
Ammar Shah Punjabi
June 4, 2025 at 02:32 PM
ساہوکار کا سود بمقابلہ بینک کا سود
(Sahukar vs Bank – Two Faces of Interest)
تحریر: عمار شاہ پنجابی
دیباچہ:
سود کو لے کر انسانی تاریخ دو راستوں پر چلی ہے:
1. ایک وہ جس میں مقامی ساہوکار انسان کو جان کر، گروی رکھ کر قرض دیتا ہے۔
2. دوسرا وہ جس میں جدید بینک سافٹ ویئرز، کاغذی شرائط اور انکم پروف کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ "قابلِ قرض" ہیں یا نہیں۔
یہ مضمون ان دونوں نظاموں کے اصولی فرق کو سامنے لاتا ہے — تاکہ آج کے انسان کو معلوم ہو کہ "جدید ترقی" دراصل کہاں اور کیسے انسانیت سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔
حصہ اول: ساہوکار نظام — سادہ مگر انسانی
خصوصیات:
صرف زمین، زیور یا جائیداد گروی رکھ کر قرض مل جاتا تھا
کوئی تنخواہ، بینک اسٹیٹمنٹ، یا سورس آف انکم کی شرط نہیں تھی
قرض فوری، بروقت اور ذاتی تعلقات کی بنیاد پر دیا جاتا تھا
ساہوکار مقامی ہوتا، اور قرض دار سے تعلق کا لحاظ بھی کرتا
ممکنہ خامیاں:
سود کی شرح کبھی کبھی بہت زیادہ ہو جاتی
بعض ساہوکار قرض دار کی مجبوری کا ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے
سود در سود کی شکل میں قرض عمر بھر کا بوجھ بن سکتا تھا
تحریری معاہدے نہ ہونے کے سبب جھگڑوں کی نوبت آتی تھی
لیکن اس کے باوجود، ساہوکار اور قرض دار کے درمیان ایک انسانی رشتہ موجود رہتا تھا — جس میں شرم، لحاظ، اور مقامی سماج کی اخلاقی حدود اپنا کردار ادا کرتی تھیں۔
حصہ دوم: بینکنگ نظام — منظم مگر غیر انسانی
خصوصیات:
تحریری معاہدے، واضح شرائط، اور قانونی تحفظ
قرض کی منظوری میں کمپیوٹر سسٹم اور ڈیٹا پر انحصار
بینک ملازمین صرف "فائل نمبر" دیکھتے ہیں، انسان نہیں
فکسڈ سود کی شرح اور اقساط کی ترتیب
اصل خامیاں:
بینک کسی ذاتی مجبوری یا وقتی ضرورت کو نہیں سمجھتا
انکار کی صورت میں کوئی متبادل نہیں دیتا
قرض دار کی موت کے بعد بھی بینک قسطیں مانگتا ہے
دیر سے قسط دینے پر "جرمانہ" اور "قرض خراب" (bad credit) جیسی اصطلاحات استعمال کرتا ہے
بینک کے لیے انسان صرف ایک "ریٹرن آن انویسٹمنٹ" (ROI) ہوتا ہے، کوئی رشتہ نہیں، کوئی ترس نہیں
حصہ سوم: سود در سود — بینکاری نظام کی چھپی ہوئی حقیقت
وضاحت: سود در سود (Compound Interest) بینکاری نظام میں کیسے ہوتا ہے؟
اگرچہ بینک رسمی طور پر فکسڈ یا سادہ سود کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن جیسے ہی قسطیں وقت پر ادا نہ ہوں:
لیٹ فیس (Late Fee): قسط کی تاخیر پر ایک "پینلٹی" چارج کر دی جاتی ہے جو اصل قرض پر نہیں بلکہ بقایا سود پر بھی لگتی ہے۔
ڈیفالٹ سود (Default Interest): بعض صورتوں میں تاخیر شدہ قسط پر اضافی شرحِ سود لاگو کی جاتی ہے، جسے "ڈیفالٹ انٹرسٹ" کہا جاتا ہے — یہ سود در سود ہی کی ایک شکل ہے۔
کریڈٹ کارڈز اور مارگیج میں: اگر وقت پر مکمل ادائیگی نہ ہو، تو بقایا رقم پر نیا سود لاگو ہوتا رہتا ہے — یعنی اصل قرض + پچھلے سود پر بھی نیا سود!
جرمانے کا سود: کچھ بینک پینلٹی کو بھی اصل رقم میں شامل کر کے اگلے سودی حساب میں شامل کرتے ہیں — یعنی "سود + جرمانہ" پر اگلے مہینے کا سود الگ!
نتیجہ:
یہ سب کچھ بالکل ویسا ہی ہے جیسا پرانے ساہوکار کرتے تھے —
سود پر سود، اور پھر اس سود پر بھی سود!
لیکن فرق یہ ہے کہ ساہوکار کم از کم انسان کو جانتا تھا، اور رشتہ رکھتا تھا — بینک کے پاس صرف کمپیوٹر ہوتا ہے۔
نتیجہ:
جدید بینکاری نظام کو "منصفانہ"، "محفوظ"، اور "منظم" کہہ کر پیش کیا جاتا ہے، لیکن اس میں انسانیت کا عنصر مکمل طور پر غائب ہے۔
جبکہ پرانا ساہوکار نظام چاہے ظاہری طور پر سخت ہو، اس میں رشتہ، شرم، اور روایتی اخلاقی دائرہ ضرور موجود تھا۔
اصل سوال یہ ہے:
کیا ہمیں ایک ایسا نظام نہیں چاہیے جو منظم بھی ہو، مگر انسانی بھی؟
جہاں سود سے نجات ممکن ہو — اور قرض صرف کاروبار یا مجبوری میں مدد کے لیے ہو، نہ کہ انسان کو غلام بنانے کے لیے؟
"انسان کو قرض کی نہیں، عزت کی ضرورت ہے — اور نظام کو پیسے کی نہیں، احساس کی۔"
عمار شاہ پنجابی