
❣︎مُحِّبِ اُرْدُوْ أدب شاعری❣︎ Urdu Islamic Stories & Poetry & Status & Deeni Knowledges Indian News
June 5, 2025 at 07:57 AM
*🌴🌴🌴مُحبِ اُردُو🌴🌴🌴*
*کیا صومِ عرفہ کا تعلق وقوفِ عرفہ سے ہے*؟
قارئین کرام: اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ وقوفِ عرفہ اسلام سے قبل ہوا کرتا تھا.
لیکن کیا جو فضائل یوم عرفہ اور وقوفِ عرفہ کے دین اسلام میں موجود ہیں کیا وہی فضیلتیں ما قبل اسلام بھی موجود تھیں؟
اگر نہیں تو اسلام کے پہلے کے وقوف عرفہ سے صوم عرفہ پر استدلال کرنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟
*کیوں کہ اگر صوم عرفہ کی فضیلت وقوفِ عرفہ سے مرتبط ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے تو پھر ماقبل اسلام وقوف عرفہ کو وہ فضائل حاصل نہیں تھے جو شریعت اسلامیہ نے اسے عطا کیا ہے، تو پھر صوم عرفہ کو اسلام سے پہلے کے وقوف عرفہ سے جوڑنا صوم عرفہ کی فضیلت کو کم کرنا ہے*.
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے روزہ میں وقوف عرفہ کا اعتبار کیا یا پھر رؤیت کا؟
بعض ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے مروی ہے کہ: ((أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصوم تسعا من ذي الحجة......)).
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ذی الحجہ کے ابتدائی نو دن روزہ رکھتے تھے..
امام ابو داؤد نے اپنی سنن میں حدیث نمبر (٢٤٣٧) کے تحت اس کو ذکر کیا ہے، اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو. صحیح قرار دیا ہے، گرچہ بعض علماء نے اس حدیث کو مضطرب کہا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ہر مضطرب حدیث ضعیف ہو، اور یہی حال اس حدیث میں ہے، اس حدیث کے مختلف طرق ہیں جن میں بعض طرق راجح ہے اسی بنا پر شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے.
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے روزے استمرار کے ساتھ رکھتے تھے، اور یہ عمل حج سے قبل کا ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری سال میں حج کیا ہے، اور دوران حج عرفہ کا روزہ نہیں رکھا جیسا کہ ام فضل رضی اللہ عنہا کی روایت ہے: "شَكَّ النّاسُ يَومَ عَرَفَةَ في صَوْمِ النبيِّ ﷺ، فَبَعَثْتُ إلى النبيِّ ﷺ بشَرابٍ فَشَرِبَهُ".
یعنی دوران حج عرفہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے متعلق لوگ مترد تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا یا نہیں؟ ام فضل رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ کو ایک مشروب بھیجا جسے آپ نے پی لیا.
[صحيح البخاري (١٦٥٨)]
اس حدیث سے پتہ چلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ہر سال روزہ رکھتے تھے، اس لئے لوگ حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن نبی کے روزے کے متعلق متردد تھے.
مذکورہ دونوں حدیثوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ کا روزہ مدینہ میں رکھا کرتے تھے.
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ کا روزہ رکھنے کیلئے عرفہ میں حاجیوں کے وقوف کا اعتبار کرتے تھے؟
یا پھر اپنی رؤیت پر اعتبار کرتے ہوئے ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو روزہ رکھتے تھے؟
قارئین کرام: راجح قول کے مطابق حج کی فرضیت سن نو ہجری میں ہوئی، مطلب یہ کہ اس سے قبل مسلمان عرفہ میں وقوف نہیں کرتے تھے، تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین مدینہ میں کون سے وقوف کا اعتبار کرکے روزہ رکھتے تھے؟
ظاہر سی بات ہے کہ رؤیت کے علاوہ کسی اور چیز کا اعتبار ممکن نہیں ہو سکتا، کیوں کہ جب عرفہ میں وقوف ہی نہیں ہو رہا تھا تو رؤیت کا ہی اعتبار بچتا ہے.
نیز کسی بھی صحیح حدیث میں ہمیں یہ نہیں ملتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کا روزہ رکھنے کیلئے وقوف عرفہ کا اعتبار کیا ہو.
*اسی طرح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے روزے کی فضیلت اپنی امت کے سامنے بیان کی تو اس وقت بھی امت کو یہ نہیں بتایا کہ روزہ کا تعلق نویں ذی الحجہ سے نہیں بلکہ میدان عرفہ میں حاجیوں کے وقوف سے ہے، اس لئے عرب اور دنیا کے دیگر تمام ممالک کیلئے ضروری ہے وہ پہلے سعودی عرب سے یہ تصدیق کرلیں کہ ان کے یہاں عرفہ کب ہے؟ تبھی اپنے اپنے ملک میں عرفہ کا روزہ مکہ کے حساب سے رکھیں*!!!!
ایسا کچھ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو نہیں بتایا، اور معروف قاعدہ ہے کہ "لا یجوز تاخیر البیان عن وقت الحاجۃ" یعنی جس وقت جس مسئلہ کی وضاحت کی ضرورت ہو بلا تاخیر اسی وقت اس مسئلہ کی وضاحت کی جائے گی.
مذکورہ سطور سے یہ معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ کا روزہ نویں ذی الحجہ کو رؤیت کے حساب سے رکھتے تھے، حجاج کے وقوفِ عرفہ کا اعتبار نہیں کرتے تھے.
اب آئیں خلفائے راشدین کے زمانے میں، خلفائے راشدین میں سے ہر ایک نے امت کو متحد ومتفق رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی، اگر مکہ کی رؤيت سے امت کے مابین اتحاد واتفاق پیدا ہوتا تو اس کار خیر کی جانب سب سے پہلے خلفائے راشدین قدم بڑھاتے، لیکن انہوں نے اپنے زمانے میں رؤیت وحدت کے تعلق سے کوئی ایسا فرمان جاری نہیں کیا جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ مکہ کی رؤیت پوری ملت اسلامیہ کے لیے معتبر ہوگی.
بلکہ علی رضی اللہ عنہ کا دار الخلافہ کوفہ تھا، اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا دار الخلافہ شام تھا، اور دونوں مکہ سے کافی دور ہے، لیکن اس کے باوجود یہ دلیل نہیں ملتی کہ ان دونوں حضراتِ صحابہ نے کوفہ وشام میں لوگوں کو مکہ کے اعتبار سے عرفہ کا روزہ رکھنے کا مکلف کیا ہو، یا پھر اس کیلئے کوشش کی ہو.
اسی طرح بعد کے زمانے میں چلے جائیں کسی مسلم حاکم نے ایسی کوشش نہیں کی.
معلوم یہ ہوا کہ چند دہائی قبل تک امت کا تعامل اسی بات پر رہا ہے کہ رؤیت کے اعتبار سے روزہ رکھا جائے، چاہے وہ رمضان کا روزہ ہو یا پھر عرفہ اور دیگر ایام کے روزے.
# ایک شبہ یہ بھی پیدا کیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کا روزہ رکھنے کیلئے کہا ہے، نہ کہ نویں ذی الحجہ کا، اس لئے روزہ اسی دن رکھا جائے گا جس دن مکہ میں عرفہ ہوگا.
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: صِيامُ يومِ عَرَفَةَ، إِنِّي أحْتَسِبُ على اللهِ أنْ يُكَفِّرَ السنَةَ التي قَبلَهُ، والسنَةَ التي بَعدَهُ، وصِيامُ يومِ عاشُوراءَ، إِنِّي أحْتَسِبُ على اللهِ أنْ يُكَفِّرَ السنَةَ التِي قَبْلَهُ.
یعنی یوم عرفہ کے روزہ کے عوض اللہ رب العالمین گذرے ہوئے ایک سال اور آنے والے ایک سال یعنی دو سال کے گناہ معاف فرما دیتا ہے.... الحدیث
[صحیح مسلم (١١٦٢)]
محترم قارئین: در اصل یوم عرفہ نویں ذی الحجہ کا ہی دوسرا نام ہے، یعنی ذی الحجہ کہ نویں تاریخ کو یوم عرفہ بھی کہا جاتا ہے، جیسے ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کا نام یوم الترویہ ہے، دسویں تاریخ کا نام یوم النحر ہے، گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخ کا نام ایام تشریق ہے، اسی طرح نویں ذی الحجہ کا نام عرفہ ہے، بلکہ نویں ذی الحجہ کا ایک نام قرآن میں وَتْر بھی ہے، گویا ذی الحجہ کی نویں تاریخ کا الگ سے دو نام ہے ایک عرفہ اور دوسرا وتر.
اور یہ نام حجاج کے وقوفِ عرفہ کے اعتبار سے نہیں بلکہ رؤیت کے اعتبار سے ہے.
*یعنی اگر حجاج کسی وجہ کر عرفہ میں وقوف نہیں بھی کریں گے پھر بھی اس دن کا نام عرفہ ہی ہوگا*
ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: "فأما يوم عرفة: فهو اليوم التاسع من ذي الحجة".
یوم عرفہ ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو کہتے ہیں.
[المغنی (٤/ ٤٤٢)]
امام شمس الدین زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: "ويوم عرفة هو اليوم التاسع من ذي الحجة بلا ريب".
اس میں کوئی شک نہیں کہ یوم عرفہ ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو کہتے ہیں.
[شرح الزرکشی (٢/ ٦٤٠)]
امام عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: صحیح بات یہ ہے کہ یوم عرفہ نویں ذی الحجہ کو ہی کہتے ہیں.
[عمدۃ القارئ (٢/ ٢٥٩)]
امام محمد بن عبد اللہ الخرشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: صوم عرفہ میں عرفہ سے مراد میدان عرفات میں حاجیوں کا وقوف نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد نویں ذی الحجہ ہے..
[شرح مختصر خلیل (2/ 234)]
اور بھی دیگر علماء نے نویں تاریخ کو ہی یوم عرفہ قرار دیا ہے، بخوفِ طوالت ان کے اقوال نقل نہیں کئے جا رہے ہیں.
قارئین کرام: ایک اور بات یاد رکھنی نہایت ضروری ہے کہ بعض ممالک میں سعودی عرب سے قبل چاند نظر آجاتا ہے، جیسے نائجیریا، کینیا، یمن اور لیبیا وغیرہ میں، اگر ان ممالک کے لوگ حجاج کے وقوفِ عرفہ کا اعتبار کریں گے تو عرفہ کا روزہ نہیں رکھ پائیں گے کیونکہ جس دن مکہ میں عرفہ ہوگا ان کے یہاں عید ہوگی.
اور بعض ممالک میں چاند کا پہلے نظر آنا مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے، ان ممالک کے کئی طلاب علم ہمارے ساتھی ہیں جن سے ہم نے اس معاملے کی تحقیق کی ہے، اور انہوں نے اس امر کی تصدیق بھی کی ہے.
خلاصہ کلام یہ کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ کا روزہ ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو رکھتے تھے، حجاج کے وقوف عرفہ کا اعتبار نہیں کرتے تھے، کیوں کہ اس وقت حج فرض ہی نہیں ہوا تھا، اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو مکہ بھیج کر یہ معلوم کرواتے کہ مکہ میں عرفہ کب ہے؟ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ذی الحجہ کا چاند دیکھتے اور جس دن مدینہ میں ذی الحجہ کی نویں تاریخ ہوتی اسی دن عرفہ کا روزہ رکھتے، اسی طرح خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اسی پر عمل کرتے رہے، وہ اہل مکہ سے تصدیق کروا کر نویں ذی الحجہ کا روزہ نہیں رکھتے تھے.
نیز یہ بھی پتہ چلا کہ ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو ہی عرفہ کا روزہ رکھا جائے گا.
اور نبی کے زمانے سے لے چند دہائی قبل تک امت اسی پر عمل کرتی رہی اور اپنے یہاں کی رؤیت کا اعتبار کرکے عرفہ کا روزہ رکھتی رہی.
اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، اور تعامل ملت اسلامیہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ عرفہ کا روزہ نویں ذی الحجہ کو ہی رکھا جائے گا، گرچہ وہ نویں ذی الحجہ وقوفِ عرفہ سے قبل ہو یا اس کے بعد.
واللہ اعلم بالصواب.
ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

❤️
❤
👍
💎
😮
17