عجیب وغریب
عجیب وغریب
June 8, 2025 at 07:14 PM
امریکہ کی ایک سرد اور خاموش جیل کی کوٹھری میں ایک عورت بیٹھتی ہے جس کا چہرہ زرد اور آنکھیں بجھی ہوئی ہیں وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے اس طرح دیکھتی ہے جیسے کسی ایسے آنے والے کا انتظار کر رہی ہو جو کبھی آئے گا ہی نہیں یا شاید سب یہی سمجھتے تھے اس کا نام ہیلن تھا ایک عورت جسے انیس سو ستر کی دہائی میں ایک قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا ہوئی حالانکہ اس نے وہ قتل کیا ہی نہیں تھا وہ صرف چھببیس برس کی تھی اور اس کا واحد جرم یہ تھا کہ وہ غلط وقت پر غلط جگہ موجود تھی اس کا وکیل نااہل تھا اور عدالت انصاف سے خالی ثبوت بھی واضح نہیں تھے لیکن جیوری نے اس کے خلاف فیصلہ دیا اور عدالت نے اسے عمر بھر کے لیے جیل بھیج دیا مگر اصل سانحہ تب شروع ہوا جب فیصلے کے دن اس کے شیر خوار بچے کو اس سے چھین لیا گیا اسے حتی کہ رخصت کرنے کی بھی اجازت نہ دی گئی اور اس کے پاس صرف بچے کی ایک پرانی تصویر اور دل میں جلتی ہوئی یاد رہ گئی جو ہر رات اسے جلاتی تھی سال گزرتے گئے جیسے ہر دن اس کی روح کو کاٹتا رہا مگر ایک چیز تھی جو ختم نہ ہو سکی وہ تھی امید ہر سال وہ اپنے بیٹے کی سالگرہ پر ایک خط لکھتی وہ نہیں جانتی تھی وہ خط کہاں بھیجے اس لیے وہ خط ایک لوہے کے پرانے صندوق میں رکھ دیتی جو اس کی کوٹھری کے نیچے تھا چالیس سال چالیس خطوط مگر ایک جواب بھی نہ آیا جیل کے کرب کے باوجود ہیلن نے خود کو زندہ رکھا وہ قیدی نہ رہی وہ استاد بن گئی جاہل عورتوں کو پڑھاتی دل شکستہ خواتین کو تسلی دیتی اپنی کہانی سناتی امید دیتی وہ سب اسے ماں کہہ کر پکارتے تھے ماما ہیلن دو ہزار انیس میں جب وہ سمجھنے لگی تھی کہ اس کی زندگی کا اختتام قریب ہے ایک انسانی حقوق کی تنظیم نے اس کی پرانی فائل کھولنے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہیں کچھ ایسی دستاویزات ملیں جن میں مقدمے کی کاروائی میں واضح تضاد پایا گیا جدید ڈی این اے ٹیسٹ اور شواہد کے نئے معائنے سے ثابت ہوا کہ اصل قاتل کوئی اور شخص تھا جسے کبھی گرفتار ہی نہیں کیا گیا اور یوں تینتالیس سال بعد عدالت نے اعلان کیا کہ ہیلن بے قصور ہے ہیلن جب جیل سے نکلی تو اس کی عمر ستر برس تھی دنیا بدل چکی تھی وہ گلیاں جو وہ پہچانتی تھی غائب ہو چکی تھیں موبائل فون اب سمارٹ ہو چکے تھے مگر ایک چیز نہ بدلی وہ تھا اس کا دل جو آج بھی اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہا تھا رضاکاروں نے اس کی مدد سے تلاش شروع کی اور کچھ ہفتوں بعد اس کا بیٹا مل گیا وہ ایک انجینئر تھا اور سمجھتا تھا کہ اس کی ماں برسوں پہلے انتقال کر چکی ہے جب ماں بیٹے کی ملاقات ایک باغ میں کروائی گئی تو ہیلن آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس کی طرف بڑھی اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں جبکہ بیٹا حیرت سے کھڑا تھا جیسے یقین نہ آئے مگر جب ماں نے پہلی بار اسے پکارا تو اسے کوئی ثبوت نہ چاہیے تھا اس نے ماں کو گلے لگا لیا اور کہا میں بچپن سے اس گلے کا خواب دیکھ رہا تھا حالانکہ میں تمہیں جانتا بھی نہیں تھا آج ہیلن اپنے بیٹے اور پوتے پوتیوں کے ساتھ رہتی ہے وہ جیلوں اور یونیورسٹیوں میں اپنی کہانی سناتی ہے روتی نہیں سناتی ہے تاکہ دوسروں کو امید دے وہ اکثر کہتی ہے میرا جسم تینتالیس برس قید رہا مگر میری روح کبھی قید نہ ہوئی کیونکہ وہ ایک ملاقات کا انتظار کرتی رہی اسلامی سبق قرآن میں ارشاد ہے ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین یقینا اللہ نیک لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دعا مومن کا ہتھیار ہے سبق زندگی میں کب کون سی آزمائش آ جائے کوئی نہیں جانتا اس لیے ہر وقت اللہ تعالی سے دعا مانگتے رہو کبھی ماں کی دعا قید کو توڑ دیتی ہے اور کبھی صبر کا پھل برسوں بعد ملتا ہے مگر ملتا ضرور ہے
Image from عجیب وغریب: امریکہ کی ایک سرد اور خاموش جیل کی کوٹھری میں ایک عورت بیٹھتی ہے جس کا...

Comments