
انوارِ عالم
June 3, 2025 at 10:23 AM
« بیس سال کی محنت کو آگ لگا دینے والی بیوی »
,,, سقراط کی بیوی ,,,
#کامیاب_خواتین
*انیس منصور مصر کے ادیب تھے*
انہوں نے `الحب معان` کتاب میں لکھا
میرا ایک دوست جو مدینہ منورہ کے علماء میں سے تھا جس کا نام *ابراھیم العیاشی* تھا
*اس نے بیس سال مسلسل محنت کیساتھ امہات المومنین کے حجروں پر ایک تحقیقی کتاب لکھی*
جس میں تفصیلاً لکھا کہ زمانہ نبوی میں امہات المومنین میں سے کس کا حجرہ کہاں واقع تھا
مگر *اس کی بیوی سقراط کی بیوی جیسی تھی* جو اپنے خاوند کو دنیا کا سب نکما اور پرانی کتابوں میں گم رہنے والا جانتی تھی
بیوی کے مطابق پانچ بچے اور ایک بیوی کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتے تھے,
*جیساکہ آج کل کہ خواتین کو اچھے خاصے محبت کرنے والے شوہر سے شکوہ ہوتا ہے کہ میرا شوہر توجہ نہیں دیتا*
ایک دن اس خاتونِ خانہ نے شیخ ابراہیم کی `وہ بیس سالہ محنت پر مشتمل کتاب اٹھائی اور جلا ڈالی`
جب شیخ کو معلوم ہوا تو بیس سالہ محنت ضائع ہونے کے صدمے سے فالج کے حملے آکر مفلوج ہوگئے!
بے شمار مفکرین کو ایسی بیویوں کیساتھ زندگی گزارنی پڑی ہے
*اب ذرا سقراط کی بیوی کا قصہ بھی سن لیں*
ایک بار سقراط کی بیوی سقراط پر زور زور سے چلانے لگی سقراط کے پاس آئے طلباء پریشان ہوگئے!
سقراط کی بیوی نے اسی پر بس نہ کیا بلکہ ٹھنڈے پانی کا پیالہ بھر لائی اور سقراط پر ڈال دیا
سقراط نے مسکرا کر کہا
*گرج کے بعد بارش تو ہوتی ہے نا*
علماء بیویوں سے ویسے کی توقع نہ رکھیں جیسے وہ اپنے طلباء سے اطاعت کی رکھتے ہیں!
*ایک بذرگ کی بیوی ان سے متاثر نہیں تھی* حالانکہ انکی کرامات کا شہرہ دور دور تک تھا
ایک دن کہنے لگی آپ *خوامخواہ میں ولی بنے پھرتے ہیں ولی تو میں نے کل دیکھا ہے جو ہوا میں اڑ رہا تھا!*
بزرگ مسکرا کر فرمانے لگے اللہ کی بندی وہ میں ہی تو تھا
بیوی جھٹ سے بولی `تبھی ٹیڑھے ٹیڑھے اڑ رہے تھے` 😀
یعنی بیوی شوہر سے کم ہی راضی ہوتی ہے!
بخاری کی حدیث پاک میں ہے
بندہ ایک عرصہ اپنی بیوی سے بھلائی کرتا ہے
پھر بیوی شوہر سے کچھ کمی دیکھتی ہے تو کہ دیتی ہے *میں نے کبھی بھی تم سے بھلائی نہیں دیکھی!*
یعنی سالوں کی بھلائی ایک بار کمی کوتاہی سے بھلا دیتی ہے!
*امام عبد الوہاب شعرانی طبقات الکبری* میں نقل فرماتے ہیں کہ
*سیدی محمد بن حمزہ* نے ارشاد فرمایا کہ تین طرح کے لوگ اکثر کامیاب نہیں ہوتے
*اول*
شیخ یعنی اللہ کے ولی کا بیٹا.
بیٹا اس لیئے کہ اس نے جب سے ہوش سنبھالا لوگوں کو دیکھا اس کے ہاتھ چومتے ہیں
اسکی ہر بات مانتے ہیں اس سے پیر کا بیٹا ہونے کی وجہ سے تبرک حاصل کرتے ہیں
یوں وہ پیر کا بیٹا تکبر میں پڑ جاتا ہے اس میں حب جاہ غالب آجاتی ہے اس پر ظالموں کی صفات کا سایہ پڑتا رہتا ہے
پھر وہ کسی واعظ کی نصیحت قبول نہیں کرتا اور پھر اکابر اولیاء و مشائخ کا انکار کر دیتا ہے
اور اگر بیٹا نیک ہو تو اکثر باپ سے بڑھ جاتا ہے
*دوم*
بیوی
یہ بھی ولی کے فیوض سے فائدہ نہیں اٹھاتی کیونکہ ولی کو بطور خاوند دیکھتی ہے
ولایت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی
بیوی سمجھتی ہے کہ خاوند قضاء شہوت میں اس کا محتاج ہے
اور اگر اللہ تعالی اس عورت کی نگاہ کو نور بخشے اور وہ خاوند کو ولایت کی نگاہ سے دیکھے تو ساری دنیا سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتی ہے
کیونکہ دن رات اسی کے بالکل ساتھ ساتھ رہتی ہے
*سوم*
خادم
خادم بھی ولی کے فیض سے فائدہ نہیں اٹھاتا اکثر کیونکہ
وہ شیخ کے کھانے پینے اور سونے سے واقف ہوتا ہے جسکی وجہ سے شیخ کو ہلکا جاننے لگتا ہے
اس لیئے صوفیاء نے فرمایا کہ
پیر کے لیئے درست نہیں کہ وہ مرید کے ساتھ کھانا کھائے اور اس کے ساتھ بغیر ضرورت کے نہ بیٹھے
کیونکہ اس سے مرید کے دل شیخ کی حرمت کم ہوتی جاتی ہے
اگر مرید عزت سے پیش آئے تو بہت فائدہ اٹھائے!
اسی لیئے کہا جاتا ہے پیر کا بیٹا پیر نہیں ہوتا
کیونکہ تکبر و غرور کی وجہ سے باپ کے فیض سے محروم رہتا ہے
اور دوسرے مشائخ کو ہلکا جاننے کی وجہ سے اندر سے کورا رہتا ہے!
لہذا یہ سمجھ لیں کہ *جب تک آپ خود باکردار نہیں ناکام ہیں*
#سیدمہتاب_عالم

❤️
👍
😂
💯
❤
😢
♥
🌹
👌
💐
154