Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
May 24, 2025 at 07:51 AM
_*"احتسابِ نفس:زوال سے عروج کی سمت:ایک مطالعہ"*_ ✍️ _*توقیر بدر القاسمی الازہری*_ گزشتہ دنوں راقم ایک دینی مجلس میں شریک بلکہ اس کا ایک حصہ تھا۔ وہاں ایک ایسے نوجوان سے ملاقات ہویی ،جو باتوں سے نہ تو زیادہ پڑھا لکھا لگا،نہ حلیہ انکا کسی ملا یا مسٹر کا پتا دیے رہا تھا۔البتہ ذاتی مطالعہ اور تبلیغ کی محنت سے "معاشرے میں پھیلی عوامی و علمی انتشار و ابتری اور احادیث کی روشنی میں اس کا علاج" اسکی فکر و کڑھن اور دل و دماغ میں بن رہے منصوبے کا خلاصہ تھا۔ انہوں نے راقم کو اسی موضوع پر بیان کرنے کا پابند بنایا اور کہا موقع ملے تو ان نکات کو قلم بند بھی ضرور کیجیے گا۔ آج اسٹاک مارکیٹ آف off تھا، تو فرصت پاکر سوچا اس نوجوان کی خواہش کا احترام ضرور کیا جایے۔ ____ قارئین عظام! الفاظ کی دنیا میں کچھ صدائیں ایسی ہوتی ہیں جو دل کو چھو لیتی ہیں، اور کچھ مفاہیم ایسے ہوتے ہیں جو اقوام کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں اگر کوئی پیغام ایسا ہے جو فطرتِ انسانی کی رہنمائی کرتا ہے، تو وہ کلامِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، جو نہ صرف فرد کی اصلاح کا ذریعہ ہے، بلکہ قوموں کی فلاح و بہبود کا منبع و سرچشمہ بھی۔ زمانۂ جدید کے شور و ہنگامہ، سائنسی ترقیات، اور تہذیبی تصادم کے درمیان جب امت مسلمہ اپنی حالت پر نظر ڈالتی ہے، تو وہ لمحۂ فکریہ ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اندر سے آواز آرہی ہو کہ کیا ہم نے اپنی اصل کو کھو دیا؟ کیا ہمارے زوال کا سبب صرف خارجی سازشیں ہیں یا داخلی غفلتیں بھی ان میں شامل ہیں؟ کیا ہماری دینی میراث، بالخصوص حدیثِ رسول، ہماری زندگیوں میں محض نصابی مواد بن چکی ہے؟ دراصل یہی وہ سوالات ہیں، جو احتسابِ نفس کے دروازے کھولتے ہیں۔ *حدیثِ رسول:سرچشمۂ ہدایت و حکمت* اہل علم پر یہ نکتہ مخفی نہیں،کہ قرآنِ کریم کے بعد اگر کسی چیز کو حجت، دلیل، اور شارع کا درجہ حاصل ہے تو وہ حدیثِ رسول ہے۔ احادیث نبویہ فقط الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ ان میں حیاتِ انسانی کے ہر گوشے کے لیے ہدایت، حکمت، اور بصیرت پوشیدہ ہے۔ چناچہ آقا صلّی اللہ علیہ وسلم نے جہاں "علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین" فرمایا، وہیں اس بابت ایک سرخ لکیر بھی کھینچ دی "من عمل عملاً لیس علیه أمرنا فهو ردٌّ" (مسلم) (جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے طریقے کے مطابق نہ ہو، وہ مردود ہے۔) مذکورہ احادیث اپنے اندر دین کی تبلیغ و تطہیر کا وہ اصولی تصور رکھتی ہے جو آج بھی جدید دینی تحریکوں کے لیے proper guide و رہنما ہے۔ یہ فقہ، اصولِ فقہ، اور اسلامی شریعت کے لیے ایک بنیاد ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ عمل کی مقبولیت، سنتِ نبوی کی پیروی پر ہی موقوف ہے۔ *احتسابِ نفس:زوال سے عروج کی راہ کا سفر* حدیث نبوی میں آیا: "حاسِبوا أنفسكم قبل أن تُحاسَبوا" (اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔) یہ حدیث ہمیں خود شناسی، خود احتسابی، اور ذاتی تطہیر کی دعوت دیتی ہے۔ جو قوم فرد کے محاسبے سے غافل ہو جائے، وہ اجتماعی انحطاط کی طرف بڑھتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اب یہ عنصر مفقود ہوتا جارہا ہے۔ ہم دوسروں کی غلطیاں تو گنواتے ہیں،مگر خود کو آئینہ دکھانے سے ڈرتے ہیں۔ *فقہی تبصرہ:حدیث اور اجتہاد کی ہم آہنگی* اسلامی فقہ کی عمارت دو ستونوں پر قائم ہے:قرآن اور حدیث۔فقہاے اسلام نے حدیث کو صرف روایتی انداز میں نقل نہ کیا،بلکہ اس سے استنباط، اجتہاد، اور استدلال کا در بھی کھولا۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا ہے: "كل ما حكم به رسول الله فهو مما فهمه من القرآن."دیکھے (الرسالہ) (رسول اللہ کا ہر فیصلہ قرآن ہی کے فہم پر مبنی ہوتا ہے۔) مگر آج جب ہم "فقہ" پر نظر ڈالتے ہیں، تو دو انتہاؤں سے واسطہ پڑتا ہے:ایک طرف جامد تقلید، دوسری طرف بے قاعدہ تجدید! ان دونوں کے بیچ ایک متوازن راہ، سنت اور اجتہاد کی ہم آہنگی ہے،جس کی مثال ہمیں سیرتِ صحابہ میں ملتی ہے۔ *عمرانی پہلو:امت کا اجتماعی شعور اور اس کا زوال* دنیا جانتی ہے کہ اسلام ہی ایک ایسا دین ہے، جس کی بنیاد صرف انفرادی طہارت پر نہیں،بلکہ اجتماعی تطہیر اور سماجی انصاف پر بھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت جہاں ایک ایک فرد کی اصلاح کے لیے تھی، وہیں ایک مثالی معاشرہ کے قیام کے لیے بھی تھی —ایسا معاشرہ جو عدل، اخوت، مساوات، اور شرافتِ انسانی کا مظہر ہو۔ اس مثالی معاشرے کی بنیاد مندرجہ ذیل پہلو سے نمایاں ہوتی رہی۔ (1)معاشرتی تنظیم: حدیث: "المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضاً." (مومن، دوسرے مومن کے لیے دیوار کی مانند ہے جو ایک دوسرے کو سہارا دیتا ہے۔) یہ حدیث عمرانیات کا وہ اصولی تصور دیتی ہے،جس میں سماج کو ایک جاندار اکائی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔جب سماج کے افراد ایک دوسرے کے لیے سہارا بن جائیں، تبھی وہ سماج پنپتا ہے،مگر آج ہم نے اس رشتۂ اخوت کو ذاتی مفادات، نسلی تعصبات، اور فرقہ وارانہ تقسیم و تفریق کے سپرد کر دیا ہے۔ (2) سماجی نابرابری اور حدیث کی تعلیمات: اسلامی معاشرہ رنگ، نسل، قوم اور زبان کی بنیاد پر امتیاز کو رد کرتا ہے۔ "لا فضل لعربي على أعجمي إلا بالتقوى." مگر آج مسلم دنیا کے اکثر معاشروں میں سماجی نابرابری شدید صورت اختیار کر چکی ہے۔ طبقاتی تفریق و علاقائی تقسیم ،لسانی و لونی امتیاز اور جات پات کے رنگ ڈھنگ نے اسلامی مساوات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ ملازمت، شادی، تعلیم، اور عزت و عظمت کے پیمانے اب حلم و علم ،عدل و تقویٰ کے بجائے دولت اور حسب و نسب بن چکے ہیں۔ یہی وہ سماجی انحراف ہے جو اب اجتماعی زوال کی علامت بن چکا ہے۔ (3)شہری ذمہ داری اور مدنی شعور: حدیث: "كلكم راعٍ وكلكم مسؤولٌ عن رعيته." یہ حدیث شہری ذمہ داری کا عالمگیر منشور ہے۔ایک سماج تب ہی ترقی کرتا ہے جب ہر فرد اپنی اجتماعی ذمہ داری کو سمجھتا ہو، مگر آج ہم صرف حقوق کے طالب ہیں، فرائض سے فرار چاہتے ہیں۔حکومت سے شکوہ کرتے ہیں،مگر خود اخلاقی و سماجی نظم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ہم ووٹ تو ڈالتے ہیں، مگر احتساب کے نظام سے یکسر نابلد و ناواقف ہیں۔ (4)تمدنی زوال کے اسباب: ابن خلدون جیسے ماہر عمرانیات کے نزدیک تمدن کا زوال اس وقت شروع ہوتا ہے جب: الف:لوگ عیش پرستی میں مبتلا ہو جائیں۔ ب:اجتماعی نظم بکھر جائے۔ ج: انصاف و اتحاد کی جگہ ذاتی مفاد نے لے لی ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی اسباب کا قبل از وقت سدباب کیا: الف:صبر و قناعت کو فروغ دیا۔ ب:زکٰوۃ کے ذریعے دولت کی تقسیم کا عملی نظام قائم کیا۔ ج:نفاق اور خود غرضی کے خلاف ج ہاد کو فرض قرار دیا۔ پر افسوس آج ہم ان تمام تعلیمات کو بھلا چکے ہیں، اور یہی وہ عمرانی بگاڑ ہے ،جو ہمیں تمدنی موت کی طرف دھکیل رہا ہے۔ (5) سوشیالوجی میں "Collective Conscience" اور اسلامی شعور: جدید مطالعہ و عصری تحقیق کے متوالے کیلیے عرض ہے ۔ سوشیالوجسٹ ایمیل دورکائم کے مطابق ایک معاشرہ اُس وقت تک برقرار رہتا ہے، جب تک اس کا اجتماعی ضمیر (Collective Conscience) زندہ ہو۔ اسلام میں یہی "اجتماعی ضمیر" امر بالمعروف اور نہی عن المنکر" کی صورت میں موجود ہے۔ "من رأى منكم منكراً فليغيره بيده. الخ" (تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے، اسے ہاتھ سے روکے.) یہ حدیث ہمیں ایک فعال سماجی کردار کی دعوت دیتی ہے۔ پر افسوس کے ساتھ یہ اعترف کرنا پڑ رہا ہے کہ آج ہمارا رویہ تماشائی بن چکا ہے، ہم برائیوں کو دیکھ کر بھی اپنے مفاد و مقام کے دائرے میں رہ کر خاموش رہتے ہیں۔ یوں سماجی و اجتماعی خاموشی "سوشیا لوجیکل سائلنس" نے ہمارے معاشروں کو آج اخلاقی پستی میں دھکیل دیا ہے۔ بہر حال اب بھی ہم یہ کرسکتے ہیں! *اجتماعی شعور:ملتِ اسلامیہ کا آئینہ بنے* حدیثِ نبوی کا ایک اہم پہلو اجتماعی شعور کو بیدار کرنا رہا ہے۔ "من لا يهتم بأمر المسلمين فليس منهم" (جو مسلمانوں کے معاملات سے بے پروا ہو وہ ان میں سے نہیں۔) یہ ایک تنبیہ ہے اور ایک صدا بھی۔ ہم نے اپنے ذاتی مفادات کو قومی مقاصد پر ترجیح دی۔ ہماری مساجد بھر گئیں، مگر صفیں اتحاد سے خالی رہ گئیں؛ہم نے وظیفے اپنائے،مگر مقصد فراموش کر دیا۔ ایک ملت جو اجتماعی شعور سے محروم ہو، اس کا مقدر تنزلی کے سوا کچھ نہیں۔ *ترقی و تنزلی:سائنسی و سماجی توجیہات* (1) سائنسی زاویہ: دنیا کی اقوام جب سائنسی اصولوں پر زندگی گزارتی ہیں تو ترقی کرتی ہیں۔ مسلمانوں کے ابتدائی عہد میں تجربہ، مشاہدہ، اور علم کی ترویج سنتِ نبوی سمجھی جاتی تھی،مگر آج ہم سائنسی تفکر کو مغربی تہذیب کا طعنہ سمجھتے ہیں۔ آقا صلّی اللہ و علیہ و سلم نے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تربیت یوں کی تھی: "أنتم أعلم بأمر دنياكم" (تم دنیا کے معاملات میں مجھ سے زیادہ جاننے والے ہو۔) یہ تربیتی ہدایت دراصل ایک عظیم علمی اصول ہے،کہ دینی و دنیاوی علوم میں تفریق نہیں، بلکہ تخصیص ہے۔ آج اگر ہم نے سائنس کو دین سے جدا نہ کیا ہوتا، تو آج ہم علم، تحقیق، اور ترقی میں بھی اقوامِ عالم کے رہنما ہوتے۔ (2) سماجی زاویہ: سماج تب ہی ترقی کرتا ہے جب اس کی بنیاد عدل، مساوات، اور اخلاق پر ہو۔ مگر آج ہمارا معاشرہ طبقاتی تقسیم، نسلی امتیاز، اور مفاد پرستی و عہدہ طلبی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ حدیث: "انما اهلك الذين قبلكم انهم كانوا اذا سرق فيهم الشريف تركوه و اذا سرق فيهم الضعيف اقاموا عليه الحد." (تم سے پہلے کی قومیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ وہ طاقتور کو چھوڑ دیتے اور کمزور پر حد جاری کرتے۔) آج ہمارا عدالتی، تعلیمی، تنظیمی اور معاشی نظام بھی اسی بیماری میں مبتلا ہے۔ ترقی محض انفرااسٹرکچر سے نہیں، بلکہ اخلاقی و سماجی عدل سے آتی ہے۔ *نئی نسل اور حدیث کا رشتہ* حدیث کا تعلق صرف مدارس یا علماء سے نہیں، بلکہ یہ ہر فرد، ہر طالبعلم، ہر پروفیشنل کی زندگی کا مرکز ہونا چاہیے۔ مگر آج کی نسل سوشل میڈیا کے طوفان میں ایسی گم ہوئی ہے کہ حدیث کی روشنی اسے اجنبی لگتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے، کہ ہم احادیث کو جدید تعلیمی نظام کا حصہ بنائیں، ان کے مقاصد کو زندگی سے ہم آہنگ کریں، اور نوجوانوں کو بتائیں کہ سنتِ نبوی صرف تابناک ماضی کی کہانی نہیں، یہ مضبوط حال کی رہنمائی اور روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ *خلاصہ مدعا:* حدیثِ رسول فقط الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ وہ حیاتِ نو کی کنجی ہے۔ اگر ہم سنجیدگی سے احتسابِ نفس کریں، اجتماعی شعور بیدار کریں، فقہی و علمی بصیرت سے کام لیں، اور سائنسی و سماجی ترقی کے اصولوں کو اپنا لیں، تو زوال کو عروج میں بدلا جا سکتا ہے۔ امت مسلمہ کو آج جس رہنمائی کی ضرورت ہے، وہ نہ صرف قرآنی تعلیمات میں ہے، بلکہ حدیثِ رسول کی روشنی میں ایک عملی، فکری، اور متوازن نظامِ زندگی میں بھی موجود ہے۔ شاعر کیا خوب کہا ہے: ہر ابتدا سے پہلے ہر انتہا کے بعد ذات نبی بلند ہے ذات خدا کے بعد --- حوالہ جات: 1.صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ 2.صحیح مسلم، کتاب القضاء 3.امام شافعی، الرسالہ 4.ابن خلدون، مقدمہ 5.مولانا شبلی نعمانی، سیرۃ النبی 6.ڈاکٹر محمد حمید اللہ، خطبات بہاولپور 7.علامہ اقبال، تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ 8.معاصر سوشیالوجی و پالیسی مطالعات =========== ڈائیریکٹر المرکز العلمی للافتاء والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا. 24/05/2025 [email protected] +918789554895

Comments