نام سنا ہوگا دائرہ اختیار، لیکن اس دائرہ اختیار کے اوپر ایک اور دائرہ بھی ہے اور اس دائرے کو دائرہ اقتدار کہتے ہیں، اس دائرہ اقتدار کے اپنے کھلاڑی ہیں اور اس کے کھلاڑی جب سے پاکستان بنا ہے یا اسٹیبلشمنٹ ہے یا سول بیوروکریسی ہے یا جاگیر دار ہے اور پھر ضیاء الحق صاحب کے زمانے میں صنعت کار بھی اس میدان کا کھلاڑی بن کر سامنے ایا جو آپس میں طاقت کے ذریعے ایک دوسرے کو گراتے رہتے تھے اور پھر ایک وقت آیا جب صنعت کار اتنا طاقتور ہو گیا کہ اس نے ایک آرمی چیف کو بھی گھر بھیج دیا، اس نے ایک بیوروکریٹ غلام اسحاق خان کو بھی گھر بھیج دیا اس نے ایک جاگیردار فاروق لغاری کو بھی گھر بھیج دیا اور پھر ان تینوں قوتوں نے مل کر اس کو بھی گھر بھیج دیا، یہ ہے کھلاڑی، اس دائرے میں فضل الرحمن کی گنجائش ابھی پیدا نہیں ہوئی، آپ بزنس کمیونٹی ذرا اس کو بھی سوچیں نا، کہ جہاں اس فکر کے لوگ اس نظریے کے لوگ ان کو بھی کبھی آپ نے اقتدار کے اس دائرے میں داخل کرنا ہے یا نہیں، کیا ان کے تجربے ان کے سوچ ان کی نیک نیتی ملک کے ساتھ ان کی وفاداری کیا یہ بھی دائرے اقتدار میں کھیلنے کے قابل ہے یا نہیں یا کب ہوگا، یہ تو آپ نے سوچنا ہے۔ اس کو آپ نے اہمیت دینی ہے اور اگر آپ اہمیت دیں گے اس کو تو صحافت کی دنیا نے اس کو دنیا کے سامنے رکھنا ہے لیکن اگر آپ ہمیں کھیلنے کے قابل ہی نہیں سمجھتے تو پھر کیسے ہوگا، ملکی نظام کو بہتر کرنا ہے تو کچھ اقتدار پسندوں کو نہیں کچھ اصول پسندوں کو اور نظریہ پسندوں کو اس کھیل میں لانا پڑے گا، نظریاتی لوگ گھر بیٹھے ہیں پھر رو رہے ہیں نکل رہے ہیں اور مفاد پرست طبقہ ملک کو لوٹ رہا ہے اور پھر بھی بحث اسی میں ہے کہ اس کو ہونا چاہیے یا اس کو ہونا چاہیے ذرا اس کھیل سے باہر نکلنا ہے۔ اس ملک میں بہت نظریاتی لوگ ہیں جو خالص اصول اور نظریے کی بنیاد پر سوچتے ہیں، ملک کے لیے سوچتے ہیں قوم کے لیے سوچتے ہیں۔ اور ملکی خزانے سے ان کے اپنے کمانے کا کوئی ایجنڈا نہیں ہوتا، ایسے لوگوں کو کبھی آپ دہشت گرد کہتے ہیں، ان کو کبھی آپ شدت پسند کہتے ہیں، کبھی آپ انتہا پسند کہتے ہیں، کبھی آپ ان کو رجعت پسند کہتے ہیں، پتہ نہیں کیا کیا نام ان کے لیے دنیا میں تجویز کیں ہیں۔ تو الحمدللہ ایسی صورتحال میں ان ساری چیزوں پر آپ لوگوں کو غور کرنا ہوگا اور اس مجلس سے میں یہ فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں کہ آپ کے سامنے میں نے ایک سوال رکھ دیا ہے ایک دائرہ اختیار کے اگے دائرہ اقتدار کا نام آپ کو متعارف کرا دیا ہے اس کے کھلاڑی آپ کو بتا دیے ہیں اور ان کے معیارات آپ کو بتا دیے ہیں سو اس کی معیار کے مطابق اگر آپ کسی کو سمجھتے ہیں تو پھر جا کر بات کی جا سکتی ہے ورنہ زبانی ہم ایک دوسرے کو خوش کریں تو وہی بات ہوگی کہ بادشاہ نے کوئی مجلس بلائی اور بڑی زبردست مجلس جو موسیقی کی اور موسیقی کار کو انہوں نے بہت اعلیٰ انعام دینے کا فیصلہ کیا، ہفتہ گزر گیا مہینہ گزر گیا، انعام نہیں مل رہا، آخر وہ ایا اور اس نے کہا کہ جی میرا انعام کدھر ہے، اس نے کہا کون سا انعام، انہوں نے کہا یہ جو آپ نے میرے لیے اعلان کیا تھا اس نے کہا کہ بھئی آپ نے میرے کان خوش کیے تھے تو میں آپ کے کان خوش کر دیے، آپ بھی فارغ ہم بھی فارغ، صرف ایک دوسرے کے کان خوش کرنے کے لیے ہمیں بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ ملک کے نظام کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اس کی تبدیلیوں پہ سوچنا چاہیے اور تبدیلی بھی ایک نظریے کے تحت جو ملک کے اندر کے مفاد کو مدنظر رکھے، ہاں دنیا کو ہم جانتے ہیں کہ دنیا کے ساتھ کس طرح چلنا ہے لیکن اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر، مجھے شکایت ہے امریکہ سے بھی بڑی قوتوں سے بھی وہ ہمارے ملک کی ذخائر کے مالک بنتے ہیں ہمارے معدنی ذخائر کے مالک بنتے ہیں، میرے ساتھ میٹنگ تھی مجھے کہا کہ جی ہم پاکستان میں انویسٹمنٹ کرنا چاہتے ہیں، انویسٹمنٹ یہ تو ایسی ایک چیز ہے کہ امریکہ بھی بے نیاز نہیں ہو سکتا، اس کو بھی بیرونی انویسٹمنٹ کی ضرورت پڑتی ہے، یورپ کے ترقی یافتہ ملکوں کو بھی پڑتی ہے، چائنا کو بھی پڑتی ہے، تو پاکستان کتنا تگڑا ملک اگیا کہ ان کو بیرونی انویسٹمنٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن اصول ہونا چاہیے، آپ آئیں ملک کے ساتھ بات کریں اگر اس کا تعلق صوبائی خود مختاری سے ہے صوبے کے ساتھ بات کریں اور بین الاقوامی قوانین کے تحت معاہدات میں آئیں، آپ کا اپنا حصہ ہمارا اپنا حصہ، اسلام اس سے روکتا تو نہیں ہے اللہ رب العزت فرماتے ہیں، *نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا،* انسانی معاشرہ کس طرح جوڑا رکھا جا سکتا ہے، اللہ رب العزت نے فرمایا کہ دنیا کی زندگی میں معیشت کی تقسیم تو ہم نے کی ہے، یعنی دنیا میں اگر معاش تقسیم ہے انسانیت کے اندر تو اس کا نظام تو ہم نے دیا ہے اور ہم نے کچھ لوگوں کو کچھ پہ درجہ دے دیا ہے، کوئی بڑا آدمی کوئی چھوٹا آدمی، کوئی امیر آدمی کوئی غریب آدمی، اب امیر آدمی کے پاس دولت کی طاقت ہے اور غریب کے پاس محنت کی طاقت ہے، دولت مند غریب کی محنت کا محتاج ہے اور محنت کش دولت مند کے دولت کا محتاج ہے، یہ ضرورت ہمیں اکٹھا کر کے ایک دوسرے کو مسخر کرنے کے لیے ہیں، اگر سارے دولت مند ہوتے، بیٹھے رہتے، اگر سارے غریب ہوتے تو بھی بیٹھے رہتے، مختلف طبقات پیدا کیے اور ایک دوسرے کو محتاج بنایا اور محتاج بنا کر ایک دوسرے کے ساتھ معاہدے کرتے ہیں سو میں نے کہا کہ ریسورسز ہمارے پاس ہیں وسائل ہمارے پاس ہیں ٹیکنالوجی آپ کے پاس ہے آئیں آپ اپنی ٹیکنالوجی لائیں ہمارے ریسورسز ہوں گے سودا کرتے ہیں معاملات کو طے کرتے ہیں آپ کا کیا حصہ بنتا ہے ہمارا کیا حصہ بنتا ہے کون سی قباحت ہے اس میں، لیکن میرے ملک میں اکر میرے سمندروں کے مالک بھی آپ بن جائیں، سمندر کے تہہ کے مالک بھی آپ بن جائے، ریکوڈکٹ کے مالک بھی آپ بن جائیں، سنڈک کے مالک بھی آپ بن جائیں، وزیرستان کے معدنی ذخائر کے مالک بھی آپ بن جائیں اور اپنی قوم محروم اس کا کوئی اختیار نہ ہو اس کے اوپر، یہ نہیں ہوسکتا، ہم نے کون سی غلط بات کی ہے ہم نے کسی کی مفاد پر تو حملہ نہیں کیا، امریکہ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ میرے اور چائنہ کے دوستی کے اوپر اعتراض کرے کہ میں نے چائنہ کے ساتھ دوستی کر لیا تو میرا مفاد بھی ہوگا، سی پیک اگر ایا ہے تو پاکستان کا مفاد ہے اس کے اندر، تو اس کو میرے مفاد کا احترام کرنا چاہیے ہم ان کی مفادات کا احترام کرتے ہیں، کسی کی مفاد کے ہم دشمن نہیں ہیں لیکن پاکستان کو پراکسی جنگ کا حصہ نہیں بنانا، افغانستان کا کیا حشر کر دیا ان لوگوں نے، کہیں رشیا کہیں امریکہ کہیں ان کے مفادات، فوجیں داخل کر دی جنگیں ہو گئی آج تک جنگوں کا سلسلہ رک نہیں رہا۔ سو پاکستان ایک ایسی سرزمین ہے جس کو آج پورے ایشیا کا گیٹ وے کہا جا سکتا ہے اور اس کے اپنے مفادات ہیں، ہمارے مفادات کا احترام کیا جائے، آئے دنیا ہمارے ساتھ معاملات کرے، ہم دنیا کے ساتھ معاملات کرنے کو تیار ہیں۔سو یہ وہ ویژن ہے جو ہمارے ذہنوں میں ہے اور ممکن ہے ہم طالب علموں کے ذہن میں اس کا بہت مختصر نقشہ ہو آپ کی ہمیں اس پہ رہنمائی بھی چاہیے اور آپ کے ساتھ ان ملاقاتوں سے ہم جو ایک دوسرے کے ساتھ انگیجمنٹ کرتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کرتے ہیں ان رابطوں کا ہمیں ان حوالوں سے کوئی فائدہ اٹھانا چاہیے آپ کی ہمیں رہنمائی چاہیے اور آپ کی رہنمائی کا ہم خیر مقدم کریں گے۔ وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ ضبط تحریر: #سہیل_سہراب ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز #teamjuiswat https://www.teamjuiswat.com/2025/06/Maulana-addresses-traders-and-industrialists-at-a-reception-in-Karachi.html

Comments