
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
May 24, 2025 at 01:13 PM
چراغ فکر(یومیہ)
﴿سلسلہ نمبر:،١١٠﴾
امیدوں کے بجھتے چراغ
(نشہ: وقتی سکون، دائمی تباہی)
✍️ شاہ امان اللہ ندوی
ادارہ طیبہ
ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ
آج کا نوجوان جو کسی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ، امیدوں کا چراغ اور مستقبل کا معمار سمجھا جاتا ہے، وہ نشے جیسے خوفناک دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے، یہ محض ایک جسمانی بیماری نہیں بلکہ ایک فکری، اخلاقی، اور روحانی زوال کی علامت بن چکی ہے، اس رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ بیماری تعلیمی اداروں، مذہبی گھرانوں، اور حتیٰ کہ باشعور طبقے میں بھی سرایت کر چکی ہے۔
نشہ ایک ایسا زہر ہے جو انسان کے شعور، عقل، ارادے اور عزت کو آہستہ آہستہ مفلوج کر دیتا ہے، یہ شراب، گانجا، چرس، سگریٹ، نشیلی گولیاں، نشہ آور انجیکشن، یا آج کل کی زبان میں "ڈرگس" کی صورت میں ہو سکتا ہے،آغاز صرف تفریحاً یا دوستوں کے کہنے پر ہوتا ہے، مگر انجام تباہی، بربادی اور رسوائی ہوتا ہے۔
اس خطرناک رجحان کے پیچھے کئی اسباب کارفرما ہیں،سب سے پہلا سبب غلط صحبت ہے۔ "صحبت صالح ترا صالح کند" ایک اٹل حقیقت ہے،نشہ کرنے والے دوست انسان کو رفتہ رفتہ اسی راستے پر لے جاتے ہیں،دوسرا سبب گھریلو لاپروائی ہے، ماں باپ کی غیر موجودگی، آپسی جھگڑے یا سختی نوجوان کو جذباتی خلاء میں دھکیل دیتے ہیں،تعلیمی نظام کی بے روحی بھی ایک بڑا سبب ہے، جہاں نصاب میں اخلاقیات، روحانیت اور کردار سازی کا شدید فقدان ہے، میڈیا اور سوشل میڈیا بھی اس زہر کو فیشن بنا کر پیش کرتے ہیں، اور نوجوان اسی فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں، بے روزگاری، معاشی دباؤ اور مستقبل کی بے یقینی بھی نوجوانوں کو اس پستی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔
نشے کے نتائج نہایت ہولناک ہوتے ہیں،جسمانی طور پر انسان بیمار ہو جاتا ہے، جگر، دماغ اور پھیپھڑے ناکارہ ہو جاتے ہیں، ذہنی سطح پر ڈیپریشن، چڑچڑاپن اور خودکشی تک کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے، اخلاقی اعتبار سے انسان جھوٹ، چوری، بدتمیزی اور مجرمانہ ذہنیت کا شکار ہو جاتا ہے، دینی طور پر نماز، قرآن اور والدین کا ادب سب کچھ چھن جاتا ہے، سماجی اعتبار سے نوجوان تنہا ہو جاتا ہے، خاندان اور سماج سے کٹ جاتا ہے، اور رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
اس تباہی سے بچنے کے لیے علاج بھی ضروری ہے، سب سے پہلا علاج دینی تربیت ہے،بچوں کے دل میں خوفِ خدا اور محبتِ رسول پیدا کی جائے، ان کو نیک صحبت دی جائے، مسجد اور مدرسہ سے جوڑا جائے،تعلیمی اداروں میں صرف ڈگری نہیں بلکہ مضبوط کردار سازی کا انتظام کیا جائے، والدین سختی اور لاپروائی کے بجائے محبت، شفقت اور حکمت سے بچوں کی نگرانی کریں۔ ایسے نوجوانوں کے لیے بحالی مراکز، نفسیاتی کونسلنگ، اور دینی رہنمائی کے مراکز قائم کیے جائیں جہاں وہ دوبارہ زندگی کی راہ پر لوٹ سکیں۔
یاد رکھو! نشہ وقتی فرحت دیتا ہے، مگر دائمی لعنت بن کر زندگی کو نگل جاتا ہے، تمھارا دماغ، تمھا دل، تمھا جسم اللہ کی امانت ہے، اسے زہر آلود نہ کرو!قلم سے محبت کرو، کتاب سے دوستی کرو!قرآن سے رشتہ جوڑو! اور امت کا خادم بنو! قوم تم سے امید رکھتی ہے، تم خود کو ضائع نہ کرو!!!
(سرحدی عقاب)