
Molana zubair ahmad siddiqiui
June 14, 2025 at 03:42 AM
*سلسلۂ نقوشِ قرآن*
*سورت الکہف (آ ٹھویں قسط )*
*شیخ الحدیث والتفسیر، استاد العلماء حضرت مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب دامت برکاتہم العالیہ*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*کشتی کیوں توڑی؟*
گزشتہ سے پیوستہ حضرت موسیٰ وخضر علیہماالسلام کی ملاقات کا واقعہ چل رہا ہے، آیت نمبر 79 میں حضرت خضر علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ فرما رہے ہیں کہ میں نے کرایہ نہ لینے والے لوگوں کی کشتی کا تختہ اس لیے توڑا تھا کہ آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر خوبصورت اور بے عیب کشتی چھین لیتا تھا، جبکہ ان غریبوں کو یہ بات معلوم نہ تھی۔ البتہ مجھے چونکہ اللہ نے تکوینیات کا علم دیا ہے، لہٰذا مجھے علم تھا کہ اگر یہ کشتی بے عیب رہی تو چھن جائے گی، اس لیے میں نے کشتی داغدار کرکے غریبوں کی خیر خواہی کی بد خواہی نہیں۔ احسان فراموشی کی بجائے احسان کا بدلہ احسان سے دیا۔
*بچے کو قتل کرنے کی حکمت* ؟
آیت نمبر 80, 81۔ بچے کو قتل کرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ اس کے ماں باپ نیک تھے اور اللہ کے حکم سے مجھے پتا تھا کہ اس نے بڑے ہو کر کافر بننا ہے، مجھے یہ خطرہ لاحق ہوا کہ بڑا ہو کر یہ اپنے نیک والدین کو تکلیف پہنچائے گا اور بیٹے کی محبت میں اس کے والدین کا ایمان بھی خطرے میں پڑ جائے گا، تو اس کے ماں باپ کی خیر خواہی میں کہ وہ ایمان پر رہیں، میں نے اس بچے کو قتل کیا اور ہمارا یہ بھی ارادہ ہوا (یعنی ہم نے اللہ پاک سے دعا کی-معارف القرآن) کہ اس بچے کے بدلے میں اللہ انہیں بہتر اولاد عطاء کر دیں گے، عمدہ اور نیک اولاد عطاء فرما دیں گے،اس لیے میں نے بچے کو قتل کر دیا، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اس بچے کے بعد اللہ نے ان ماں باپ کو ایک بچی دی، اس بچی کا نکاح ایک نبی سے ہوا اور وہ بچی ایک نبی کی ماں بنی، تو دو نبیوں سے اس کی نسبت ہو گئی اور بعض نے تو فرمایا کہ ستر(70) نبی اس کی نسل سے آئے۔ (روح المعانی) اللہ کے نبی نے اگر ایک بچے کو اللہ کے حکم سے قتل کیا، نبی کا معاملہ ہے نا اور نبی کوئی بھی کام اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف نہیں کرتے تو حضرت خضر کے اس فعل کے پیچھے یقیناً اللہ کا حکم ہو گا، جب نبی نے اللہ کے حکم سے اس بچے کو قتل کیا تو اللہ نے اس کے بدلے میں انہیں یہ بدلہ دیا۔
*دیوار درست کرنے کی وجہ* ؟
آیت نمبر 82۔ رہا دیوار کا معاملہ سو وہ معاملہ بھی بڑا گہرا اور تکوینی معاملہ تھا، وہ معاملہ یہ تھا کہ مرنے والا نیک آدمی تھا، اللہ کا ولی تھا، فوت ہونے سے پہلے اس نے سونے کی ایک تختی اپنے چھوٹے بچوں کے لیے جو اس وقت یتیم ہو رہے تھے،اس دیوار کے نیچے دبا دی تھی کہ جب یہ بڑے ہوں گے تو یہ سونے کی تختی اور خزانہ نکالیں گے اور خرچ کریں گے۔ دیوارکی حالت چونکہ خستہ تھی اس لیے میں نے یہ سوچا کہ اگر یہ دیوار خدا نخواستہ گر گئی تو کوئی ان بچوں کا یہ خزانہ اور یہ تختی کوئی چرا نہ لے، اس لیے یتیموں کی خیر خواہی میں اس دیوار کو ٹھیک کر دیا۔
اس نیک بندے کی خواہش اللہ تعالیٰ نے یوں پوری کی کہ اپنے نبیوں سے اس دیوار کی درستگی کرا کر حفاظت کا انتظام فرمایا۔ معلوم ہوا کہ بندے کے نیک اعمال کی وجہ سے اللہ پاک اس کی نسل، خاندان اور آس پاس کے مکانات کی بھی حفاظت کرتے ہیں۔ (تفسیر مظہری) نیز نیکی کا اثر نسلوں میں بھی باقی رہتا ہے۔
*دیوار کے نیچے کون سا خزانہ تھا* ؟
کہتے ہیں کہ یہ ایک سونے کی تختی تھی اور اس پر چند چیزیں لکھی تھیں،سب سے پہلے تو اس تختی پر لکھا ہوا تھا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اس کے بعد نصیحت کے د رج ذیل قیمتی کلمات لکھے تھے:- تعجب ہے اس شخص پر جو تقدیر پر ایمان رکھتا ہے پھر بھی غمگین رہتا ہے۔ تعجب ہے اس شخص پر جو اللہ کو رزاق سمجھتا ہے اس کے باوجود ضرورت سے زائد مشقت اٹھاتا ہے اور فضول کوششوں میں لگا رہتا ہے۔ تعجب ہے اس شخص پر جو موت پر ایمان رکھتا ہے پھر بھی خوش و خرم رہتا ہے،ٹھٹھہ اور مذاق کرتا ہے۔ تعجب ہے اس شخص پر جو قیامت پر ایمان رکھتا ہے پھر بھی غفلت برتتا ہے۔ تعجب ہے اس شخص پر جو دنیا کے انقلابات کو جانتا ہے پھر بھی مطمئن رہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس تختی پر یہ بھی لکھا تھا: لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے صدیوں پہلے اس تختی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی مہر ثبت تھی۔ (معارف القرآن بحوالہ قرطبی)
*یہ سب کام خدائی احکامات کے تابع*
اس قصے میں حضرت خضر علیہ السلام نے یہ وضاحت بھی فرما دی: یہ سارے کام میں نے اپنی مرضی سے نہیں کیے بلکہ اللہ کے حکم سے کیے،یہی تعبیر ہے ان کاموں کی جن کا آپ تحمل نہ کر سکے۔
*کیا حضرت خضر علیہ السلام اب بھی حیات* ؟
حضرت خضر علیہ السلام اب بھی حیات ہیں یا نہیں؟ قرآن وسنت میں اس بارے میں کوئی صراحت نہیں ہے۔ البتہ بعض روایات و آثار سے ان کی حیات اور بعض سے ان کی وفات بارے اقوال بیان کیے گئے ہیں۔اس سلسلے میں بعض حضرات کے کشف بھی منقول ہیں۔ تاہم چونکہ حضرت خضر علیہ السلام کی حیات یا انتقال سے ہمارا کوئی اعتقادی یاعملی مسئلہ متعلق نہیں ہے،اس لیے اس بارے زیادہ بحث کی بھی حاجت نہیں اور نہ ہی کسی ایک جانب کا یقین رکھنا ضروری ہے۔ (مزید تفصیلات کے لیے تفسیر معارف القرآن، جلد: 5، صفحہ: 626 تا 626 ملاحظہ فرمائیں)
*علمِ شریعت وعلمِ تکوین*
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ایسا علم جسے حاصل کیے بغیر نہ تو اللہ پاک کی مرضی معلوم ہو سکتی ہو اور نہ اس پر عمل کیے بغیر اللہ کا قرب حاصل ہو سکتا ہو اسے علمِ شریعت کہتے ہیں۔انبیائے کرام اسی علم کو پہنچانے کے لیے مبعوث ہوئے اور اس پر آخرت کی کامیابی کا مدار ہے۔
جبکہ دوسری طرف اس دنیا میں ہونے والے واقعات وحوادث کے پیچھے کار فرما وجوہات اور اسباب جاننے کا تعلق علمِ تکوین سے ہے۔ اس علم کے احکامات کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی تلاش کے درپے رہنے سے روحانی ترقی یا آخرت کی نجات موقوف ہے۔
ان تکوینی خدمات کے لیے عموماً فرشتے مقرر ہیں تاہم اللہ پاک نے انبیائے کرام میں سے بعض کو اس خدمت کے لیے متعین فرمایا ہے جن میں سے حضرت خضر بھی شامل ہیں اور چونکہ حضرت خضر علیہ السلام ان کاموں کو انجام دینے پر مامور تھے، اس لیے انہوں نے یہ کام کیے،لیکن اس کی وجہ سے نہ تو علمِ تکوینی کو علمِ شریعت پر فوقیت اور نہ ہی کسی شخص کو باطنی مصلحت کی وجہ سے شریعت کے ظاہری احکام کی خلاف ورزی کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
*ایک مغالطہ*
بعض نام نہاد صوفی اس واقعہ سے استدلال کرکے علمِ ظاہر اور علمِ باطن کا فرق کرتے ہیں اور اپنی خرافات اور خلافِ شریعت افعال کو علمِ باطن کا نام دے کر خدائی احکامات کی صریح خلاف ورزی کرکے عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔
یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ علمِ تکوین اور علمِ باطن میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
علمِ تکوین: اس کائنات کے اندر پیش آنے والے واقعات کے حقیقی اسباب کا علم، علمِ تکوین ہے۔
علمِ باطن: نفسانی اخلاق کی اصلاح اور باطنی گندگیوں (مثلاً تکبر، حسد، حب ِجاہ، حب ِمال وغیرہ) کو دور کرکے اپنے ظاہر کو شرعی احکامات سے آراستہ کرنے کا نام علمِ باطن ہے اور یہ کسی طور پر بھی شرعی احکامات کے خلاف نہیں۔
لہٰذا اگر کوئی شخص بزرگی اور تصوف کے لبادے میں خدائی احکامات کو توڑتا پھرے اور علمِ باطن کا دعویٰ کرکے اپنی بدعملی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرے تو ایسے نام نہاد ملنگ کو حزب الشیطان تو کہا جاسکتا ہے حزب اللہ اور اولیاء اللہ میں سے ہرگز نہیں سمجھا جاسکتا۔
*فرقہ باطنیہ*
تاریخ ِاسلام میں ایک فرقہ گزرا ہے جسے باطنیہ اور فاطمیہ کہا جاتا ہے۔ یہ فرقہ بھی علمِ ظاہر اور باطن کا فرق بیان کرتا تھا۔ اس فرقے نے پوری شدت سے یہ دعویٰ کیا کہ ہر لفظ کے دو معنی اور مطلب ہوتے ہیں۔ایک ظاہری مطلب جو صرف عوام کو سمجھ آتا ہے اور دوسرا حقیقی اور باطنی معنی جو صرف اہلِ اسرار اور عقلاء کو سمجھ آسکتا ہے۔ اسی طرح قرآن وحدیث کے بھی کچھ ظواہر ہیں اور کچھ حقائق ہیں۔ جو شخص صرف ظاہری معنی میں گرفتار ہے صرف وہی شریعت کی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ جس کی رسائی اصل حقائق تک ہو جاتی ہے وہ شریعت کی ظاہری پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔
تحقیقات کے چند نادر نمونے
اس ضابطے کو بنیاد بنا کر اس فرقے نے قرآن وسنت کی ایسی من مانی باطنی تشریح کی کہ الامان والحفیظ، مثلاً جنابت سے مراد راز افشاء کر دینا ہے۔ غسل سے مراد تجدیدِ عہد ہے۔ طوفان ِنوح سے مراد علم کا طوفان ہے،جس میں اہلِ شہادت غرق کیے گئے۔ کعبہ خود نبی کی ذات ہے۔ جہنم علمِ ظاہر اور جنت علمِ باطن کا نام ہے۔ طہارت سے مراد مذہبِ باطنیہ کے علاوہ ہر مذہب سے برأت۔ صلوٰة سے مراد اِمام ِ وقت کی طرف دعوت۔ آتش ِنمرود سے مراد نمرود کا غصہ ہے۔ یاجوج ماجوج سے مراد اہلِ ظاہر ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
بعد کی صدیوں میں جن فرقوں نے بھی نبوتِ محمدی کے خلاف بغاوت کرنا چاہی انہوں نے باطنیت کے اسی حربہ کا سہارا لیا اور پورے اسلامی نظام کو مشکوک اور مجروح بنا دیا۔ ایران کی بہائیت اور ہندوستانی قادیانیت اس کی واضح مثالیں ہیں۔ (تاریخِ دعوت وعزیمت)
مذکورہ واقعہ کی حکمتیں
حضرت موسیٰ وخضر علیہما السلام کے اس واقعہ کو بیان کرنے میں درجِ ذیل حکمتیں ممکن ہیں:
- مشرکینِ مکہ چونکہ علمِ دین کے حصول کے لیے غریب اور مسکین صحابہ کے ساتھ بیٹھنے کو عار سمجھتے تھے،اس واقعہ سے انہیں تنبیہ کی گئی ہے کہ مقربینِ خدا تعالیٰ، حصولِ علم کے لیے کس قدر مشقت وتکالیف کا تحمل کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا حصولِ علم میں عار ہرگز محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
- یہ درس بھی مقصود ہے کہ علم کے دو چار ابواب پڑھ لینے، یا چند دنیوی معلومات کے حصول سے اپنے آپ کو کامل نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہر ظاہر کے پس ِپردہ بہت سے حقائق ہیں۔ اللہ پاک کے علم کے وسعت ہی ان حقائق کا ادراک کر سکتی ہے۔
نیز دنیا میں اہلِ حق کے ساتھ جو فقر، فاقہ اور مظلومیت کے احوال ہیں یہ صرف ظاہر ہیں۔ ان کے پس پردہ حقائق، ثمرات اور اثرات کا ایک جہاں ہے جو نظروں سے اوجھل ہے۔ اس لیے ان ظاہری مشکلات سے مایوس ہونے کے بجائے ان کے نسلوں تک جاری بہترین نتائج کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ (تبیان الفرقان ملخص) *(جاری ہے)*
❤️
2