
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
May 18, 2025 at 07:42 PM
چراغ فکر(یومیہ)
﴿سلسلہ نمبر:،١٠٧﴾
جامعہ فیضانِ اجمیری، نالا سوپارہ ویسٹ کا سالانہ اجلاسِ عام اور تقریبِ ختمِ بخاری شریف
✍️ شاہ امان اللہ ندوی
ادارہ طیبہ
ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ
نالا سوپارہ علم و عرفان کے جبال کا مرکز بھی ہے اور اہلِ علم کی آماجگاہ بھی، یہاں ایسے جلیل القدر علماء قیام پذیر ہیں جو نہ صرف اپنے مقام و مرتبہ میں بلند ہیں، بلکہ علمی، دینی، ملی اور قومی خدمات میں بھی نمایاں اور قابلِ تقلید ہیں۔
اس کی جھلک اس وقت اور بھی نمایاں ہوجاتی ہے جب کسی دینی اجتماع یا اجلاس میں یہ تمام ہستیاں یکجا ہوتی ہیں، وہ منظر بڑا ہی روح پرور اور کیف انگیز ہوتا ہے، جیسے ہی مدرسے کا نام میرے کانوں سے ٹکراتا ہے، میرے دل و دماغ میں ایک خوشبو سی پھیل جاتی ہے، کیونکہ یہی وہ مقدس علمی میکدہ ہے جہاں تشنگانِ علم کو حقیقت کے جام سے سیراب کیا جاتا ہے، اس میکدے کے ساقی کوئی اور نہیں بلکہ اصحابِ علم و تقویٰ ہوتے ہیں، اور یہ میکدہ درحقیقت مدارسِ دینیہ ہوتے ہیں۔
جامعہ فیضانِ اجمیری نالا سوپارہ ویسٹ بھی ایک ایسا ہی فیض بخش ادارہ ہے جہاں انسان کو انسانیت، اور آدمی کو آدمیت کا شعور بخشا جاتا ہے، یہاں سے معرفتِ حق کا چراغ جلایا جاتا ہے، جس کی روشنی قلوب و اذہان کو منور کرتی ہے، اور قبر کی تاریکیوں میں بھی اُجالا بکھیرتی ہے۔
اسی گلشنِ علم و عرفان کے سالانہ اجلاسِ عام اور تقریبِ ختمِ بخاری شریف میں شرکت کا شرف مجھے حاصل ہوا، یہ میرے لیے سعادت و خوش بختی کی بات ہے،دو روز قبل جناب مولانا مفتی نثار صاحب قاسمی اور جناب مولانا عابد زاہد صاحب قاسمی، جو جامعہ کے موقر اساتذۂ حدیث و فقہ میں شمار ہوتے ہیں، بنفسِ نفیس میرے ادارہ ادارہ طیبہ ہنومان نگر تشریف لائے اور نہایت محبت و اخلاص سے مجھے دعوت دی،ان دونوں بزرگوں کی یہ عنایت اور محبت میرے جیسے بے سرو سامان کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے، اللہ تعالیٰ ان کی محبت و خلوص کو میرے حق میں باقی و دائم رکھے، آمین۔
میں نے وعدہ کیا کہ ان شاءاللہ شرکت یقینی ہوگی، اور وعدے کے مطابق جب میں جامعہ پہنچا تو استقبال پر خلوص و محبت کی ایک خوبصورت تصویر نظر آئی، جناب مفتی فیض الاسلام صاحب (امام و خطیب، مسجد وازہ محلہ)، حضرت مولانا مفتی ابوالکلام صاحب مظاہری(امام و خطیب شکر محلہ مسجد )
اور جامعہ کی ریڑھ کی ہڈی مولانا مفتی عابد زاہد صاحب قاسمی و مفتی نثار صاحب ،یہ تمام حضرات مہمانوں کا نہایت تپاک سے استقبال فرما رہے تھے۔
اسٹیج پر مجھے بھی بٹھایا گیا،پروگرام شروع ہوچکا تھا، ایک طالب علم عربی زبان میں خطابی انداز میں نہایت فصیح و بلیغ تقریر کر رہا تھا، جبکہ نظامت کے فرائض اشرف العلوم کے استاد جناب مولانا طیب صاحب بحسن و خوبی انجام دے رہے تھے۔
اس کے بعد اردو زبان میں سوشل میڈیا کے مثبت و منفی اثرات پر تین طلبہ نے ایک مؤثر مکالمہ پیش کیا، جسے سامعین نے دل چسپی سے سنا، پھر جمعیۃ علماء مہاراشٹرا کے بزرگ رہنما حضرت مولانا عبد السبحان صاحب قاسمی دامت برکاتہم نے اصلاحِ معاشرہ کے موضوع پر درد بھرا اور بصیرت افروز خطاب فرمایا۔
بعد ازاں خطبۂ استقبالیہ پیش کیا گیا، جس میں جامعہ کے قیام، اس کے اغراض و مقاصد اور اب تک کے علمی و تعلیمی سفر کا تفصیل سے ذکر کیا گیا، پھر جامعہ کے ایک استادِ تجوید نے جامعہ کی خدمات پر مشتمل ایک خوب صورت نظم دل کش آواز میں پیش کی۔
پروگرام کی روحانی معراج اس وقت آئی جب قطبِ طریقت، عارف باللہ حضرت مولانا قاری عبد الرشید صاحب دامت برکاتہم (گجرات) نے ختمِ بخاری کی تقریب کو رونق بخشی، طالب علم نے صحیح بخاری کی آخری حدیث کی قراءت کی، جس پر حضرت نے نہایت عالمانہ، وقیع اور پر مغز خطاب فرمایا اور اختتام پر دعاء کرائی۔
تعجب اور مسرت کی بات یہ ہے کہ جس شخصیت نے خطبۂ استقبالیہ پیش فرمایا اور جس نے بخاری شریف کی آخری حدیث کی عبارت خوانی کی، وہ جامعہ فیضانِ اجمیری کے وہی ہونہار طالب علم ہیں، جو ایک ممتاز وکیل بھی ہیں، یہ سب کچھ محض رسمی یا نمائشی نہیں تھا، بلکہ ایک عظیم پدرانہ خواب کی تعبیر اور ایک باوقار جدوجہد کا حسین ثمرہ تھا۔
انہوں نے خود بتایا کہ یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ ان کے والد کی دلی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا حافظِ قرآن اور عالمِ دین بنے، اگرچہ ان کے والد گرامی لاک ڈاؤن کے دوران اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے، مگر ان کے فرزندِ ارجمند نے اپنے مرحوم والد کی دیرینہ آرزو کو اس انداز سے پورا کیا کہ نہ صرف ہمیں بلکہ شاید آسمان کو بھی رشک آتا ہو!
اور حقیقت یہ ہے کہ ان کی اس علمی، روحانی اور عملی بلندی کے پس پردہ جہاں جامعہ کے اساتذہ کی مخلصانہ محنت، تربیتی حکمت و حکمت عملی کارفرما ہے، وہیں اس میں عارف باللہ حضرت مولانا قاری عبد الرشید صاحب دامت برکاتہم کی روحانی سرپرستی اور بصیرت افروز رہنمائی کا خاص دخل ہے،آپ نہایت علمی، فکری اور روحانی شخصیت کے مالک ہیں، آپ نے صحیح بخاری کی آخری حدیث پر جو خطاب فرمایا، وہ ایک پرمغز علمی اور فکری خطبہ تھا، جس میں بہت سی دقیق نکات اور تمثیلی حقائق کو نہایت خوبصورتی سے واضح فرمایا۔
آپ نے حدیث کے تحت "وزنِ اعمال" کے موضوع پر تفصیل سے کلام کرتے ہوئے سوال اٹھایا "عمل غیر مرئی (نظر نہ آنے والی چیز) ہے، تو قیامت کے دن اس کا وزن کیسے ہوگا؟"
اس کا نہایت دلنشیں اور مؤثر جواب دیا"پھول نظر آتا ہے، خوشبو نظر نہیں آتی، مگر خوشبو کا اثر اور وجود دونوں قائم ہیں۔ اسی طرح عمل بھی بظاہر نظر نہیں آتا، لیکن اس کی حقیقت، اس کا وزن اور اس کا اثر باقی رہتا ہے۔"
آپ نے فرمایا کہ آج کی سائنس نے بھی غیر مرئی اشیاء کا وزن معلوم کر کے ہمیں یہ سمجھا دیا ہے کہ،بخار کا وزن ناپا جا سکتا ہے،شوگر کی مقدار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،اور دیگر کئی ایسی اشیاء جو نظر نہیں آتیں، ان کا بھی وزن معلوم کیا جا سکتا ہے،تو جب انسان کا بنایا ہوا نظام یہ سب کچھ کر سکتا ہے، تو کیا ہمارا خالق، جو قادرِ مطلق ہے، اعمال کو تولنے پر قادر نہیں ہوگا؟ یقیناً ہوگا۔
آپ نے فرمایاکہ "اللہ تعالیٰ اعمال کو جسد (جسم) عطا فرما دے گا، ان کو قابلِ رؤیت شکل دی جائے گی۔"
جیسا کہ قرآن مجید اور نماز کو بھی قیامت میں مجسم شکل عطا کی جائے گی، ویسے ہی دیگر اعمال کو بھی صورت دی جائے گی۔ اس کی مثال دیتے ہوئے فرمایا "جس شخص کے پاس زکوٰۃ کا نصاب موجود ہوگا مگر وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرے گا، قیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں اس کے گلے کا طوق بنایا جائے گا۔" یعنی عمل کو شکل عطا کر دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے،آپ نے مزید فرمایا کہ ہمیں "شکل" اور "جسد" میں فرق اور غور کرنا ہوگا، کیونکہ بعض اعمال کو تمثیلی شکل دی جائے گی، بعض کو تعبیر کے پیرائے میں پیش کیا جائے گا۔
آپ نے فرمایا،بعض روایات میں ہے کہ نامۂ اعمال کو تولا جائے گا،بعض میں کہ خود عمل کو تولا جائے گا،اور بعض میں ہے کہ صاحبِ عمل کو تولا جائے گا۔
آخر میں آپ نے فرمایا "اخلاص عمل میں وزن پیدا کر دیتا ہے۔"اخلاص ہی عمل کی روح ہے،اگر اخلاص نہ ہو، تو بڑے بڑے اعمال بھی وزن سے خالی ہو سکتے ہیں، اور اگر اخلاص ہو تو چھوٹے سے عمل کا وزن پہاڑوں سے بڑھ جاتا ہے۔
اسی طرح کی بے شمار علمی، فکری، ایمانی اور اخروی بصیرت سے بھرپور نکات حضرت نے اپنے خطاب میں ارشاد فرمائے، جو دل کو گرما گئے، عقل کو جلا بخشے اور ایمان کو تازگی عطا فرمائی۔
اللہ تعالیٰ جامعہ فیضانِ اجمیری کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے، اور اسے علم و عمل کا ایسا مرکز بنائے جہاں سے ہمیشہ روشنی پھیلتی رہے۔
(سرحدی عقاب)