
Ammar Shah Punjabi
June 13, 2025 at 05:56 AM
فرقہ واریت کی دھند میں ایران–اسرائیل جنگ کا تماشا
تحریر: عمار شاہ پنجابی
پاکستان میں ایران کے حوالے سے دو انتہا پسند طبقات پائے جاتے ہیں:
ایک وہ جو ایران کو مثالی بنا کر پاکستان کو بھی اس سے پیچھے گرا ہوا دکھانے پر تُلے ہوتے ہیں،
اور دوسرے وہ جو ایران دشمنی میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ یہودیوں کو اپنا ابا ماننے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
ان دونوں رویّوں کے پیچھے تہہ در تہہ فرقہ واریت کی زہر آلود فضا چھپی ہوئی ہے۔
ابھی حال ہی میں جب اسرائیل نے ایران کی تنصیبات پر حملہ کیا، تو پاکستان میں موجود بعض اینٹی شیعہ اور اینٹی ایران حلقے یہ پراپیگنڈا کرتے نظر آئے کہ ایران تو اندر سے اسرائیل سے ملا ہوا ہے، اور یہ جنگ و مزاحمت صرف ایک "مجوسی ڈرامہ بازی" ہے۔
اور اب وہی طبقہ، ایران پر حملے کے بعد تمسخر سے کہتا پایا جا رہا ہے:
"اتنی اوقات نہیں تھی تو بڑھکیں کیوں ماریں؟"
یہ رویّے محض اختلافِ رائے نہیں، بلکہ ذہنی و فکری انحطاط کی علامت ہیں۔
میری نظر میں یہ دونوں طبقات — اپنی اپنی شدت پسندی کے ساتھ — ابنارمل، سڈسٹ (sadist) اور خالص فرقہ پرست ہیں۔
ان میں سے کچھ افراد دہشت گردی اور تشدد کی جانب بھی نکل جاتے ہیں۔
ان طبقات کی سوچ میں اعتدال اور انسان دوستی کا گزر تک نہیں۔
یہ وہ بیمار ذہنیت ہے جو ظلم پر خاموش نہیں رہتی بلکہ ظالم کے ساتھ ہنستی ہے، صرف اس لیے کہ مظلوم اُس "فرقے" سے ہے جس سے انہیں نفرت ہے۔
رہی بات ڈاکٹر اقبال کے تصورِ امت کی —
تو وہ ایک "ہما" تھا، اور شاید ہمیشہ ایک خواب ہی رہے گا۔
مجھے گمان ہے کہ اگر اس خطے میں اسلام نہ آیا ہوتا —
یا یوں کہیے کہ اگر اسلام کے ساتھ یہ فرقہ وارانہ زہر یہاں نہ پھیلتا —
تو برصغیر کی غالب اکثریت آج بھی، قدیم تہذیبِ فارس کی طرح، اسرائیل اور مغرب کے مقابلے میں ایران کو ترجیح دیتی۔
میری ناقص رائے میں، ایران–اسرائیل–مغرب تنازعے کو "کلیش آف سویلائزیشنز" کے تناظر میں دیکھنا زیادہ درست اور بہتر نتائج کا حامل ہو سکتا ہے!
عمار شاہ پنجابی