
KARACHI UPDATE~🌍🇵🇰
June 13, 2025 at 02:57 PM
*KARACHI UPDATE~*🌍🇵🇰*اسرائیل کا 200 جنگی طیاروں کے ساتھ ایران پر حملہ کیسے ہوا؟ .....!!!*
🔸️پاکستانی صحافی مہتاب عزیز خان کا تجزیہ
ایران کے دارالحکومت تہران سے اسرائیل کا فضائی فاصلہ کم از کم 1,700 سے 1,800 کلومیٹر ہے۔ اتنے فاصلے تک حملے کے بعد واپسی کے لیے، اسرائیلی طیاروں کو لازمی طور پر ری فیولنگ کی ضرورت پیش آتی ہے، خاص طور پر جب وہ بھاری بم لے کر جا رہے ہوں۔
اسرائیل کے پاس صرف 7 سے 8 KC‑707 "Re’em" بوئنگ ری فیولنگ طیارے موجود ہیں جو محدود تعداد میں لڑاکا طیاروں کو ایندھن فراہم کر سکتے ہیں۔ 100 کے لگ بھگ طیاروں پر مشتمل بیڑے کے لیے یہ سہولت نہ صرف ناکافی ہے بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل نے اس آپریشن کے لیے لازمی طور پر بیرونی مدد حاصل کی۔
امریکہ نے بطور خاص اعلان کیا ہے کہ اُس نے حملے میں کسی قسم کی لاجسٹک یا ری فیولنگ معاونت فراہم نہیں کی۔ بظاہر ٹرمپ کی پالیسی بھی یہی دیکھائی دیتی ہے۔ اس کے بعد ایک ہی امکان باقی رہ جاتا ہے: اسرائیلی طیارے واپسی پر کسی قریبی ملک کی ایئربیس پر عارضی لینڈنگ کرکے ایندھن حاصل کرکے واپس لوٹے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان واقع وہ کون سا ملک ہے جس نے اس حملے میں اسرائیل کی معاونت کی ہے۔ آج سیٹلائیٹ کے دور میں یہ بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔
دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ ایران پر حملے کے لیے اسرائیلی طیاروں کو لازمی طور پر اردن، عراق، سعودی عرب، یا خلیجی ممالک کی فضائی حدود سے گزرنا پڑتا ہے۔ اتنے بڑے بھاری ہتھیاروں سے لیس فضائی بیڑے کی حرکت کو کوئی ریڈار نظر انداز نہیں کرسکتا، لیکن حیرت انگیز طور پر:
🔻کسی ملک نے ایئر ڈیفنس الرٹ جاری نہیں کیا،
🔻کسی نے اسرائیلی فضائی خلاف ورزی پر احتجاج نہیں کیا،
🔻کسی نے طیارے انٹرسیپٹ نہیں کیے۔
یہ خاموشی محض اتفاق نہیں بلکہ ایک "پہلے سے طے شدہ رضامندی" کا پتہ دیتی ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے کئی حکمران اسرائیلی حملے سے پہلے سے باخبر اور خاموش شراکت دار بنے ہیں۔
بظاہر یہ حملہ اسرائیلی عسکری صلاحیت کی ایک شاندار مثال ہے، مگر اصل میں یہ حملہ ان ممالک کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے جو آج خاموشی سے اسرائیلی مقاصد میں شامل ہیں...
https://whatsapp.com/channel/0029VaimpeSGpLHGIDkcG92n

😂
2