Girls Talk With Warda| Grow, Glow & Gupshup |Deen & Duniya | Mom & Baby| Relationships | Poetry|Joks
Girls Talk With Warda| Grow, Glow & Gupshup |Deen & Duniya | Mom & Baby| Relationships | Poetry|Joks
June 11, 2025 at 03:42 AM
*محمد الضیف ۔۔۔ایک سایہ جو دشمن کے اعصاب پر سوار ہے* *آخری قسط* محمد الضیف اپنے علاقے میں نماز اور خدمت کا شعار بن گئے... اس دوران وہ نظریۂ جہاد سے واقف ہو چکے تھے اور جذبۂ جہاد ان کے دل میں موجزن تھا، لیکن انہوں نے اس کا اظہار نہ کیا تھا۔ وہ خاموشی سے "حماس" میں شامل ہو گئے اور شباب المساجد کے کئی ارکان کو بھی اپنی خفیہ دعوت کے ذریعے حماس کے ساتھ جوڑ لیا۔ انہوں نے مختلف اوقات میں عسکری تربیت بھی حاصل کر لی تھی اور حماس کی جانب سے اس علاقے میں ذمہ داری پر فائز ہو چکے تھے، لیکن اس بات کا علم ان کے خاص رفقاء کے سوا کسی کو نہ تھا۔ یہ راز اس وقت کھلا جب ایک بار ان کے علاقے میں "الفتح" اور "حماس" کے کارکنوں کے درمیان زبانی بحث چھڑ گئی، جو کچھ ہی دیر میں جھگڑے کی صورت اختیار کر گئی، اور دونوں جانب سے اسلحہ تان لیا گیا۔ قریب تھا کہ فائرنگ شروع ہو جاتی کہ محمد دوڑتے ہوئے آئے اور حماس کے کارکنوں کو ان الفاظ میں ڈانٹا: > "اپنا اسلحہ دشمن کے خلاف لڑنے کے لیے سنبھال کر رکھو، اللہ تعالیٰ نے یہ ہمیں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے نہیں دیا۔" حماس کے کارکن ان کی ڈانٹ سن کر جھگڑا ترک کرکے گھروں کو چلے گئے، اور اہلِ علاقہ پر یہ راز فاش ہو گیا کہ محمد الضیف ہی یہاں حماس کے کمانڈر ہیں۔ ان کی راز داری کا یہ عالم تھا کہ اس واقعے سے تین سال قبل وہ حماس کے ساتھ منسلک ہو چکے تھے، اعلیٰ قیادت کے معتمد بن چکے تھے، اور سولہ ماہ اسرائیل کی جیل میں بھی گزار آئے تھے، لیکن نہ ان تین سالوں میں ان کے اہلِ علاقہ کو اس بات کا علم ہو سکا، نہ ہی اسرائیلی سیکیورٹی ادارے سولہ ماہ کی قید کے دوران ان سے یہ راز اگلوانے میں کامیاب ہو سکے۔ 1992ء میں محمد اپنا علاقہ چھوڑ کر غزہ آ گئے اور جامعہ غزہ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے داخلہ لے لیا۔ ساتھ ہی حماس کی قیادت کے خصوصی معتمدین میں شامل ہو گئے۔ حماس کا عسکری ونگ "عزالدین القسام بریگیڈ" جو ہر اسرائیلی کے لیے موت اور خوف کی علامت بن چکا ہے، اُس وقت تشکیل کے مراحل میں تھا۔ محمد الضیف کو اس حوالے سے القسام کے بانی ارکان میں شمار کیا جاتا ہے، اور میڈیا پر زیرِ گردش ان کی واحد تصویر بھی اسی دور کی ہے، جس میں وہ حماس کے دیگر قائدین کے ساتھ بانیٔ حماس، شیخ احمد یاسین شہید رحمہ اللہ کے پہلو میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ (اس وقت ان کا نام معروف نہ تھا، بعد میں اسرائیل نے ان کی شناخت کے لیے اس تصویر کو عام کیا۔) محمد الضیف ابتدا ہی سے حماس کے انٹیلی جنس شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ اس شعبے کا کام خفیہ طور پر اسرائیل کے اندر اہداف کی تلاش اور مجاہدین کی ان تک رسائی کو ممکن بنانا تھا۔ وہ بظاہر تعلیم میں مشغول رہے، اور حقیقت میں اپنی خداداد ذہانت، پختہ تدبیر اور صبروتحمل کی فطری خصوصیات کو بروئے کار لا کر اپنے کام کو مہارت سے انجام دیتے رہے۔ چند ہی سالوں میں انہوں نے حماس کے اس نیٹ ورک کو اسرائیل کے اندر ہر طرح کی کارروائیوں کے قابل بنا دیا۔ اسی دوران القسام کے کئی اعلیٰ کمانڈر شہید ہو گئے اور القسام کی قیادت ان کے قریبی دوست صلاح شحادہ کے ہاتھ میں آ گئی۔ تب محمد الضیف کو اپنے نیٹ ورک کو عملی طور پر فعال بنانے کا حکم دیا گیا۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اسرائیلی سیکیورٹی کے جال کو توڑ کر تین اسرائیلی فوجیوں کو اغوا کیا اور چند دن بعد انہیں قتل کر کے تمام عالمِ یہود پر اپنی دہشت کا سکہ بٹھا دیا۔ اسی طرح، حماس کے میزائل سازی پروگرام کے بانی انجینئر یحییٰ عیاش کی شہادت کے بعد جب حماس قیادت نے اسرائیل کے اندر انتقامی کارروائیوں کا اعلان کیا تو اس اعلان کو عملی جامہ محمد الضیف کے نیٹ ورک نے ہی پہنایا، اور 1996ء سے اگلے تین سال تک اسرائیل مسلسل فدائی حملوں سے لرزتا رہا۔ اسرائیل کے انٹیلی جنس ادارے اس دوران یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ ان کارروائیوں کے پیچھے کس کا ذہن کارفرما ہے۔ چنانچہ ہزاروں صفحات پر مشتمل رپورٹ "محمد الضیف" کے بارے میں تیار کرکے اسرائیلی حکومت کو دی گئی اور کہا گیا کہ جب تک اس شخص کو ختم نہ کیا جائے، اسرائیل محفوظ نہیں ہو سکتا۔ اسرائیل نے محمد الضیف تک رسائی کے لیے ہر ممکن کوشش کی، تمام وسائل استعمال کیے، بے پناہ رقم خرچ کی، لیکن وہ احتیاط اور خفیہ کاری کی انتہا کو پہنچے ہوئے الضیف کو تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ 2000ء میں فلسطینی اتھارٹی نے ایک سفر کے دوران انہیں گرفتار کر لیا۔ جب اسرائیل کو اس کا علم ہوا تو اس نے فلسطینی اتھارٹی کو ہر طرح کی سودے بازی کی پیشکش کی کہ جو چاہے لے لے، لیکن الضیف کو ہمارے حوالے کر دے۔ یہ سودا اپنے آخری مراحل میں تھا کہ محمد الضیف جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ "فتح" میں موجود اسرائیل مخالف جہادی ذہن رکھنے والے بعض قائدین نے اس فرار کی راہ ہموار کی، جو اپنی حکومت کے اس شرمناک سودے پر ناخوش تھے۔ بہرحال، جو بھی ہوا، اللہ تعالیٰ کی مدد سے محمد الضیف اس جیل سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے، اور پھر آج تک ان تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور امت کے اس فخر کو سلامتی کے ساتھ کفارِ یہود کے سروں پر مسلط رکھے۔ آمین۔ البتہ، اس دوران وہ چار بار قاتلانہ حملوں کی زد میں آ چکے ہیں۔ ان کی ایک آنکھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو چکی ہے، اور کمر میں شدید چوٹ کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو چکے ہیں، لیکن ان کا رعب اور خوف کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ کے آخری حملے میں وہ خود مکمل محفوظ رہے، لیکن ان کی باوفا شریکِ حیات اور کمسن بیٹے "احمد" شہید ہو گئے۔ ستمبر کی ایک اتوار کو اسرائیلی ٹیلی ویژن نے اسرائیلی عوام سے اس ناکام آپریشن پر معافی مانگی اور بتایا کہ مکمل اور یقینی انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کیے گئے اس آپریشن کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ پہلے تین میزائل جو اس گھر پر فائر کیے گئے، وہ پھٹے ہی نہیں۔ تین منٹ بعد مزید دو میزائل فائر کیے گئے جن سے گھر مکمل تباہ ہو گیا، مگر محمد الضیف غالباً اس دوران وہاں سے نکلنے میں کامیاب رہے۔ محمد الضیف کے بارے میں ایک آخری اور نہایت سبق آموز بات ان کے ایک قریبی رفیق نے ذکر کی، وہ یہ کہ انہیں اپنے اسیر ساتھیوں کی ہر وقت فکر لاحق رہتی ہے، اور وہ انہیں رہا کرانے کے لیے بے چینی کے عالم میں کارروائیاں ترتیب دیتے رہتے ہیں۔ اسرائیلی فوجی گیلعاد شالیت کا زندہ اغوا اور اس کے بدلے ہزاروں فلسطینیوں کی رہائی ان کی اسی فکر کا واضح ثبوت ہے۔ حالیہ آپریشن کے دوران بھی انہوں نے القسام دستوں کو خصوصی تاکید کی کہ زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو زندہ گرفتار کرنے کی کوشش کریں تاکہ ان کے بدلے قیدی چھڑائے جا سکیں۔ یہ ہے امت مسلمہ کے اس حقیقی ہیرو کی مختصر داستان، جو آج عالمِ کفر کے لیے دہشت و خوف اور اہلِ ایمان کے لیے فتح و نصرت کی علامت بن چکا ہے۔ مسجد کے خادم سے اسرائیل کے حقیقی حکمران تک کا ان کا یہ سفر ہر مسلمان اور ہر مجاہد کے لیے سبق سے بھرپور ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس عظیم بندے کی ہر پہلو سے حفاظت فرمائے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اس بات کے حقیقی مستحق ہیں کہ انہیں پہچانا جائے اور ان سے محبت کی جائے۔ ان کی محبت ہی ایک قیمتی عمل اور نجات کا ذریعہ ہے، اور اسی پر مغفرت کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ (القلم شمارہ 459/461)
❤️ 👍 6

Comments