
عجیب وغریب
June 2, 2025 at 06:12 PM
*صفر کا موجد کون تھا؟*
ایک طالب علم جو روس میں زیرِ تعلیم ہے، بیان کرتا ہے:
روس میں اکثر امتحانات کے لیے بلند ترین درجہ بندی "5" ہے۔ اگر کوئی طالب علم کسی سوال کا جواب نہ دے اور اپنا پرچہ بالکل خالی لوٹا دے، تو بھی اسے پانچ میں سے "2" نمبر دیے جاتے ہیں۔
جب میں نے ماسکو یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا، تو اس نظام سے ناواقف تھا۔ مجھے سخت حیرت ہوئی، اور میں نے ڈاکٹر تئودور مدراف سے پوچھا:
"کیا یہ انصاف ہے کہ کوئی طالب علم جو ایک بھی سوال کا جواب نہ دے، اسے آپ ۲ نمبر دیتے ہیں؟ آپ اسے صفر کیوں نہیں دیتے؟ کیا یہ درست طریقہ ہے؟"
انہوں نے جواب دیا:
"ہم کسی انسان کو صفر کیسے دے سکتے ہیں؟
ہم کیسے اس طالب علم کو صفر دے سکتے ہیں جس نے صبح سات بجے بیدار ہو کر تمام لیکچرز میں شرکت کی؟
ہم کیسے اس کو صفر دیں، جب کہ وہ سخت سردی میں، عوامی ٹرانسپورٹ استعمال کر کے وقت پر امتحان گاہ پہنچا اور کوشش کی کہ سوالات حل کرے؟
ہم اس کی ان راتوں کو کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں جو اس نے تعلیم کی نذر کیں، اپنی آمدنی سے کاپی قلم خریدے، مطالعہ کے لیے کمپیوٹر لیا؟
ہم اس کو صفر کیسے دیں، جب کہ اس نے زندگی کی دیگر آسائشیں چھوڑ کر طالب علمی کی راہ اپنائی تاکہ وہ اپنے علم کو آگے بڑھا سکے؟
بیٹا! ہم صرف اس وجہ سے کہ اس نے جوابات نہیں دیے، اسے صفر نہیں دیتے۔
ہم کم از کم اس حقیقت کا احترام کرتے ہیں کہ وہ ایک انسان ہے۔ اس کے پاس عقل، شعور اور سوچنے کی صلاحیت ہے۔ اس نے کوشش کی، سعی کی۔ ہمارا یہ نمبر صرف سوالات کے جواب کا عکاس نہیں بلکہ اس انسان کی سعی کی قدردانی کا اظہار ہے۔
یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ انسان، انسان ہے، اور وہ کسی نہ کسی درجہ میں مقام اور نمرے کا مستحق ہے۔
میں یہ سن کر بے اختیار رو پڑا، اور میرے پاس جواب دینے کو کوئی لفظ نہ رہا۔
اسی لمحے میں نے پہلی بار *اپنی انسانی قدر* کو محسوس کیا۔
واقعہ یہ ہے کہ "صفر" کا عدد طالب علم کے حوصلے پست کر دیتا ہے۔ وہ فوراً شکست خوردگی کا شکار ہو سکتا ہے اور علم سے مکمل کنارہ کشی کر سکتا ہے۔
جب کسی کی کارکردگی پر "صفر" کا داغ لگ جائے، تو اس کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔ وہ خود کو ناکارہ سمجھنے لگتا ہے اور یہ خیال اسے جکڑ لیتا ہے کہ وہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں۔
یہ پیغام ہر معلم، ہر استاد اور ہر وہ فرد جو تعلیم و تربیت میں کوئی کردار ادا کرتا ہے، تک ضرور پہنچنا چاہیے:
آیئے! ہم دوبارہ غور کریں کہ ہم اپنے طالب علموں کو کس پیمانے سے پرکھتے ہیں۔۔۔
ہر انسان، خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو، اپنی زندگی کے مقصد کے لیے مشقت کرتا ہے:
مثلاً ایک خاتون خانہ کھانے پکانے کے لیے کوشش کرتی ہے،
ایک باپ گھر کا خرچ چلانے کے لیے،
مزدور اور ملازم اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لیے،
سب اپنی بساط بھر محنت کرتے ہیں۔
اگر ان کی کوششیں مطلوبہ معیار پر پوری نہ بھی اتریں تو یہ بے انصافی ہوگی کہ ہم ان کی محنت کو بالکل نظرانداز کر دیں۔
👍
1