
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
June 11, 2025 at 10:58 AM
چراغ فکر(یومیہ)﴿سلسلہ نمبر:،١١٣﴾
خاکِ وطن کی خوشبو
✍️ شاہ امان اللہ ندوی ادارہ طیبہ
ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ
وطن کی محبت کوئی فلسفیانہ بحث نہیں، یہ دل کی دھڑکن ہے، روح کی گہرائیوں سے پھوٹنے والا وہ احساس ہے جو لفظوں کے دائرے میں سمانے سے انکار کرتا ہے، شاید اسی لیے جب میں اپنے گاؤں کی مٹی کو چھوتا ہوں، تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا میری روح کو قرار مل رہا ہو، جیسے ایک بچھڑا ہوا بچہ ماں کی گود میں لوٹ آیا ہو۔
ابھی چند لمحے قبل میں ممبئی کے اس پرشور، مصروف، مگر عارضی مسکن میں قدم رکھ رہا تھا، اور ذہن و دل گاؤں کی خاموش، پرسکون اور مانوس فضا میں اُلجھا ہوا تھا، گاؤں میں گزارے ہوئے دس دن خواب کی مانند گزر گئے، مگر ان کے نقوش میرے ذہن کی دیواروں پر ثبت ہوگئے ہیں۔
گاؤں کی کچی پگڈنڈیاں، دھول سے اٹے راستے، کھیتوں کی سرسبزی، اور گلیوں میں کھیلتے بچوں کی آوازیں... یہ سب میرے لیے محض مناظر نہیں، بلکہ میری یادداشت کی وہ قیمتی تصویریں ہیں جنہیں وقت بھی دھندلا نہیں سکتا، ہر چیز مجھے کچھ کہتی ہے، ہر در و دیوار میرے ماضی کی گواہی دیتی ہے، یہاں کے ذرے ذرے سے میری پہچان وابستہ ہے۔
مگر یہ بھی سچ ہے کہ اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی، کچے مکانوں میں رہنے والے لوگ جن کے دل محبت سے لبریز تھے، اب پکے مکانوں کے سائے میں رہتے ہیں مگر دل ویران ہوگئے ہیں،وہ گرمجوشی، وہ سادگی، وہ مانوس چہرے، سب کچھ جیسے بدل چکا ہے۔
اب لوگ چہروں میں چھپے چہرے لے کر گھومتے ہیں، بھائی بھائی سے کتراتا ہے، پڑوسی پڑوسی سے اجنبی ہو چکا ہے، ذات پات کا زہر، مسلکی منافرت، حسد، بغض، اور حرص و ہوس نے معاشرتی فضا کو آلودہ کر دیا ہے۔ ہر ایک کو اپنے کام سے مطلب ہے، دوسروں کا درد محسوس کرنے والے دل اب نایاب ہو گئے ہیں۔
شاید یہی وہ تبدیلیاں ہیں جنہوں نے میرے والد کو اس دھرتی کی آغوش میں جلد پہنچا دیا، وہ اب میرے ننیہال کے قبرستان میں پرسکون نیند سو رہے ہیں، جب بھی گاؤں جاتا ہوں، سب سے پہلے ان کی قبر پر حاضر ہوتا ہوں۔ خاموشی سے کھڑا رہتا ہوں، اور ان کے لیے دعاؤں کے نذرانے پیش کرتا ہوں،مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ مجھے دیکھ رہے ہیں، میری آمد کو محسوس کر رہے ہیں۔
زندگی کی تیز رفتاری نے کبھی مجھے فرصت نہیں دی، ہمہ وقت مشغول رہا، ایک لمحے کے لیے بھی فرصت کا سایہ نہیں ملا،مگر اب دل کبھی کبھی یہ کہتا ہے کہ بس بہت ہوا، اب شاید وقت آ رہا ہے کہ میں بھی ہمیشہ کی نیند سو جاؤں۔
ایسا لگتا ہے جیسے گاؤں چھوڑ کر ایک دنیا چھوڑ آیا ہوں... ایک ایسا جہان جہاں وقت رُک سا جاتا ہے، جہاں بچپن کی خوشبو بسی ہوئی ہے، جہاں میری پہچان دفن ہے۔
مگر یہ بھی سچ ہے کہ یہ مٹی مجھے ہر بار واپس بلاتی ہے... اپنی خوشبو سے، اپنی خاموش زبان سے، اور اپنے خالص پن سے، یہی خاکِ وطن ہے، یہی میری اصل پہچان ہے... اور شاید ایک دن اسی کی گود میں مجھے بھی ہمیشہ کے لیے سو جانا ہے۔
(سرحدی عقاب)