
اردو سٹیٹس Urdu_Status
June 5, 2025 at 08:03 AM
*ہجومِ عاشقاں*
چاروں طرف تلبیہ کی گونج ہے، فلک سے نور برس رہا ہے، فضا مشکبار ہے، زبانیں ذکرِ الٰہی سے معطر ہیں اور قلوب جذبۂ ایمانی سے سرشار۔ آج خدائے واحد کے پجاری تہبند اور ازار میں لپٹے ہوئے میدانِ عرفات میں بیٹھے آنسوؤں کا سیلاب بہا رہے ہیں، اپنی فریادیں اسے سنارہے ہیں جو سن بھی رہا ہے، دیکھ بھی رہا ہے اور فریاد رسی بھی کررہا ہے۔ وہ دیکھیے! ایک دیوانہ دستِ دعا ہوا میں اٹھائے ہوئے دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے پروردگار کو پکار رہا ہے، اس سے کچھ مانگ رہا ہے۔ شاید یہ آنسو ندامت کے ہوں؟! نہیں! شاید یہ آنسو شکر کے ہوں؟! نہیں! شاید یہ آنسو حرم کی مقدس سرزمین پہ موجود ہونے کی خوشیوں کے ہوں؟! نہیں نہیں یہ آنسو ، ندامت کے بھی ہیں ان گناہوں کی ندامت پر جو دانستہ یا نادانستہ ہوئے۔ یہ آنسو شکر کے بھی ہیں اس نعمتِ عظمیٰ کا شکر جو خدا نے حجِ بیت اللہ کی شکل میں اسے عطا فرمائی۔ یہ آنسو خوشیوں کے بھی ہیں جو سرزمینِ حجاز پہ پاؤں رکھتے ہوئے بے اختیار دیوانوں کی آنکھوں سے جاری ہوجاتے ہیں، جو صاف و شفاف ہوتے ہیں۔ جو دل میں لگے سیاہ دھبے دھل دیتے ہیں۔ جو ہمارا وجود گناہوں کے بوجھ سے ہلکا کردیتے ہیں۔ دیکھیے اس طرف ایک اور دیوانہ کھڑا ہے اس نے بھی دستِ فریاد اٹھایا ہوا ہے لیکن اس کے لب ساکت ہیں، زبانِ حال میں بھی کوئی جنبش نہیں، خاموشی اس کے وجود پر طاری ہے۔ پھر اس نے دستِ فریاد کیوں دراز کیا ہے؟ کیا اس نے جو دعاؤں کی فہرست بنا کر لائی تھی وہ گم ہوگئی؟ یہ کچھ مانگ کیوں نہیں رہا؟ لیکن ذرا ٹھہریے! اس کی پلکوں پہ ٹھہری موتیاں کیسی ہیں؟ ذرا اس دیوانے کے قریب ہوتے ہیں۔ اس کے سینے سے یہ آواز کیسی اٹھ رہی ہے؟ ذرا رکیے! یہ تو تضرع کی آواز ہے! یہ تو تلبیہ و تہلیل کی صدائیں اس کے سینے میں گونج رہی ہیں! اچھا تو اس مجنون نے اپنا تعلق براہ راست سننے والے سے بنا رکھا ہے؟! جو خاموشی کی زبان بھی سنتا ہے، جو گونگوں کی فریاد رسی بھی کرتا ہے، جو بیک وقت اپنے تمام مخلوقات کی دعائیں سننے پر قادر ہے۔ یہاں اپنی سانسیں ذرا روکیے! میرا قلم دورِ نبوت میں پلٹ رہا ہے۔ سرور الکونین کا خیمہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مسجد نمرہ کے قریب نصب کردیا ہے اور آپﷺ اب خیمے سے نکل کر خطبے کے لیے بطنِ وادی میں تشریف لارہے ہیں۔ آپﷺ اپنی اونٹنی قصوا پہ سوار ہیں اور سامنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کا ایک لاکھ سے زیادہ مجمع گوش بر آواز ہے۔ آج آپﷺ تاریخ کا وہ عظیم ترین خطبہ دے رہے ہیں جس کا حرف حرف صداقت سے مزین ہے۔
دو جہان کے سردار نے بات شروع کی:
اے لوگو! میری بات غور سے سنو! شاید اس سال کے بعد پھر تم سے یہاں ملاقات نہ ہوسکے۔ میرا قلم یہاں پہ گریہ کا وہ سماں باندھنا چاہتا ہے جو اس جملے کو سننے کے بعد صحابہ کرام کی آنکھوں نے زار و قطار کیا ہوگا۔ ایک لمحے کو صحابہ نے اپنا دل تھاما ہوگا کہ شاید مجبوب سے جدائی کا وقت قریب ہے۔
آگے آپﷺ نے ارشاد فرمایا: "آج میں نے زمانۂ جاہلیت کے تمام رسومات اپنے قدموں تلے روند دیے ہیں۔"
اور خطبہ کے اختتام پہ آپ نے مجمع سے کہا: اے لوگو! کیا میں نے تم تک ٹھیک ٹھیک دین نہیں پہنچا دیا؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بیک زبان ہوکر کہا: بلی! یا رسول اللہﷺ۔ آپ نے نظر مبارک سوئے فلک اٹھائی اور تین دفعہ کہا اے اللہ تو بھی گواہ رہنا تو بھی گواہ رہنا۔ یہ روح پرور منظر بھی چشمِ فلک نے کبھی دیکھا تھا اور آج بھی اس کے در پہ ہجومِ عاشقاں نیازِ جبین خم کیے کھڑا ہے اور تاقیامت نیاز مندی و گریہ زاری کا یہ منظر دنیا دیکھتی رہے گی۔
*بقلم: طارق وجدان*

❤️
😢
👍
30