⭕CITY CHANNEL 🌐🇵🇰
⭕CITY CHANNEL 🌐🇵🇰
June 13, 2025 at 04:37 PM
ایران، اسرائیل یک طرفہ جنگ! کراچی کی بندرگاہ پر قبضہ ہوگیا، پاکستانی آرمی چیف کو گرفتار کر لیا گیا، پاکستانی ائیر فورس کو تہس نہس کر دیا گیا. آج سے ایک ماہ قبل جن بھارتی لطیفوں پر ہم لوگ میمز بناتے تھے، وہ کوئی اتنے زیادہ لطیفے نہیں تھے کہ آج کی ایران، اسرائیل جنگ میں ہم ان لطیفوں کو کربناک حقیقتوں بدلتے دیکھ رہے ہیں، ایران کا ٹاپ ملٹری براس بطخوں کی طرح مارا گیا ہے. ورلڈ وائڈ ریسلنگ مقابلوں کی طرح ایران کو رسوں میں گھیر لیا گیا ہے اور چاروں طرف سے تابڑ توڑ حملے جاری ہیں. عالمی طاقت کی شطرنج پر، ایک اصول اٹل ہے: کمزوری موت کو دعوت دیتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے اپنی بقا کی ضمانت دوسروں کے وعدوں یا بین الاقوامی اداروں کے کھوکھلے نعروں پر رکھی، اس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہ ہوا۔ آج ایران پر اسرائیل کے حملے صرف ایک فوجی کارروائی نہیں، بلکہ اسی تلخ حقیقت کا ایک اور باب ہیں، ایک ایسا سبق جسے نظر انداز کرنے کی قیمت ناقابل تصور ہے۔ اسرائیل نے امریکی آشیرباد اور چند مسلمان ممالک کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے ایران کی جوہری اور میزائل تنصیبات پر حملہ کیا۔ یہ حملہ ایران کی صلاحیت کو مفلوج کرنے، اس کی قیادت کو ختم کرنے اور اسے ایک ایسی جنگ میں دھکیلنے کی کوشش ہے جو وہ شاید لڑنا نہیں چاہتا۔ ایران کا ردعمل، جسے وہ "اسٹریٹجک تحمل" کا نام دے رہا ہے، ایک ایسا خطرناک جوا ہے جس کی قیمت بہت بھاری پڑ سکتی ہے۔ اس خاموشی کے پیچھے چاہے کوئی بھی حکمت عملی ہو، دنیا کو صرف ایک پیغام جا رہا ہے: ایران اس وقت براہ راست جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس کے نام نہاد اتحادی—روس اور چین—محض تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ وعدے تو بہت ہوئے، لیکن جب ایران کو Su-35 طیاروں کی ضرورت پڑی تو آسمان خالی تھا اور جب عالمی حمایت درکار ہوئی تو الفاظ کے سوا کچھ نہ ملا۔ طاقت کے اکھاڑ میں آپ تنہا ہوتے ہیں۔ آپ کے دوست اور اتحادی صرف اس وقت تک ہیں جب تک آپ کے مفادات ان کے مفادات سے جڑے ہیں۔ امتحان کے وقت، ہر کوئی اپنی بساط بچاتا ہے۔ عبرت کی وہ مثالیں جنہیں بھلایا نہیں جا سکتا آج ایران جس دوراہے پر کھڑا ہے، اس سے پہلے دو ممالک گزر چکے ہیں اور ان کا انجام رہتی دنیا تک ایک مثال بن چکا ہے لیبیا کا راستہ: کرنل قذافی نے مغرب کے ساتھ مفاہمت کا راستہ چنا۔ اپنا جوہری پروگرام ترک کر دیا، عالمی برادری میں واپسی کے خواب دیکھے۔ نتیجہ کیا نکلا؟ جب ملک اندرونی طور پر کمزور ہوا تو انہی مغربی طاقتوں نے اس پر حملہ کر دیا، اور قذافی کو رسوائی اور موت کا سامنا کرنا پڑا. لیبیا آج تک ایک ناکام ریاست ہے۔ عراق کا راستہ: عراق کو کیمیائی ہتھیاروں کے بہانے تباہ و برباد کر دیا گیا۔ اس کی دفاعی صلاحیتیں ختم کر دی گئیں اور پھر اسے تہس نہس کر کے ایک ایسی آگ میں جھونک دیا گیا جو آج تک نہیں بجھی۔ لیبیا اور عراق نے اپنی بقا کی حتمی ضمانت کھو دی تھی، اور دنیا نے دیکھا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ ایران آج اسی راستے پر چلتا دکھائی دے رہا ہے، جہاں وہ عالمی طاقتوں سے مذاکرات اور معاہدوں کے ذریعے اپنی بقا تلاش کر رہا ہے، جبکہ اس کی فوجی اور نظریاتی طاقت کو منظم طریقے سے کمزور کیا جا رہا ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں پاکستان کی کہانی ان سب سے مختلف ہو جاتی ہے۔ لیبیا، عراق اور آج کے ایران کو دیکھ کر ایک حقیقت سورج کی طرح روشن ہو جاتی ہے: پاکستان کا ایٹمی پروگرام صرف ایک دفاعی ہتھیار نہیں، یہ ہماری بقا کی واحد وارنٹی ہے۔ یہ ہماری خودمختاری کا وہ قفل ہے جس کی چابی صرف ہمارے پاس ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو دشمن کو کسی بھی جارحیت سے پہلے ہزار بار سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر آج پاکستان اپنے قدموں پر کھڑا ہے، اگر آج اس کی سرحدیں محفوظ ہیں، اور اگر آج دشمن اسے براہ راست آنکھ دکھانے کی جرات نہیں کرتا، تو اس کی واحد وجہ یہی ایٹمی صلاحیت ہے۔ دنیا کمزور کی نہیں سنتی، وہ طاقت کی زبان سمجھتی ہے۔ یہ سبق ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ کیونکہ جس دن ہم نے یہ سبق بھلا دیا، ہماری داستان بھی تاریخ کی کتابوں میں ایک اور عبرت کا باب بن کر رہ جائے گی۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اس کی سلامتی کا ضامن ہے، اور اس ضمانت پر کوئی سمجھوتہ خودکشی کے مترادف ہوگا۔ وزیر اعظم بھٹو سے لے کر آج تک جس جس نے بھی اس پروگرام کو آگے بڑھایا، اس کو سلام، ورنہ آج ہم صرف اختر لاوا کی طرح بڑھکیں لگانے جوگے رہ جاتے.
👍 ❤️ 😢 😂 🙏 73

Comments