
Molana zubair ahmad siddiqiui
June 14, 2025 at 03:42 AM
*سلسلۂ نقوشِ قرآن*
*سورت الکہف* *(نویں قسط)*
*شیخ الحدیث والتفسیر، استاد العلماء حضرت مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب دامت برکاتہم العالیہ*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آیت نمبر 83 تا 85 ۔ آپ سے پوچھتے ہیں ذوالقرنین کے بارے میں، آپ فرما دیجیے کہ میں پڑھ کر تمہیں سناتا ہوں کہ ذوالقرنین کا کیا قصہ تھا۔
*ذوالقرنین کا واقعہ*
مشرکینِ مکہ نے تین سوالات کیے تھے: -روح کیا ہے ؟- اصحابِ کہف کا کیا قصہ ہے؟ -ذوالقرنین کا کیا قصہ ہے ؟ اور وہ کون سا بادشاہ تھا جس نے پوری روئے ارض کاسفر کیا تھا؟ روح والے سوال کا جواب سورۂ بنی اسرائیل میں دیا گیا۔ پھر اصحابِ کہف کا واقعہ اسی سورت میں مذکورہ ہوا اور اب آخر میں ذوالقرنین کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے۔
*ذو القرنین کا مختصر تعارف* : ذوالقرنین ایک نیک اور صالح بادشاہ تھے، قرنین، قرن کا تثنیہ ہے، قرن کا ایک معنی سینگ آتا ہے، یا تو ان کو ذوالقرنین اس لیے کہتے تھے کہ ان کی دو زلفیں تھیں، یا اس لیے کہتے تھے کہ قرن کا ایک معنی ہے کونہ۔ تو انہوں نے زمین کے دو کونوں کا سفر کیا، مشرق کا بھی سفر کیا اور مغرب کا بھی۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابتداء میں ان کی دو سلطنتیں تھیں، ایک کردستان اور ایک عراق کی طرف۔ ذوالقرنین نے ان دونوں کے درمیانی علاقوں کو فتح کر کے اپنی سلطنتوں کو ایک کر دیا۔ واللہ اعلم
*ذوالقرنین کا زمانہ* :
کہتے ہیں کہ ذوالقرنین جن کا یہاں قرآن میں ذکر ہے، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہم عصر ہیں، اب اندازہ لگا لیں کتنے ہزار سال پہلے کی بات ہے اور حضرت خضر علیہ السلام ان کے وزیر تھے۔ یہ نیک دل اور صالح بادشاہ تھے۔
*چار عظیم بادشاہ* :
بعض تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رُوئے ارض پر چار بادشاہ ایسے گزرے ہیں جنہیں عالمگیر حکومت ملی،پوری دنیا پر انہوں نے حکومت کی، ان میں سے دو مومن تھے اور دو کافر، جو دو مومن تھے ان میں ایک یہ ذوالقرنین اور دوسرے حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں اور جو دو کافر تھے ان میں سے ایک نمرود اور دوسرا بخت نصر تھا۔
*کیا سکندرِ اعظم ہی ذوالقرنین؟*
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تقریباً ساڑھے تین صدیاں پہلے ایک شخص گزرا ہے جس سے سکندر یونانی، سکندر رومی اور سکندر مقدونی وغیرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مشہور یونانی فلسفی ارسطواس کا استاد بھی تھا اور وزیر بھی۔ بعض لوگوں نے اسے قرآنی ذوالقرنین سمجھ لیا ہے جو سراسر غلط ہے۔ سکندر یونانی ایک آتش پرست اور مشرک شخص تھا جبکہ حضرت ذوالقرنین بالاتفاق نیک صالح اور مومن تھے۔ بعض روایات میں ہے کہ ذوالقرنین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ حج بھی کیا تھا۔ (تفصیل کے لیے معارف القرآن جلد 5 ملاحظہ فرمائیے)۔
*بہر کیف!* حضرت ذوالقرنین کو اللہ تعالیٰ نے معجزاتی اور کراماتی طور پر ہر طرح کے مال و اسباب سے نوازا تھا، اس زمانے میں انہیں ہر طرح کے وسائل میسر تھے اور قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید ان کو اللہ نے کوئی ٹیکنالوجی بھی عطاء کی تھی، کیونکہ ان کے بڑے بڑے کام ہیں، ذرائع سفر بھی انہیں میسر تھے، کیوں کہ انہوں نے روئے ارض کا سفر کیا۔
*تین عظیم سفر*
آیت نمبر 86 تا 88 ۔ ذوالقرنین نے تین سفر کیے، پہلا سفر مغرب کی طرف تھا، دوسرا سفر مشرق کی جانب تھا،جب کہ تیسرے سفر کی جہت اگرچہ قرآن نے بیان نہیں فرمائی تاہم آبادی چونکہ شمال کی طرف زیادہ ہے،اس لیے بھی اور تاریخی شہادتوں کی وجہ سے بھی مفسرین کے نزدیک یہ سفر شمال کی طرف ہوا تھا۔ واللہ اعلم
*پہلا سفر: مغربی سمت*
پوری زمین کے حکمران تھے تو خیال آیا کہ چل کے دیکھیں تو سہی اپنی سلطنت کو کہ ہماری سلطنت میں لوگ کس طرح زندگی گزار رہے ہیں، سلطنت کیسی ہے؟ مغرب کی طرف چلتے گئے، چلتے گئے، یہاں تک کہ آبادی کے آخری حصے تک جا پہنچے، وہاں تک پہنچے کہ سامنے یوں لگ رہا تھا کہ سورج کیچڑ میں غروب ہو رہا ہے،جیسے آپ سمندر میں سفر کریں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے سورج سمندر سے طلوع ہو رہا ہے، اور سمندر میں غروب ہو رہا ہے،تو چونکہ وہ زمین کا آخری کونہ تھا، اس کے آگے کیچڑ تھا اور پھر سمندر تھا، اسی لیے یوں لگا کہ سورج کیچڑ میں غروب ہو رہا ہے۔
یہاں ایک قوم آباد تھی جو کافر تھی، اس قوم کے بارے میں اللہ پاک نے ذوالقرنین کو یہ اختیار دیا کہ: یعنی یا تو انہیں ان کے کفر پر سزا دیں یا پھر احسان کا معاملہ فرمائیں۔ حضرت ذوالقرنین نے ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا اور فرمایا: ہم پہلے انہیں ایمان کی دعوت دیں گے۔ اگر ایمان لائیں گے تو ان کے ساتھ اچھائی کریں گے اور اگر کفر پر جمے رہے تو انہیں سزا دی جائے گی،جو ظلم کرے گا، کفر کرے گا اس کے لیے سخت عذاب اور جو ایمان لائے گا اس کے لیے اچھی جزا۔
*دوسرا سفر: مشرقی سمت*
آیت نمبر 89 تا 91۔ پھر ذوالقرنین نے مال واسباب ساتھ لیا اور مشرق کی طرف سفر شروع کیا، جب مشرق کی طرف بالکل آخری کنارے پر پہنچے تو وہاں ایک ایسی قوم ملی جو بالکل بے پردہ تھی، اب بعض نے اس کا معنی یہ لیا ہے کہ ان کے گھر نہیں تھے، بلکہ وہ جنگلوں میں کھلے آسمان تلے رہتے تھے، وحشی قسم کے لوگ تھے اور بعض نے معنی کیا کہ وہ بے لباس تھے، ستر پوشی کا اہتمام نہیں کرتے تھے،کپڑے نہیں پہنتے تھے،چیتھڑوں سے ستر کو ڈھانپا تو ڈھانپ لیا، نہ ڈھانپا تو نہ ڈھانپا، اس قوم سے ذوالقرنین نے کیا معاملہ کیا؟ قرآن نے اس کا ذکر نہیں کیا، بظاہر جو مغرب میں بسنے والی قوم سے کیا تھا وہی ان سے بھی کیا ہوگا (کیونکہ ظاہر یہی ہے کہ یہ دونوں قومیں کافر تھیں)۔
*تیسرا سفر: شمالی سمت*
آیت نمبر 92 تا 101 ۔ پھر سامانِ سفر ساتھ لیا اور سفر شروع کر دیا، اب یہ سفر کس جانب تھا، قرآن نے اس کا ذکر نہیں کیا، لیکن مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ سفر شمال کی جانب تھا،سفر کرتے کرتے دو پہاڑوں کے درمیان ایک ایسے مقام تک پہنچے، جہاں ایسی قوم آباد تھی جو نہ صرف زبان نہیں سمجھتی تھی بلکہ وحشیانہ زندگی گزارنے کی وجہ سے سمجھ بوجھ سے بھی عاری تھی۔
*قوم کی عاجزانہ درخواست*
بہر کیف! شاید کسی مترجم کے ذریعے اس قوم نے حضرت ذو القرنین سے ایک درخواست کی: یہاں (گھاٹی کے دوسری طرف) ایک قوم رہتی ہے جسے یاجوج ماجوج کہتے ہیں، وہ اس سر زمین میں فساد کرتی ہے، ہم آپ کو پیسے دیتے ہیں، خدا کے لیے آپ ان کے اور ہمارے درمیان کوئی آڑ اور رکاوٹ بنا دیجیے،کیونکہ یہ آکر ہمارے کھیتوں کو، ہمارے سامان ِخورد ونوش کو اور ہمارے پانیوں کو چاٹ جاتے ہیں،انہوں نے ہماری ناک میں دم کر رکھا ہے، آپ ان کو دوسری طرف بند کر دیں۔ حضرت ذوالقرنین نے ان سے فرمایا کہ مجھے اللہ نے بہت کچھ دے رکھا ہے، مجھے تمہارے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے، لیکن تمہیں افرادی قوت دینی ہوگی، وہ اس کے لیے تیار ہو گئے۔
*محیر العقول کارنامہ*
قابلِ غوربات ہے کہ آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے کیا کمال انجینئرنگ دِکھائی حضرت ذوالقرنین نے،یہ قوم جہاں رہتی تھی وہاں دو پہاڑوں کے بیچ میں ایک درہ تھا، پہاڑ بہت اونچے تھے،پہاڑوں کو پاٹ کر یہ آنہیں سکتے تھے، درے سے آتے تھے، تو اب ان کو اس پار روکنے کے لیے یہ انجینئرنگ اختیار کی گئی کہ اس پہاڑی درے کو بند کر دیا جائے،اب درے کو کیسے بند کیا جائے، اتنا بڑا درہ ہے، تو حضرت ذوالقرنین نے ان سے فرمایا: میرے پاس لوہے کے تختے لے آؤ، وہ تختے لے آئے، پھر اس پورے درے پر لوہے کے تختے بچھا دیے اور درہ بند کرنے کے لیے اینٹ، پتھر کی جگہ لوہے کی ان چادروں کا استعمال کیا گیا۔ پھر فرمایا کہ اس پر آگ جلا دو، آگ جلائی گئی اور ان تختوں کو اتنا گرم کیا گیا کہ وہ تپ کر آگ کی طرح سرخ ہو گئے، اب فرمایا کہ تانبا لے آؤ، تانبا لایا گیا، اس کو پگھلا کر ان تختوں پر ڈال دیا تو یہ تانبا، اِن لوہے کے تختوں کے درمیانی خلا اور سوراخوں میں جم گیا اور ان کو مضبوط جوڑ دیا، یوں ایک بہت مضبوط دیوار قائم ہو گئی جسے سدِ ذوالقرنین کہا جاتا ہے۔ دیوار کی تکمیل پر حضرت ذوالقرنین نے فرمایا کہ اس دیوار کو یاجوج ماجوج نہیں توڑ سکیں گے،اس کو پار کر سکیں گے اور نہ اس میں سوراخ کر سکیں گے، فرمایا کہ یہ میرے رب کی رحمت ہے، میرے رب کی عطاء ہے، لیکن ایک وقت آئے گا کہ جب یہ دیوار ریزہ ریزہ ہو جائے گی اور میرے رب کا وعدہ پورا ہوگا۔
*یاجوج ماجوج کون ہیں* ؟
یاجوج ماجوج کے بار ے میں اتنی بات طے ہے کہ یہ عام انسانوں کی طرح انسان ہیں۔ جمہور محدثین ومؤرخین کے نزدیک یہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی اولاد میں سے خونخوار اور جنگجو قبائل ہیں۔(معارف القرآن) بعض مفسرین نے دنیا کی بعض جنگجو قوموں کو اسی نسل میں سے بھی قرار دیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ محض تخمینہ ہے۔ حتمی علم اللہ پاک کو حاصل ہے۔اس لیے کسی خاص قوم کو اس کا یقینی مصداق قرار دینا مشکل ہے۔
*ان کی تعداد کتنی ہے* ؟
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے دس حصے کیے۔ان میں سے نو حصے یاجوج ماجوج کے ہیں اور باقی ایک حصے میں باقی ساری دنیا کے انسان ہیں۔ (مستدرک حاکم بحوالہ معارف القرآن) اس سے معلوم ہوا کہ یاجوج ماجوج کی تعداد ساری نسلِ انسانی سے بہت ہی زیادہ ہے۔ (ان کے بارے میں تفصیلی کلام کے لیے تفسیر معارف القرآن جلد 5، صفحہ 38 تا 48 ملاحظہ فرمائیں) *(جاری ہے)*
❤️
3