
Molana zubair ahmad siddiqiui
June 14, 2025 at 03:40 AM
*سلسلۂ نقوشِ قرآن*
*سورت کہف (ساتویں قسط)*
*شیخ الحدیث والتفسیر، استاد العلماء حضرت مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب دامت برکاتہم العالیہ*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کا پس منظر*
آیت نمبر 60 سے 70 میں مذکور واقعہ کا پسِ منظر صحیح بخاری و صحیح مسلم میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے لوگوں نے آپ سے سوال کیا کہ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میں سب سے زیادہ علم والا ہوں، یہ بات اگرچہ درست تھی کیونکہ نبی اپنے دور میں سب سے زیادہ علم والا ہوتا ہے، لیکن اللہ رب العزت کو آپ کا یہ جملہ پسند نہ آیا کیونکہ ادب کا تقاضا یہ تھا کہ اس کو اللہ رب العزت کے سپرد کرتے اور یوں فرما دیتے کہ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں، اس لیے اللہ رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ ہمارا ایک بندہ مجمع البحرین (وہ مقام جہاں دو دریا ملتے ہوں، ایسے مقامات دنیا میں ایک سے زائد ہیں، قرآن میں چونکہ اس کی تعیین نہیں کی گئی اس لیے متعین طور پر کوئی جگہ ذکر نہیں کی جاسکتی) میں رہتا ہے اور وہ آپ سے زیادہ علم رکھتا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ سنا تو آپ نے سوچا کہ مجھے ان سے استفادہ کرنا چاہیے، اس لیے آپ نے اللہ رب العزت سے دعا کی کہ مجھے ان کا پتا یا کوئی نشانی بتا دیں، اللہ رب العزت نے فرمایا کہ ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لو اور مجمع البحرین کی طرف سفر کرو، جس جگہ یہ مچھلی گم ہو جائے بس وہی جگہ ہمارے اس بندے کے ملنے کی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حکم کے مطابق ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی اور مجمع البحرین کی طرف سفر کا آغاز کر دیا۔ (معارف القرآن)
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مجمع البحرین کی طرف سفر کرنے لگے تو آپ نے اپنے ایک خادم کو بھی اپنے ساتھ لیا، یہ خادم حضرت یوشع بن نون علیہ السلام تھے، مندرجہ بالا آیات میں سے پہلی آیت میں فتی سے مراد یہی ہیں، دونوں حضرات نے سفر شروع کیا اور چلتے رہے، دوران ِ سفر ایک جگہ پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سستانے کے لیے ایک پتھر کے پاس لیٹ گئے جس سے آپ کو نیند آگئی، جبکہ آپ کے خادم حضرت یوشع بن نون جاگ رہے تھے، انہوں نے دیکھا کہ مچھلی اچانک حرکت میں آگئی اور زنبیل سے نکل کر دریا میں چلی گئی، جس راستہ سے وہ دریا میں گئی تھی وہاں اللہ رب العزت نے پانی کا بہاؤ روک دیا، ایک سرنگ سی بن گئی، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو یوشع بن نون آپ کو یہ بات بتانا بھول گئے اور اس جگہ سے روانہ ہو گئے، ایک دن ایک رات کا مزید سفر کیا، جب دوسرے روز کی صبح ہو گئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رفیق ِسفر سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ، کیونکہ اس سفر میں کافی تھکاوٹ ہو گئی ہے، اس وقت حضرت یوشع بن نون کو مچھلی کا واقعہ یاد آگیا، تو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ساری بات بتائی اور عذر بھی پیش کر دیا کہ مجھے شیطان نے وہ بات بھلا دی تھی، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہی تو ہماری منزلِ مقصود تھی، چنانچہ اسی وقت واپس روانہ ہوئے اور ٹھیک اسی راستہ سے لوٹے جس پر پہلے چلے تھے تاکہ وہ جگہ مل جائے۔
*موسیٰ، خضر علیہما السلام کی ملاقات*
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کا خادم اس پتھر کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص سر سے پاؤں تک چادر تانے ہوئے لیٹا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا تو حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ اس جنگل میں سلام کہاں سے آگیا، یہاں کے لوگ تو اس سے ناواقف ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں موسیٰ ہوں، حضرت خضر علیہ السلام نے دریافت کیا کہ بنی اسرائیل والے موسیٰ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں اور میں اس لیے آیا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ خاص علم سکھا دیں جو اللہ رب العزت نے آپ کو عطاء فرمایا ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے جواب دیا کہ آپ میرے ساتھ نہیں ٹھہر سکیں گے، کیونکہ ظاہری طور پر کچھ افعال آپ کو خلافِ شریعت نظر آئیں گے (جبکہ حقیقتاً وہ اللہ رب العزت کا امر اور حکم ہوگا) اور آپ چونکہ نبی ہیں اس لیے خلاف ِشریعت کاموں پر خاموش نہیں رہیں گے اور مجھ پر اعتراض کریں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اِن شاء اللہ آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی اور میں آپ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔ اس پر حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، لیکن میری ایک شرط ہے کہ جب تک میں خود اپنے کسی عمل کی وجہ بیان نہ کروں، آپ مجھ سے کسی چیز کے بارے میں کچھ نہیں پوچھیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کی یہ شرط منظور کرلی اور یوں ان دونوں کا ساتھ شروع ہو گیا۔
*حضرت خضر علیہ السلام نبی تھے* ؟
قرآن کریم میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ حضرت خضر علیہ السلام پیغمبر تھے یا نہیں ؟ لیکن جمہور علماء کے نزدیک حضرت خضر علیہ السلام نبی تھے، مگر ان کے ذمہ اللہ رب العزت نے کچھ تکوینی امور اور تکوینی خدمات لگائی تھیں اور انہیں انہی کا علم دیا گیا تھا، تشریعی امور سے متعلق ان پر وحی نہیں نازل کی گئی۔ (معارف القرآن)
*حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی توڑ دی*
آیت نمبر 71 سے 74 میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کی شرط مان لی کہ میں آپ سے کسی چیز کے بارے میں تب تک نہیں پوچھوں گا جب تک آپ خود نہ بتا دیں تو حضرت خضر علیہ السلام نے انہیں اپنے ساتھ رکھنے پر آمادگی ظاہر کر دی، اس کے بعد یہ دونوں حضرات کسی جگہ روانہ ہوئے، راستے میں کشی پر سوار ہونے کی ضرورت پڑی، چنانچہ دونوں کشتی میں سوار ہو گئے، جب کشتی میں بیٹھ گئے تو حضرت خضر علیہ السلام نے کلہاڑی مار کر کشتی کا ایک تختہ نکال دیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ دیکھا تو فوراً بول پڑے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ کیا آپ اس کشتی والوں کو ڈبونا چاہتے ہیں؟ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے آپ کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ نہیں ٹھہر سکیں گے اور میں نے شرط بھی لگائی تھی کہ آپ مجھ سے خود کچھ نہیں پوچھیں گے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا، اس لیے معذرت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں بھول گیا تھا، آپ میری بھول چوک درگزر فرما دیجیے، حضرت خضر علیہ السلام نے ان کی غلطی درگزر فرما دی۔
*حضرت خضر علیہ السلام نے بچے کو قتل کر دیا*
جب یہ دونوں حضرات کشتی سے اتر کر آگے چلے تو راستہ میں ایک کمسِن نابالغ بچہ ملا، حضرت خضر علیہ السلام نے اس بچے کو مار ڈالا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ دیکھا تو گھبرا کر کہنے لگے کہ آپ نے ایک بے گناہ بچے کو قتل کر دیا، یہ تو آپ نے بڑی بے جا حرکت کی، کیونکہ کشتی توڑنے میں تو صرف مال کا نقصان تھا، جبکہ یہاں تو ایک معصوم جان کا قتل کر دیا گیا۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔
*پارہ نمبر 16*
*اِجمالی تعارف*
سہولہواں پارہ سورۂ کہف کے بقیہ حصے، اس کے بعد سورۂ مریم اور سورت طٰہٰ پر مشتمل ہے۔
*موسیٰ وخضر علیہما السلام کا تفصیلی واقعہ*
حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کا قصہ چل رہا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام حصول ِعلم کے لیے حضرت خضر علیہ السلام کی معیت میں تھے اور وہاں اس شرط پر انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے ساتھ رکھا کہ جب تک میں خود نہ بتاؤں آپ میرے کسی بھی کام پر نہیں بولیں گے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہماالسلام چل پڑے، جب کشتی میں سوار ہوئے تو حضرت خضر علیہ السلام نے سب سے پہلے کشتی توڑی، اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام بول پڑے، پھر معذرت کی، آگے جاکر حضرت خضرعلیہ السلام نے بے گناہ بچے کو قتل کر دیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام پھر بول پڑے اور فرمایا: لقد جئت شیئا نکراً آپ نے یہ غیر مناسب کام کیا کہ ایک معصوم بچے کو قتل کر دیا، حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا: قال الم اقل لک انک لن تستطیع معی صبرا کہ میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم میرے علوم کے متحمل نہیں ہو سکو گے، اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے معذرت کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے ایک موقع اور دے دیں، اب اگر میں آپ سے کسی چیز سے متعلق سوال کروں تو پھر آپ مجھے اپنے ساتھ نہ لے جائیے۔
پھر چل پڑے، آگے ایک بستی میں گئے، غالباً یہ انطاکیہ کی بستی تھی (اب یہ جگہ موجودہ ترکیہ کاایک حصہ ہے) اس بستی کے باسیوں نے ان دونوں نبیوں کو مہمان بنانے سے انکار کر دیا، کسی نے بھی ان کو طلب کے باوجود کھانا نہ دیا، بشری تقاضا ہے بھوک تو لگتی ہے، اس کے بعد ایک جھکی ہوئی دیوار کو دیکھا اور حضرت خضر علیہ السلام نے ہمت کرکے اس دیوار کو ٹھیک کر دیا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ انہوں نے اشارہ کیا اور کرامتاً دیوار درست ہو گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بول پڑے، ارشاد فرمایا: انہوں نے ہمیں کھانا نہیں دیا، آپ نے مفت میں ان کی دیوار بنا دی، بنانی ہی تھی تو ان سے مزدوری لے لیتے، مزدوری میں کھانا ہی لے لیتے،حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا :بس!ِ تم ان علوم کے متحمل نہیں ہو، تمہارا علم شریعت کا ہے، جبکہ یہ علم تکوین کا ہے، تم تشریعیات کے ماہر ہو اور ہم تکوینیات کے ، تو چونکہ تم ان کے متحمل نہیں ہو لہٰذا اب تم ہم سے جدا ہو جاؤ گے،البتہ جو تین کام میں نے کیے ان کے اسباب اور تاویل سنتے جاؤ۔ *(جاری ہے)*
❤️
2