Muhasin e islam☑️ محاسن اسلام JAMIAT ULAMA Darul Uloom Deoband Urdu News TV Islamic Status WhatsApp
Muhasin e islam☑️ محاسن اسلام JAMIAT ULAMA Darul Uloom Deoband Urdu News TV Islamic Status WhatsApp
June 11, 2025 at 07:23 AM
*شریف مکہ کی زندگی کا آخری زمانہ* _انگریزوں کی وفاداری کے بھیانک انجام کی ایک دل خراش داستان_ علی ہلال شریف مکہ حسین بن علی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے لیے سلطنت عثمانیہ کے آخری گورنر تھے۔ دونوں مقدس شہروں کی نسبت کے پیش نظر سلطنت عثمانیہ میں حجاز کے گورنر کے لئے گونر حاکم کے بجائے شریف کا لقب مقرر تھا۔ اس منصب کے لئے ہاشمی خاندان کے اشراف ہی میں سے کسی کا انتخاب کیا جاتا تھا ۔ حسین بن علی کا تعلق بھی ہاشمی خاندان سے تھا۔ لیکن بدقسمتی یہ تھی شریف مکہ مصر میں برطانوی ہائی کمشنر سر ہنری مکماہون نے خط وکتابت کا سلسلہ شروع کیا۔ شریف مکہ کو انگریزوں نے سہانے خواب دکھائے۔ ان کے ساتھ عرب کی بادشاہت کا وعدہ کیا۔ برطانیہ اور فرانس کے دھوکے میں آکر شریف مکہ نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف عرب قبائل کو اکسا کر گریٹر عرب ریولیوشن کی فضا ہموار کی۔ جس کے نتیجے میں جزیرہ نمائے عرب کے نجد اور حجاز میں سلطنت عثمانیہ کا سقوط ہوگیا۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ عربوں کو اکسانے کے صلے میں شریف حسین کو برطانیہ کی جانب سے جو مراعات دی جارہی تھیں وہ برطانیہ کی جنگوں کا سب سے کم حجم تھا۔ مارچ 1917ء میں برطانوی ایلچی نے اپنے ایک خط میں ان مراعات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شریف حسین کے بیٹے شہزادہ فیصل کو ماہانہ 40 ہزار پاونڈ دئے جاتے تھے ۔ شہزادہ عبداللہ 30 ہزار پاؤنڈ ۔ شہزادہ علی 20 ہزار پاؤنڈ ۔ شہزادہ زید 20 ہزار پاؤنڈ ۔جبکہ مکہ کی حکومت کو 15 ہزار پاؤنڈ رقم دی جارہی تھی۔ باؤنس کی شکل میں ماہانہ 2 لاکھ پاؤنڈ کی رقم اس کے علاؤہ تھی۔ اپریل 1918ء تا مارچ 1919ء کے دوران شریف مکہ کو انگریزوں سے 2.5 ملین پاؤنڈ ملے تھے۔ راشن اور راتب اس کے علاؤہ تھا۔ ایک ہزار بوری آٹا۔ ایک ہزار بوری چاول۔ 60 بوری قہوہ۔ 30 کلو چینی اور گھوڑوں کے لئے 500 بوری جو دیا جاتا تھا ۔ لارنس آف عربیہ اپنی دستاویزات میں لکھتے ہیں کہ برطانوی راج کو سب سے کم اخراجات پر سب سے بڑا فایدہ جس جنگی مہم میں ہوا ہے وہ گریٹر عرب بغاوت ہے۔ ان لوگوں نے ایسے اخلاص اور تندہی کے ساتھ کام کیا تھا جیسا کہ وہ انگریزی فوج کے ہی ملازم ہوں۔ https://whatsapp.com/channel/0029Va4QMKPJJhzdQU3Ws81b لارنس کے مطابق برطانیہ کو سلطنت عثمانیہ کے سقوط کے لئے عرب خطے میں صرف 10 ملین پاؤنڈز خرچ کرنا پڑے تھے۔ جو پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے صرف ایک دن کا خرچہ تھا۔ یعنی برطانیہ نے عراق، اردن، فلسطین ، القدس اور خلافت اسلامیہ کو صرف ایک دن کے خرچے پر کنٹرول میں لے کر اپنی مرضی اور منصوبے کے مطابق تقسیم کیا۔ 1924ء میں کمال اتا ترک نے خلافت عثمانیہ کے باقاعدہ سقوط اور خاتمے کا اعلان کیا۔ تو شریف حسین نے خود کو عربوں کے بادشاہ کے طور پر مقرر کرنے کا اعلان کردیا۔ کیونکہ ان کے ساتھ برطانیہ نے خلافت کے سقوط میں تعاون کے بعد انہیں بادشاہ مقرر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم اعلان کے فوری بعد برطانیہ نے اس کی مخالفت کی۔ کیونکہ برطانیہ سلطنت عثمانیہ کو راستے سے ہٹانے کے بعد مسلمانوں کی کسی دوسری خلافت کے قیام کا خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ برطانیہ نے شریف حسین کے دوسرے حریفوں کے ساتھ بات چیت کرکے انہیں تعاون دینا شروع کردیا۔ جس پر شریف حسین مایوس ہو کر مشرقی اردن چلے گئے جہاں ان کے بیٹے عبداللہ کی امارت قائم تھی۔ شریف کا خیال تھا کہ وہ برطانیہ کے خلاف عربوں کو جمع کرکے دباؤ ڈال کر اپنے خوابوں کو جامہ پہنا سکیں گے۔ لیکن برطانیہ نے ایسا ہونے نہیں دیا۔ برٹش انتظامیہ نے شریف حسین کو اردن سے جلاوطن کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے بیٹے عبداللہ کو بھی من وعن انگریز کا فیصلہ ماننا پڑا۔ اور انجام کار اس بوڑھے ہاشمی کو قبرص جلاوطن کیا گیا جس نے انگریز کی بے لوث خدمت کرکے سلطنت عثمانیہ کے سقوط میں مرکزی رول ادا کرنے کے لئے نام وننگ اور عزت وناموس تک کی قربانیاں دی تھیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھی انہوں نے قبرص(کیپرس)کے جزیرے میں اپنی بقیہ زندگی بڑی تنگ دستی اور عسرت کے ساتھ گزاری۔ زید بن الحسین اپنی یادداشت میں لکھتے ہیں : شہزادہ فیصل اپنے والد کو ماہانہ اتنا کم وظیفہ بھیجتے تھے جس سے بڑی مشکل سے ان کی ضروریات پوری ہوتی تھیں۔ وظیفہ میں تاخیر بھی ہوجاتی تھی جس کے بعد شریف حسین بغداد کو تار روانہ کرکے وجہ تاخیر کے بارے استفسار کرتے تھے۔ ادھر قبرص میں ضعیف العمر حسین بن علی کو سودا سلف دینے والا دکاندار ادائیگی کے بغیر سودا دینا بند کردیتا تھا۔ جس پر حسین کو قبرص کے گورنر کے پاس اس اسٹور کیپرکو لیکر جانا پڑتا تھا۔ انگریز گورنر سے بغداد سے حوالہ آنے تک قرض مانگتے تھے۔ زید بن الحسین لکھتے ہیں کہ گورنر شریف حسین کو ذلت کا احساس دلانے کے لئے پہلے تو انہیں آفس کے باہر دیر تک انتظار کرواتے تھے ۔ اور اندر آنے کی اجازت دینے کے بعد ان سے قرض کا سن کر ضمانت مانگتے تھے۔ ایک بار جب ہر اسرا ختم ہوا تو شریف حسین انگریز گورنر سے قرض لینے کے لئے انہیں اپنا سونے سے آراستہ قیمتی رواتی عرب خنجر پیش کردیا۔ انگریز گورنر اس قیمتی خنجر کو لیکر کچھ دیر تک ہاتھ میں گھماتے رہے اور پھر بڑی رعونت کے ساتھ ایک سائیڈ پر بے رغبتی کے ساتھ رکھتے ہوئے کہا کہ اس کی کیا حیثیت رہ گئی ہے۔ اس تذلیل کے بعد اپنے اکاؤنٹنٹ کو بلایا اور شریف حسین کو مطلوبہ رقم دینے کی ہدایت کردی۔ کہتے ہیں کہ شریف حسین کے لئے یہ بے عزتی غیر معمولی ثابت ہوئی اور وہ اس کی تاب نہیں لاسکے۔ ان کے ہاتھوں پر رعشہ طاری ہوگیا۔ اور ہونٹ کانپنے لگے ۔ وہ بڑی مشکل سے بے جان وجود کو کھینچتے ہوئے گھر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے لیکن پہنچتے ہی ان کے دماغ کی شریانیں پھٹ گئیں ۔انہیں بیہوشی کے عالم میں 21 نومبر 1930ء کو اردنی دارالحکومت عمان لایا گیا جہاں پر 4 جون 1931 ء کو وہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے چلے گئے ۔
👍 ❤️ 😢 🫵 13

Comments