Girls Talk With Warda| Grow, Glow & Gupshup |Deen & Duniya | Mom & Baby| Relationships | Poetry|Joks
Girls Talk With Warda| Grow, Glow & Gupshup |Deen & Duniya | Mom & Baby| Relationships | Poetry|Joks
June 11, 2025 at 03:42 AM
*محمد الضیف ۔۔۔۔ ایک سایہ جو دشمن کے اعصاب پر سوار ہے* *قسط #02* محمد الضیف کو پوشیدہ رہنے کا اس قدر اہتمام ہے کہ ان کے سسر، مصطفی العصفور، بتاتے ہیں کہ انہوں نے محمد الضیف کو صرف ایک بار دیکھا، جب وہ 2007ء میں ان کی بیٹی کا رشتہ مانگنے ان کے گھر آئے تھے۔ انہوں نے اپنی بیٹی سے اس کا ذکر کیا تو وہ خوشی سے تیار ہوگئی۔ خود انہوں نے بھی اسے اپنے لیے باعثِ فخر و اعزاز سمجھا۔ اس کے بعد نہ تو انہوں نے محمد الضیف کو دوبارہ دیکھا، اور نہ ہی اپنی بیٹی اور نواسے کے جنازے پر، حالانکہ وہ گھر جس میں یہ لوگ شہید ہوئے، غزہ کے عین وسط میں واقع ہے۔ غزہ یونیورسٹی کے پروفیسر معانی بسوس کہتے ہیں کہ محمد الضیف کی طبیعت ایسی ہے کہ وہ ایک سال سے زائد عرصہ ایک کمرے میں بند رہ کر بخوشی اور با آسانی گزار سکتے ہیں۔ وہ بہت کم لوگوں سے ملتے ہیں، ان کے روابط انتہائی محدود ہیں، انہیں اپنے اوپر مکمل ضبط حاصل ہے، اور وہ انفرادی خصوصیات کے حامل انسان ہیں۔ فرانسیسی جریدے "لاموند" نے محمد الضیف کے بارے میں جو رپورٹ شائع کی، اس کے آخری الفاظ ملاحظہ ہوں: "محمد الضیف 2014ء میں القسام کے قائدِ اعلیٰ کے طور پر باضابطہ سامنے آئے۔ اس وقت ان کے کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں ہیں اور ان کے ہاتھ میں کئی کارڈز ہیں جنہیں وہ کامیابی سے کھیل رہے ہیں۔ اسرائیل کا خیال تھا کہ وہ اس کارروائی میں ضرور نشانہ بنیں گے کیونکہ یہ آپریشن طویل منصوبہ بندی اور مستند معلومات کی بنیاد پر تیار کیا گیا تھا، لیکن حماس کے ترجمان نے اعلان کیا کہ محمد الضیف زندہ ہیں، وہ القسام کی قیادت کر رہے ہیں، اور انہوں نے چیلنج کیا ہے کہ محمد الضیف ہی وہ کمانڈر ہیں جو (ان شاء اللہ) القدس کو فتح کریں گے۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے پاس ایک بار پھر ناکامی کے ساتھ سر جھکانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔" اسلام کا یہ عظیم مجاہد اور غزہ کا شیر، اس مقام و مرتبے تک پہنچنے کے لیے جن کٹھن مراحل سے گزرا، وہ ایک سبق آموز داستان ہے۔ حالیہ جنگ بندی اور حماس کی عظیم فتح کے معاہدے کے بعد بھی محمد الضیف کا خوف اسرائیل کے اعصاب پر سوار ہے۔ اس ہفتے اسرائیل کے سب سے بڑے اخبار میں ایک دلچسپ رپورٹ شائع ہوئی جس کا عنوان تھا: "اسرائیل کا حقیقی حکمران" تجزیہ نگار نے اس مضمون میں کئی سروے، جائزے، تاثرات اور واقعات کی بنیاد پر یہ ثابت کیا ہے کہ اسرائیلی عوام جتنا محمد الضیف کے بیانات اور اعلانات پر یقین کرتے ہیں، اتنا اپنے حکمرانوں یا فوجی اداروں پر نہیں کرتے۔ اگر محمد الضیف اعلان کریں کہ وہ کوئی کارروائی کرنے والے ہیں، اور دوسری طرف اسرائیل کے تمام ادارے تحفظ کا یقین دلاتے رہیں، تب بھی ایک عام اسرائیلی خوف میں مبتلا رہے گا، تاوقتیکہ محمد الضیف خود امن کا اعلان نہ کر دیں۔ لہٰذا، حقیقی حکمران وہی ہے جس کا حکم اسرائیل پر چلتا ہے۔ آئیے، اس حقیقی حکمران "فقیر" کے کچھ حالات کا تذکرہ کرتے ہیں: محمد الضیف، جن کا اصل نام محمد دیاب المصری اور کنیت ابو خالد ہے، 1965ء میں خان یونس کے ایک مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل خاندانی علاقہ قہیہ ہے، جو مقبوضہ فلسطین کا ایک معروف قصبہ تھا۔ ان کے خاندان کو اسرائیلی قبضے کے بعد 1948ء میں وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ مختلف مہاجر کیمپوں سے گزرتے ہوئے یہ خاندان خان یونس کی ایک بستی میں آ بسا، جہاں ایک انتہائی غریب گھرانے کے ایک کمرے پر مشتمل نیم تعمیر شدہ اور ٹین کی چھت والے گھر میں وہ بچہ پیدا ہوا، جو آج "أسد الاسلام" (اسلام کا شیر) کے لقب سے پورے فلسطین میں معروف ہے۔ محمد کا بچپن اسی مہاجر کیمپ کی گلیوں میں کھیلتے کودتے گزرا۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی، گھر کی غربت میں والدین کا ہاتھ بٹایا۔ لڑکپن میں، محض 14 سال کی عمر میں، ایک چھوٹا سا مرغی خانہ قائم کیا تاکہ والدین کی مدد کر سکیں۔ وہ مختلف چھوٹے بڑے مشقت بھرے کام کرتے رہے۔ ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی، اور سکول سے فارغ ہونے کے بعد کالج میں داخلہ لیا۔ اسی زمانے میں محمد الضیف اپنے علاقے میں اپنی خوش طبعی اور کھلنڈرے پن کی وجہ سے معروف ہو گئے۔ سکول اور کالج میں وہ ڈراموں میں مزاحیہ کردار ادا کرتے اور دوستوں کو ہنساتے۔ گریجویشن کے بعد کچھ عرصہ انہوں نے اداکاری کو باقاعدہ پیشہ بنا لیا اور ٹی وی ڈراموں میں مختلف کردار ادا کیے۔ خاص طور پر ایک تاریخی ڈرامے میں "ابو خالد المبرج" کا کردار ادا کر کے بہت شہرت حاصل کی۔ ان کے قریبی دوست اور کلاس فیلو علی کا کہنا ہے کہ محمد، اپنی کھلنڈری طبیعت اور اداکاری کے باوجود، ایک بااخلاق اور باکردار شخص تھے۔ ان کی ذات میں کوئی ایسی خامی نہ تھی جس پر انگلی اٹھائی جا سکے۔ وہ دوسروں کو خوش رکھتے اور ان کی مدد کر کے خود خوش ہوتے۔ ایک بار خانیونس میں سیلاب سے شدید تباہی آئی۔ محمد ان اولین لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انہوں نے دوستوں کو جمع کیا، ملبہ ہٹایا، لوگوں کے مکانات دوبارہ تعمیر کرائے، زخمیوں کا علاج کروایا اور ہر ممکن مدد کی۔ علی مزید کہتے ہیں کہ محمد اگرچہ ظاہری طور پر خوش مزاج تھے، مگر تنہائی میں اکثر گہری سوچ میں ڈوبے رہتے۔ شاید ان کے دل میں کوئی خلش تھی، جو ہم سب محسوس کرتے تھے۔ اسی اندرونی خلش نے محمد کو راہِ راست پر لا کھڑا کیا۔ انہوں نے اداکاری کو خیرباد کہا اور مسجد کا رخ کیا۔ مسجد امام شافعی وہ پہلی جگہ ہے جہاں محمد کی نئی زندگی کا آغاز ہوا۔ محلے کے لوگوں کے مطابق جب وہ مسجد میں آئے تو پھر وہ مکمل طور پر مسجد ہی کے ہو گئے۔ مسجد کی صفائی کرنا، رضا کارانہ طور پر اس کے کاموں میں حصہ لینا، درس میں شریک ہونا، اور تنہا دیر تک مسجد میں بیٹھے رہنا ان کی پختہ عادت بن گئی۔ وہ جلد ہی نماز کے داعی بن گئے، اور نوجوانوں کو دین کی طرف بلانے کو اپنا مشن بنا لیا۔ چونکہ علاقے کے نوجوان پہلے ہی ان کے گرویدہ تھے، اس لیے وہ فوراً ان کی دعوت پر لبیک کہتے چلے گئے۔ وہ شخص جو پہلے ان نوجوانوں کو تھیٹر کی طرف لے گیا تھا، اب انہیں مسجد میں کھینچ کر لا رہا تھا۔ محمد کی بستی میں پانچ مساجد تھیں، وہ ہر مسجد میں مختلف نمازیں پڑھتے اور آس پاس کے نوجوانوں کو اپنے ساتھ لے جاتے۔ کچھ ہی دنوں میں انہوں نے "شباب المساجد" کے نام سے ایک انجمن قائم کی، جس میں ہر مسجد کے نوجوان نمازیوں کو رکن بنایا۔ یہ "شباب" اپنی اپنی مسجد کی صفائی کرتے، لوگوں کو نماز کی دعوت دیتے، اور سب سے بڑھ کر مسجد کے نمازیوں کی ہر ممکن مدد کرتے۔ ان کی مسجد کے ایک بزرگ نمازی کے مطابق: "ہم میں سے کسی کو اگر کوئی کام درپیش ہوتا، جیسے مکان بنانا ہو یا مریض کو اسپتال لے جانا ہو، تو یہ شباب فوراً ہماری مدد کو آ جاتے اور ہماری مشکل آسان کر دیتے۔"
❤️ 👍 2

Comments